ڈاکٹر عافیہ کی واپسی میں رکاوٹ پاکستان میں نظر آتی ہے: کلائیو سمتھ

انسانی حقوق کے برطانوی وکیل کلائیو سٹیفورڈ کا کہنا تھا کہ ’نائن الیون کے بعد نفرتوں میں اضافہ ہوا، گوانتانامو بے میں نوجوانوں پر مظالم ڈھائے گئے، میں نے گوانتانامو بے کے قیدیوں کے لیے مقدمات لڑے ہیں جس پر مجھے غدار کہا گیا۔‘

انسانی حقوق کے برطانوی وکیل کلائیو سٹیفورڈ سات اکتوبر 2012 کو پاکستان کے علاقے ٹانک میں (اے ایف پی)

انسانی حقوق کے برطانوی وکیل اور ’تھری ڈی‘ نام تنظیم کے ڈائریکٹر کلائیو سٹیفورڈ سمتھ نے کراچی بار ایسوسی ایشن میں وکلا سے خطاب کرتے ہوئے منگل کو کہا کہ ’اب ڈاکٹر عافیہ کی واپسی میں رکاوٹ پاکستان میں نظر آتی ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’ڈاکٹر عافیہ پر تشدد گوانتانا موبے سے بھی بدتر ہے۔ عافیہ کو کوئی اندازہ نہیں ہے کہ وہ اس وقت کہاں ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’اس کی پوری زندگی آہستہ آہستہ اس سے چھین لی گئی ہے اور اس کے لیے تمام بیرونی رابطے منقطع ہیں، عافیہ کی مثال ایسے ہے جیسے کوئی برفانی طوفان میں پھنس جانے والا مدد کے لیے پکار رہا ہو۔‘

کلائیو سمتھ نے کہا کہ ’میری عافیہ صدیقی سے ملاقات ہوئی ہے اورمیں نے انہیں امید دلائی ہے کہ پاکستان میں لوگ ان سے محبت کرتے ہیں۔‘

’عافیہ نے پاکستانی عوام پر اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ میں آپ سے اپیل کرتا ہوں کہ انہیں مایوس نہ کریں۔ انہوں نے وکلا سے مخاطب ہو کر کہا کہ ’وہ آپ کی ہم وطن ہیں اور آپ انصاف کے محافظ ہیں۔ آئینی حقوق کے محافظوں کو متحد ہونے اور ہماری کوششوں کی حمایت کے لیے ساتھ دینے کی ضرورت ہے۔ ان کی رہائی کے لیے قانونی کارروائی کی حمایت کریں۔‘

کلائیو سٹیفورڈ کا کہنا تھا کہ ’نائن الیون کے بعد نفرتوں میں اضافہ ہوا، گوانتانامو بے میں نوجوانوں پر مظالم ڈھائے گئے، میں نے گوانتانامو بے کے قیدیوں کے لیے مقدمات لڑے ہیں جس پر مجھے غدار کہا گیا، جبکہ گوانتانامو بے میں مجھے کوئی دہشت گرد نہیں ملا، وہاں صرف عام لوگ تھے جن میں قید پاکستانیوں کی بڑی تعداد کو کراچی سے لے جایا گیا ہے۔‘ یاد رہے کہ کلائیو سمتھ امریکی شہری ہیں۔ 

مشرف نے اپنی کتاب میں شہریوں کو امریکی حکومت کو فروخت کرنے کا اعتراف کیا ہے، ٹیکسی ڈرایئور احمد ربانی پر 60 سے زائد اقسام کے تشدد کیے گئے، احمد ربانی کو گوانتانامو بے میں 20 سال گزارنے پڑے۔‘

انہوں نے زور دیا کہ ’پاکستان حکومت کو عافیہ کے حقوق کے لیے ساتھ دینا چاہیے اور حکومت ہماری جدوجہد میں ہماری مدد کرے۔‘

انہوں نے کہا کہ وہ آج عافیہ صدیقی کو واپس لانے کے لیے پاکستان میں موجود ہیں۔ ’ایسا لگتا ہے کہ عافیہ کو وطن واپس لانے میں رکاوٹ ان کے اپنے ملک کے اندر سے ہے اور ہمیں مل کر اس رکاوٹ کو شناخت کرنے اور اسے ختم کرنے کی ضرورت ہے۔‘

عافیہ موومنٹ کی چیئرپرسن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کا کہنا تھا کہ ’ایک عورت پر اس کے بچے چھین لینے سے بڑا کوئی اور تشدد نہیں ہو سکتا۔‘

انہوں نے کہا کہ ’ڈاکٹر عافیہ سے ان کے تین کمسن بچے چھین لیے گئے اور وہ گزشتہ دو دہائیوں سے زیر حراست ہیں۔‘ اس موقعے پر وہاں موجود وکلا نے ایک تحریک شروع کرنے کی قرارداد منظور کی جو عافیہ کو وطن واپس لانے میں وفاق کی مدد کرے گی۔

عافیہ صدیقی کی حراست کے بعد پاکستانی حکومتوں نے مختلف ادوار میں ان کی واپسی کے لیے کی جانے والی کوششوں کی حمایت کی ہے۔ گذشتہ ماہ ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے وزیر اعظم شہباز شریف سے ملاقات کی تھی۔ روزنامہ جنگ کے مطابق ملاقات کے دوران فوزیہ صدیقی نے حکومت کی جانب سے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی بہبود کے لیے کیے گئے اقدامات کو سراہا نیز وزیرِ اعظم شہباز شریف نے فوزیہ صدیقی کو حکومت کی جانب سے اس حوالے سے مکمل تعاون کا یقین دلایا۔

وزیر اعظم پاکستان نے وزارتِ خارجہ کو ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی خیریت سے آگاہ رہنے کی ہدایت کی نیز اس معاملے پر وزارتِ خارجہ کو امریکی حکومت سے رابطے میں رہنے کی ہدایت بھی کی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان