فاطمہ بھٹو کی شادی: ذوالفقار بھٹو جونیئر کا کرتا کتنے کا تھا؟

ذوالفقار علی بھٹو نے فاطمہ بھٹو کی شادی پر جو کرتا پہنا، ہاتھ کی کڑھائی سے لفظ ’آنگن‘ اس پر کالر کے نیچے لکھا ہوا ہے اور اس سفید سوتی کرتے پر گن کر کوئی بیس پچیس بالکل چھوٹے سے گلاب کاڑھے گئے ہیں۔

فاطمہ بھٹو کی شادی پر لی گئی ایک تصویر (فاطمہ بھٹو انسٹاگرام اکاؤنٹ)

ذوالفقار علی بھٹو جونیئر کے کپڑے کافی دلچسپ ہوتے ہیں، مجھے پسند ہیں۔

فاطمہ بھٹو کی شادی کی تصویریں جب فیس بک پر مختلف جگہ پر لگی دیکھیں تو تھوڑا تجسس ہوا کہ بظاہر سادہ سا دکھائی دینے والا ذوالفقار علی بھٹو جونیئر کا یہ کرتا کتنے کا ہو گا؟

انٹرنیٹ پر یہاں وہاں ڈھونڈا تو ڈیزائنر کا پتہ چل گیا۔

ویسے تو بھٹو جونیئر خود بھی ٹیکسٹائل آرٹسٹ ہیں لیکن یہ کرتا انہوں نے ’آنگن بازار‘ کا بنا ہوا پہنا ہے۔

آنگن بازار میرے لیے ایک نیا نام تھا۔ جتنی تفصیلات انسٹاگرام پر انہوں نے خود لکھی ہوئی تھیں وہ تو دیکھ لیں مگر سمجھ پھر بھی نہیں آ رہا تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو جونیئر نے انہی کا بنایا کرتا آخر کیوں پہنا؟

تب ایک لفظ کا میں نے پیچھا کرنا شروع کیا، جو ’آنگن‘ کے فیس بک پیج پر لکھا تھا۔

وہ لفظ تھا: ’سلو فیشن – Slow Fashion‘

سلو فیشن ایک ایسی تحریک ہے جو موجودہ فیشن انڈسٹری میں بہتر ماحول اور سماجی انصاف کا بینر اٹھا کے چلتی ہے۔  

ماحولیات؟ میں نے سوچا یہ تو پہلے ہی ہاٹ کیک ہے مغرب کا، دوسرا کیا پوائنٹ کام کا ہو سکتا ہے ’سلو فیشن‘ میں ۔۔۔ یعنی ایسا کچھ تو ہو کہ جس پر لکھا جائے تو احساس نہ ہو کہ بندہ بک گیا۔ ماحولیات کا شور ہر طرف ہے اور اس میں فنڈنگ بھی ہے، تو کپڑے بنانے میں بھی وہی منجن؟ یہ سوال بس ذہن میں تھا۔

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

A post shared by Aangan (@aangan.bazaar)

جواب یہ تھا کہ ’چیز اتنی بنائی جائے جتنی ضرورت ہو، جس کے بنانے میں سامان یا وسائل ضائع ہونے کا امکان صفر ہو اور وہ چیز بیچی بھی اسی حساب سے جائے۔‘

یہ جواب مجھے آنگن‘ کو چلانے والے عبدالرحمٰن سے ملا۔ ’ان کا تو یہ بھی کہنا تھا کہ ’اگر کوئی میرا ڈیزائن کاپی کرتا ہے تو اس پر بھی میں تو خوش ہوں گا کیوں کہ یہ چیز بھی ہمارے پیغام کو آگے بڑھا رہی ہے کہ وہ سب چیزیں جو ہمارے بڑے پہنتے تھے، ہماری عورتیں بنایا کرتی تھیں، وہ دوبارہ فیشن میں آ رہا ہے اور بن بھی اسی طرح سے رہا ہے گھروں میں، آرام سے، فراغت کے وقت میں۔ وہ لوگ بنائیں گے، کاپی کریں گے، پہنیں گے، دوسرے دیکھیں گے اور وہ پسند کریں تو خود بھی اس طرف مائل ہوں گے۔‘

ایک چیز میرے ذہن میں یہ تھی کہ اس کاروبار میں بھی دور دراز گاؤں میں بیٹھے کاریگروں کو تھوڑے سے پیسے ملتے ہوں گے اور برانڈ ہزاروں کماتا ہوگا تو اس پر بھی عبدالرحمٰن نے واضح کیا کہ ’آنگن‘ نہ صرف ایک مخصوص پرسنٹیج اپنے کاریگروں کو دیتا ہے بلکہ اس چیز کی بھی اجازت ہوتی ہے کہ جو ڈیزائن ’آنگن‘ نے بنوایا ہے، وہ کاریگر خود آگے بنا کر کسی کو بھی بیچ سکتے ہیں یا اپنی کوئی دکان ہے تو اس میں بھی رکھ سکتے ہیں۔

’جن سے میں کھسہ بنواتا ہوں، دو جوڑے ان سے بنوائے تو اگلی مرتبہ دیکھا کہ چھ ویسے ان کی دکان پر موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مقامی لوگ نہ صرف پسند کر رہے ہیں بلکہ خرید بھی رہے ہیں‘

ماحول کے حوالے سے عبدالرحمٰن نے جینز کی مثال دی۔ ’ایک جینز بننے میں کئی سو لیٹر پانی لگتا ہے، کاربن کا اخراج ہوتا ہے، جب کہ ہمارے جو کپڑے ہیں وہ دیسی طریقے سے کھڈی پہ بنتے ہیں، عورتیں کھانا پکاتے ہوئے، یا گھر میں لیٹے لیٹے کسی بھی وقت فرصت میں کڑھائی کر لیتی ہیں اور ہمارے دیسی طریقوں میں پہلے بھی وسائل ضائع ہونے کا امکان کب تھا؟ پھر ان کپڑوں میں ہاتھ سے بنے ہونے کا ایک پرسنل ٹچ بھی ہوتا ہے، وہ کہ جس کے پیچھے مغرب والے اب بھاگتے ہیں کہ چیزیں ہاتھ سے بنی ہوں۔‘

ذوالفقار علی بھٹو نے فاطمہ بھٹو کی شادی پر جو کرتا پہنا، وہ ’آنگن‘ پر سات ہزار روپے کا دستیاب ہے۔ ہاتھ کی کڑھائی سے ہی لفظ آنگن کالر کے نیچے لکھا ہوا ہے اور اس سفید سوتی کرتے پر گن کر کوئی بیس پچیس بالکل چھوٹے سے گلاب کاڑھے گئے ہیں۔

عبدالرحمٰن نے بتایا کہ ’اس کرتے کا نام ہم نے ’گلاب‘ رکھا ہے۔ فاطمہ بھٹو نے خود ’پنک ٹری‘ کا جوڑا پہنا اور ذوالفقار نے ’گلاب‘ پسند کیا۔ یہ ان کی زندگی کا سب سے بڑا ایونٹ تھا، ان کے گھر کی پہلی خوشی تھی اور انہوں نے اس چیز کو اہمیت دی کہ کپڑا وہ پہنا جائے جو ماحول دوست ہو، پھر اگلے دن وہ جانوروں کی پناہ گاہ میں گئے، مندر گئے تو انہوں نے اس موقع پر، اپنی خوشی میں بھی سماجی بیداری کا ایک واضح پیغام دیا۔ انہوں نے یہ چیز باور کروائی کہ نہ صرف انسان بلکہ وہ جانوروں اور ماحول کی بہتری کو بھی برابر اہمیت دیتے ہیں۔

’پاکستان میں کئی لوگ ہیں جو سلو فیشن کی حمایت کرتے ہیں لیکن ذوالفقار نے جیسے ’آنگن‘ کے ایک کرتے کو پہنا، مجھے لگتا ہے وہ دونوں ایک دوسرے کے لیے بنے تھے، کیوں کہ ذوالفقار اپنے کردار کو زیادہ سے زیادہ مقامی ثقافت سے جوڑتے نظر آتے ہیں اور اسی سب میں وہ کچھ سوال بھی اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ مغربی فلاسفی سے جو شعور انہوں نے حاصل کیا وہ اسے لوکل اور انڈی جینس کلچر کے ساتھ ملا کے سامنے لا رہے ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’آنگن‘ کے اکثر ڈیزائن میں پھول بوٹے بہت ہوتے ہیں اور زیادہ تر ان کے کپڑے ایسے ہیں جو مرد و خواتین دونوں کے لیے بنائے جاتے ہیں یعنی یونی سیکس۔ عبدالرحمٰن کہتے ہیں کہ اس حوالے سے انہیں اچھی بھلی نفرت آمیز رائے بھی سوشل میڈیا پر ملتی ہے۔ انہوں نے بتایا: ’لیکن میں سوچتا ہوں کہ یہ بھی اچھی چیز ہے، کم از کم اس سے ایک بحث تو شروع ہوتی ہے، لوگ اس بارے میں سوچتے تو ہیں۔ ہم نے مغرب کی نقل میں رنگ دار یا کڑھائی والے کپڑے پہننا چھوڑ دیے، کیا مغل نہیں پہنتے تھے؟ ہمارے بڑے کڑھائی والے کپڑے یا کُھسے نہیں پہنتے تھے؟‘

’گنگو بائی‘ فلم دیکھی ہے آپ نے جو ساؤتھ انڈین ڈائریکٹر نے 2012 کے آس پاس بنائی تھی؟‘ اب یہ عبدالرحمٰن کا سوال تھا۔ جواب دیا کہ ’نہیں دیکھی۔‘

تب انہوں نے یہ واقعہ سنایا کہ گنگو بائی کو ایک باغ میں لے جایا جاتا ہے، باغ کے مالک پوچھتے ہیں پسند آیا؟ تو وہ جواب دیتی ہیں کہ ’صاحب، کیسا باغ ہے، تالاب ہے، مچھی نہیں اور پیڑ ہیں پر پنچھی نہیں، تو یہ کیسا باغ ہے؟ ان پودوں کو پتہ ہے کہ سورج کدھر کو ہے، انہوں نے کس طرف کو بڑھنا ہے، ہمارا کام صرف پانی دینا ہے، کسی کو کم، کسی کو زیادہ اور انہیں کانٹ چھانٹ بھی پسند نہیں۔‘

اس قصے سے ان کی مراد یہ تھی کہ ’ہم جو مقامی کاریگروں سے کام لیتے ہیں، ہم بہت زیادہ کلاسیکی ڈیزائنوں میں تبدیلی نہیں کرتے، انہیں اپنے گھروں سے کہیں دوسری جگہ نہیں بلاتے، وہ اپنی سہولت سے بناتے ہیں، پھر ہم بہت زیادہ کام کا لالچ نہیں کرتے، نہ انہیں پریشان کرتے ہیں، بس ان کو وہ سارا کام مارکیٹ کرنے اور اچھی قیمت پر فروخت کرنے میں مدد دیتے ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی فن