مسلم لیگ ن کے رہنما اور وفاقی وزیر خزانہ کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت اور پاکستان تحریک انصاف کے وفود کے درمیان ملک میں ایک ہی وقت عام انتخابات پر اتفاق ہو گیا ہے۔
حکومت اور پاکستان تحریک انصاف کی مذاکراتی ٹیم کے درمیان منگل کی رات مذاکرات کی تیسری نشست کے اختتام پر حکومتی ٹیم میں شامل اسحاق ڈار نے صحافیوں کو بتایا کہ ’ان مذاکرات کے جو نتائج ہیں وہ میرے نزدیک مثبت ہیں۔‘
اسحاق ڈار نے بتایا کہ ’اس بات پر اتفاق ہے کہ ملک میں ایک ہی دن انتخابات ہونے چاہییں۔ دو صوبوں میں ایک تاریخ پر اور قومی اسمبلی سمیت دیگر اسمبلی میں کسی اور تاریخ پر انتخابات کے معاملے میں مزید ابہام نہیں ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’دونوں فریق اس بات پر اتفاق کر چکے ہیں کہ ایک ہی دن انتخابات میں بہتری ہے۔‘
تاہم انہوں نے ساتھ میں یہ بھی کہا کہ ’الیکشن کی تاریخ کے حوالے سے کچھ لچک تو آئی ہے لیکن دونوں ہی فریقین نے اپنی اپنی تاریخیں تجویز کی ہیں۔‘
وفاقی وزیر اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ ’دوسرا مثبت نتیجہ یہ ہے کہ الیکشن کی جو بھی تاریخ ہو گی اس دن ملک میں نگران حکومتیں ہوں گی۔‘
’حکومت سے اسمبلیوں کی تحلیل اور الیکشن کی تاریخ پر اتفاق نہ ہو سکا‘
پاکستان تحریک انصاف کے نائب چیئرمین اور مذاکراتی ٹیم میں شامل شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ ’ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم سپریم کورٹ میں اپنا موقف تحریر طور پر پیش کریں گے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ہم سپریم کورٹ سے گزارش کریں گے کہ ان مذاکرات میں پیش رفت نہیں ہو سکی۔ پنجاب کے انتخابات 14 تاریخ کو کروا دیے جائیں اور خیبر پختونخوا کے الیکشن میں بھی ہم تاخیر نہیں چاہتے۔‘
شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ’حکومتی ٹیم کا ابتدائی نقطہ نظر یہ تھا کہ انتخابات پنجاب اور خیبرپختونخوا سمیت پورے ملک میں ایک ساتھ ہوں اور اسمبلیاں اپنی پارلیمانی مدت مکمل ہونے پر تحلیل کی جائیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اس معاملہ پر ہم نے بحث کی اور ایک دوسرے کے قریب آنے کی کوشش کی۔‘
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ہم نے خاصی لچک دکھائی۔ ہم نے ایک دن الیکشن کی تجویز قبول کی، نگران سیٹ اپ کو تسلیم کیا اور 54 دن کی جو قدغن ہے اسے تسلیم کیا اور آگے بڑھے۔‘
’مگر ہم سمجھتے ہیں کہ اس پر پی ڈی ایم اور ہمارا اتفاق نہ ہو سکا۔‘
’ہم نے تجویز ان کے سامنے رکھی کہ قومی اسمبلی سمیت سندھ اور بلوچستان کی اسمبلیاں 14 مئی سے پہلے تحلیل کی جائیں اور اس کے بعد 60 دن کے اندر انتخابات کرائیں جائیں۔‘
شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ’ہم نے یہ تجویز بھی دی کہ اس کے لیے ہم آئین میں صرف ایک مرتبہ کے لیے ترمیم کی جائے جس کے لیے تحریک انصاف قومی اسمبلی میں جانے کے لیے تیار ہے۔‘
حکومت اور پاکستان تحریک انصاف کی مذاکراتی ٹیموں کے درمیان اس سے قبل مذاکرات کے دو دور ہو چکے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے پیر کو کہا تھا کہ حکومت سے مذاکرات میں ان کی جماعت کا یہی موقف رہے گا کہ حکومت اگر 14 مئی سے اسمبلیاں توڑنے کا اعلان کر دے تو پی ٹی آئی ایک ہی دن قومی الیکشن کے انعقاد کے لیے تیار ہے۔
لیکن اب تک حکومت کی جانب سے واضح طور پر یہ کہا جاتا رہا ہے کہ ملک میں انتخابات اکتوبر سے پہلے ممکن نہیں۔
دوسری جانب وفاقی وزیر دفاع اور پاکستان مسلم لیگ ن کے سینیئر رہنما خواجہ آصف نے کہا ہے کہ ’عمران خان کے ساتھ مذاکرات بے سود ہیں اور عام انتخابات اپنے وقت پر اکتوبر میں ہوں گے۔‘
ایک نیوز چینل سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ ’عمران خان چاہتے ہیں کہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی ستمبر میں ریٹائرمنٹ سے پہلے الیکشن ہو جائیں۔‘
جب ٹی وی اینکر نے ان سے سوال کیا کہ آیا حکومت چاہتی ہے کہ موجودہ چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ کے بعد انتخابات ہوں؟ تو انہوں نے جواب دیا: ’ہم یہ نہیں چاہتے کہ ان (چیف جسٹس) کی ریٹائرمنٹ کے بعد انتخابات ہوں بلکہ ہم چاہتے ہیں کہ وقت پر ہوں۔‘
پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے خواجہ آصف نے کہا کہ سیاست دان مذاکرات کا کھیل کھیلتے رہے ہیں لیکن عمران خان کے ساتھ مذاکرات بے سود ہیں۔
بقول خواجہ آصف: ’ہمیں مذاکرات کا کہنے والے ججز خود تقسیم کا شکار ہیں۔ ججز پہلے اپنے اندر اتحاد کے لیے مذاکرات کریں۔‘
ملک کے دو صوبوں پنجاب اور خیبر پختونخوا میں صوبائی اسمبلیاں (جہاں عمران خان کی حکومتیں تھیں) حالیہ عرصے میں تحلیل کر دی گئی تھیں اور اب وہاں نگران حکومتیں قائم ہیں۔ سپریم کورٹ نے پنجاب میں 14 مئی کو انتخابات کروانے کا حکم دے رکھا ہے۔
لیکن حکومت میں شامل جماعتوں کا موقف ہے کہ ملک بھر میں انتخابات ایک ہی تاریخ پر ہونے چاہییں اور اسی مقصد کے لیے اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے بات چیت ہو رہی ہے لیکن بظاہر دونوں فریق اب تک اپنے اپنے موقف پر قائم ہیں۔