وزیرستان کے بیشتر مکینوں کی طرح دوران خان کا خاندان بھی موسم سرما ڈیرہ اسماعیل خان اور موسم گرما جنوبی وزیرستان میں اپنے آبائی گاؤں میں گزارتا آرہا ہے۔
2014 میں وزیرستان میں موجود دہشت گردوں کے خلاف آپریشن اور اس کے ڈیڑھ سال بعد پاکستانی فوج کی جانب سے علاقہ محفوظ قرار دیے جانے کے بعد وزیرستان کے مکین ایک مرتبہ پھر گرمی اپنے آبائی علاقوں میں گزارنے کے لیے تیار ہوئے۔
دوران خان کے گھر میں بھی جیسے ہی وزیرستان جانے کی بات ہوئی تو بچے کھل اٹھے۔ کوئی اپنی چپلیں چمکانے لگا تو کوئی سفر پر جانے کے لیے اپنی والدہ سے کپڑوں کا پوچھنے لگا۔
تاہم جون کے پہلے ہفتے میں سفر کی اگلی صبح مکان کے سب بچے بکریاں چرانے باہر نکلے۔ بچوں کے کھیل کود میں مگن ہوتے ہی بکریاں دور نکل گئیں، جن کی تلاش میں پانچوں بچے ایسے مقام پر پہنچ گئے جہاں بارودی سرنگیں (لینڈ مائنز) بچھائی گئی تھیں۔
بچوں کے چچا حبیب اللہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اس حادثے کے نتیجے میں ان کی ایک بھتیجی اور بھتیجا زخمی جبکہ تین بھتیجے فوت ہو گئے۔
انہوں نے بتایا: ’قادر اور حکیم اللہ دونوں بھائی اور میرے بھتیجے تھے جبکہ عادل میرے دوسرے بھائی کا بیٹا تھا۔ یہ تینوں موقعے پر ہی دم توڑ گئے۔ اس حادثے کے بعد ہمارا گھر جیسے بچوں سے خالی ہو گیا ہے۔ سب بچے حادثے کا شکار ہوگئے۔ ہم نے کئی بار درخواست کی تھی کہ علاقے کو صاف کیا جائے لیکن کسی نے نہیں سنا۔‘
جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے بی ایس کے طالب عالم ایمان شاہ بھی بچپن میں بارودی سرنگ کے دھماکے میں ایک پاؤں سے محروم ہو گئے تھے۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وہ 2010 میں جب چوتھی جماعت کے طالب علم تھے تو سکول جاتے ہوئے بارودی سرنگ کے دھماکے کا شکار ہو گئے تھے، جس کے بعد انہیں نہ صرف کاروبار زندگی سنبھالنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا بلکہ ایک غریب خاندان سے تعلق رکھتے ہوئے مالی بوجھ بھی ان پر آن پڑا۔
’ہسپتال میں ہمارے چار لاکھ روپے خرچ ہوئے، جو ہم نے قرض لے کر پورے کیے۔ مجھے مصنوعی ٹانگ لگوا دی گئی جو ہر دو سال بعد میرا قد بڑھنے کی وجہ سے تبدیل کرنی پڑتی ہے۔ ہر سال اس پر لاکھوں کا خرچہ آتا ہے۔ ڈاکٹروں کے مطابق جب تک قد بڑھنا رک نہیں جاتا تب تک مصنوعی ٹانگ لگتی رہے گی۔‘
ایمان شاہ نے بتایا کہ بچپن میں ان کی خواہش تھی کہ وہ کھیلوں کی دنیا میں نام پیدا کریں یا پاکستانی فوج میں شمولیت اختیار کریں تاہم ایسا نہ ہو سکا، ’میری حسرتیں مٹی میں مل گئیں اور دوسری جانب علاج معالجے کی وجہ سے ہم قرض تلے دب گئے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ معذوری کا سرٹیفکیٹ ملنے کے باوجود انہیں آج تک معذور افراد کو دی جانے والی مراعات تک نہیں مل سکیں۔
قبائلی اضلاع سے تعلق رکھنے والے صحافی عدنان بیٹنی بارودی سرنگوں اور اس کے نتیجے میں پیش آنے والے واقعات کے بارے میں رپورٹنگ کرتے رہے ہیں۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’بارودی سرنگوں کے حوالے سے سرکاری اعدادوشمار موجود نہیں ہیں، تاہم اپنی مدد آپ کے تحت علاقائی رضاکاروں نے 2018 کے بعد لینڈ مائنز کے واقعات اور ان کا نشانہ بننے والے افراد کا غیر سرکاری ریکارڈ جمع کرنا شروع کیا ہے۔ ان اعداد و شمار کے مطابق 2018 کے بعد جنوبی و شمالی وزیرستان میں تین سو سے زائد افراد بارودی سرنگوں کا نشانہ بنے، جس میں دو سو کے قریب بچے شامل تھے۔‘
انہوں نے مزید بتایا: ’2018 کے بعد جمع کیے جانے والے ڈیٹا کے مطابق وزیرستان میں بارودی سرنگوں کے 189 دھماکے ہوئے، جن کے نتیجے میں تقریباً 22 افراد ہلاک ہوئے۔ ان میں 14 بچے اور چار خواتین شامل تھیں۔‘
عدنان کے مطابق زیادہ تر بارودی سرنگوں کے دھماکے جنوبی وزیرستان میں ہوئے ہیں، جن کا زیادہ تر شکار بچے اور خواتین ہوئی ہیں۔ انہوں نے اس کی وجوہات بیان کرتے ہوئے کہا: ’اکثر کھیل کود میں بچے ایسی جگہ پہنچ جاتے ہیں جہاں بارودی سرنگیں نصب ہوتی ہیں۔ ان علاقوں میں مویشی چرانے اور پانی لانے کا کام اکثر بچوں اور خواتین کے ذمے ہوتا ہے، اس لیے نہ صرف وہ بلکہ مویشی بھی ان حادثات کا نشانہ بنتے ہیں۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ وزیرستان میں تقریباً ہر دوسرے تیسرے روز مویشی بھی بارودی سرنگوں کے حادثات کا نشانہ بنتے ہیں تاہم ان کا ریکارڈ ابھی تک کسی نے جمع نہیں کیا۔
وزیرستان کے مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ بارشوں کے بعد سیلابی پانی کی وجہ سے کئی بارودی سرنگوں کا ٹھکانہ تبدیل ہو گیا ہے اور اب کوئی بھی جگہ محفوظ نہیں رہی ہے۔
عدنان بیٹنی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ قبائلی اضلاع کے عوام کے پر زور مطالبات اور درخواستوں کے باوجود بارودی سرنگوں کو نہیں ہٹایا جا سکا ہے۔ ’نہ تو ان علاقوں میں بارودی سرنگوں کا سراغ لگانے کا کوئی عملہ موجود ہے اور نہ ہی حادثات کی فوری خبر دینے کا کوئی مواصلاتی نظام، جس کے ذریعے متاثرین کی بروقت طبی امداد کی اطلاع دی جا سکے۔‘
بارودی سرنگوں کے خاتمے کے لیے پیٹیشن
رواں ماہ 10 جون کو پانچ وکلا نے پشاور ہائی کورٹ کے توسط سے وفاقی اور خیبر پختونخوا حکومت کو قبائلی اضلاع خصوصاً وزیرستان میں بارودی سرنگوں کے دھماکوں سے متاثرہ خاندانوں کی مالی امداد اور علاقے کو بارودی سرنگوں سے صاف کرنے کی درخواست کی ہے۔
ہائی کورٹ کے وکیل سجاد احمد محسود اور ان کے چار ساتھیوں نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے درخواست کی ہے کہ وہ جنوبی وزیرستان سے باردوی سرنگیں ہٹوائیں اور جب تک یہ کام مکمل نہیں ہوتا تب تک متاثرہ علاقوں کو ریڈ زون قرار دے کر ان کی واضح نشان دہی کی جائے تاکہ لوگ وہاں نہ جائیں۔ انہوں نے یہ درخواست بھی کی ہے کہ بارودی سرنگیں پھٹنے سے ہلاک ہونے والوں کو شہدا پیکیج دیا جائے۔
درخواست میں رقم ہے کہ جنوبی وزیرستان میں پچھلے دو برس میں بارودی سرنگیں پھٹنے کے 178 واقعات پیش آ چکے ہیں، جن میں آٹھ سو افراد مارے جا چکے ہیں جبکہ ڈھائی سو معذور اور 77 نابینا ہو چکے ہیں۔
وکلا نے درخواست میں لکھا ہے مقامی پولیس باردوی سرنگیں پھٹنے کے واقعات کی ایف آئی آر درج نہیں کرتی، اس لیے اسے حکم دیا جائے کہ وہ ان واقعات کے مقدمات درج کرے۔
تین جون کو خیبر پختونخوا کی صوبائی اسمبلی میں بھی ارکان اسمبلی نے ضم شدہ اضلاع میں بارودی سرنگ پھٹنے اور اس کے نتیجے میں پیش آنے والی اموات پر تشویش کا اظہار کیا اور ذمہ دار اداروں سے ان علاقوں کو صاف کرنے کی درخواست کی تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بارودی سرنگیں کتنی قسم کی ہیں؟
بارودی سرنگوں کی مختلف قسمیں ہیں۔ ایک جو زیر زمین بچھائی جاتی ہیں جبکہ دوسری جسے زمین کی بیرونی سطح پر بھی نصب کیا جاتا ہے۔ زیرِ زمین قسم باہر سے نظر نہیں آتی اور اس پر دباؤ پڑنے سے دھماکہ ہوتا ہے، جبکہ دوسری قسم وہ ہے جس کے اوپر کیلیں اس طرح سے لگائی جاتی ہیں کہ کسی بھی کیل پر دباؤ پڑنے سے مطلوبہ ہدف نشانہ بن سکے۔
وزیرستان میں ان لینڈ مائنز کی زیادہ تر وہ قسم پائی جاتی ہے، جو باہر سے نظر نہیں آتی اور جس پر دباؤ پڑنے سے دھماکہ ہوتا ہے۔
پاکستانی فوج کے مطابق شدت پسندی کی لہر کے دوران وزیرستان میں بارودی سرنگیں دہشت گردوں نے بچھائی تھیں جبکہ بعض حلقے سکیورٹی فورسز پر اس کی کچھ ذمہ داری ڈالتے ہیں، تاہم سکیورٹی اہلکار ان دعووں کو مسترد کرتے ہیں۔
شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ نے انڈپینڈنٹ اردو سے خصوصی گفتگو میں کہا: ’ریاستی ادارے اس معاملے کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے میں دلچسپی نہیں لے رہے۔‘
ان کا کہنا تھا: ’وزیرستان میں بارودی سرنگیں اور اس کے نتیجے میں ہونے والے دھماکے سنگین نوعیت اختیار کر چکے ہیں۔ تاثر یہ مل رہا ہے کہ جیسے انسانی تحفظ ریاست کی ترجیحات میں شامل نہیں ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’آپریشنز کے دوران بارودی سرنگیں بچھا کر چھوڑ دی گئیں جن کا اصل ٹھکانہ سیلابی ریلوں کی وجہ سے بدل گیا ہے اور جو حادثات کا سبب بن رہی ہیں۔‘
بارودی سرنگیں ہٹانے کے لیے کتنا کام ہو چکا ہے؟
1997 میں اقوام متحدہ میں پیش کی جانے والی ایک قرارداد کو پاکستان سمیت 150 ملکوں نے منظور کیا تھا، جس کے مطابق بارودی سرنگوں کو غیر قانونی قرار دیا گیا تھا۔
بین الاقوامی قوانین کے مطابق کسی ملک کی فوج اگر کسی جگہ پر بارودی سرنگیں بچھائے تو فوج ان بارودی سرنگوں کے ٹھکانوں کا نقشہ بنانے اور درخواست پر یہ نقشہ فراہم کرنے کی پابند ہے۔
وزیرستان میں حالیہ بارودی سرنگ کے دھماکے پر اقوام متحدہ کے فنڈ برائے اطفال (یونیسف) نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے ایک مرتبہ پھر یہ یاددہانی کرائی ہے کہ ادارہ بارودی سرنگوں کے نتیجے میں پیش آنے والے واقعات سے آگاہی پھیلانے کے لیے حکومت پاکستان کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے۔ ساتھ ہی عالمی ادارے نے اس بات پر زور دیا کہ ان علاقوں سے بارودی سرنگوں کی صفائی کا کام جلدازجلد مکمل کیا جائے۔
پاکستان فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے سربراہ میجر جنرل بابر افتخار نے زیرستان میں بارودی سرنگوں کے موضوع پر بیان دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’پاکستان فوج نے قبائلی اضلاع سے تقریباً 48 ہزار بارودی سرنگوں کی صفائی کر دی ہے۔‘
انہوں نے 22 فروری کو دہشت گردی کے خلاف آپریشن ’ردالفساد‘ کے چار سال مکمل ہونے پر ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ باردوی سرنگیں صاف کرنے کے دوران فوج کے دو جوان جان سے گئے، جب کہ 119 زخمی ہوئے۔
تاہم ابھی تک ایسا کوئی ریکارڈ فراہم نہیں کیا گیا ہے جس سے معلوم ہو سکے کہ کن علاقوں کو صاف کیا گیا ہے اور کون سے علاقے تاحال خطرناک ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو کے ذرائع کے مطابق جنوبی وزیرستان میں پاکستانی فوج کی 40 سے زائد ٹیمیں اس وقت دھماکہ خیز مواد کی صفائی میں مصروف عمل ہیں۔