سینکڑوں افغان خواتین قطر کے دارالحکومت دوحہ میں اقوام متحدہ کی سربراہی میں بند کمرے میں ہونے والے دو روزہ اجلاس میں جگہ پانے کے لیے احتجاج کر رہی ہیں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ اس اجلاس کے ایجنڈے میں افغانستان میں انسانی حقوق کی صورت حال سمیت طالبان کی زیر قیادت ملک پر عائد پابندیاں ہٹانے کے معاملے پر بات چیت شامل ہے۔
اجلاس میں امریکہ، برطانیہ، چین، فرانس، جرمنی، انڈیا، انڈونیشیا، ایران، جاپان، روس، قطر، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب سمیت متعدد ممالک کے نمائندوں کو مدعو کیا گیا ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس کی قیادت میں ہونے والے اہم مذاکرات میں افغانستان کے عملی طور پر حکمران، طالبان حکام کو مدعو نہیں کیا گیا۔
اجلاس کے دوران اقوام متحدہ ’عالمی برادری میں ایک مشترکہ فہم تلاش کرے گی کہ ان مسائل پر طالبان کے ساتھ کس طرح بات کی جائے۔‘
اقوام متحدہ نے اتوار کو ایک بیان میں کہا کہ متعدد ممالک کے رہنماؤں سے توقع ہے کہ وہ ’اہم مسائل جیسے کہ انسانی حقوق، خاص طور پر خواتین اور لڑکیوں کے حقوق، شمولیتی حکومت، انسداد دہشت گردی اور منشیات کی سمگلنگ کے معاملے میں بین الاقوامی سطح پر کردار کو مضبوط بنائیں گے۔‘
افغانستان میں اسی دن خواتین گروپوں کی جانب سے بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرے ہوئے۔ خواتین کا کہنا تھا کہ انہیں ان مذاکرات پر غصہ ہے جن کا مقصد طالبان کی زیر قیادت حکومت کو باضابطہ بنانا ہے حالاں کہ افغانستان میں عبوری رہنماؤں کی جانب سے خواتین کے حقوق کو پامال کیا جا رہا ہے اور وہ اس معاملے کو ’داخلی سماجی مسئلہ‘ قرار دیتے ہیں۔
تاہم، پیر کو مبینہ طور پر 64 افغان خواتین کو سفیروں کے ایک گروپ کے ساتھ ورچوئل بات چیت کرنے کی دعوت دی گئی اور ان سے کہا گیا کہ وہ افغانستان میں اصلاحات کے بارے میں اپنی سفارشات اقوام متحدہ کے حکام کو پیش کریں۔
افغان خواتین کا کہنا تھا کہ یہ عمل مذاکرات میں افغان خواتین کی عدم موجودگی کا متبادل نہیں۔ طالبان کے ساتھ رابطے کے معاملے پر خواتین رہنماؤں نے اقوام متحدہ اور سفیروں سے کہا کہ وہ طالبان کی جانب سے تعاون کے بدلے میں افغان شہریوں کے حقوق پر سمجھوتہ کرنے سے گریز کریں۔
افغان خواتین نے کہا کہ ’طالبان کے وعدوں کے دھوکے میں مت آئیں۔ ان پر بھروسہ کیا جا سکتا ہے اور نہ کیا جانا چاہیے۔ کوئی اعتدال پسند طالبان نہیں ہیں۔ ہمارے لیے وہ سب ایک جیسے ہیں خواہ وہ قطر میں موجود طالبان ہوں یا قندھاری اور حقانی۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’طالبان با اثر ممالک جن میں امریکہ، برطانیہ، پاکستان، چین، قطر اور متحدہ عرب امارات شامل ہیں، کی جانب سے شرائط عائد کیے جانے اور دباؤ ڈالے بغیر خواتین کو ان کے بنیادی حقوق نہیں دیں گے۔‘
اقوام متحدہ اوردوسرے ممالک سے کہا گیا کہ وہ ’طالبان کو تسلیم کرنے کی تجویز پر مبنی عوامی بیانات سے گریز کریں کیوں کہ ایسے بیانات طالبان کے جائز حکومت کے پروپیگنڈے کو مزید تقویت دیتے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
طالبان کے نائب ترجمان بلال کریمی نے کہا کہ انہیں امید ہے کہ اس بات چیت سے طالبان کی عبوری حکومت پر عائد پابندیاں اٹھانے اور عالمی برادری کے ساتھ روابط قائم کرنے میں مدد ملے گی۔
اقوام متحدہ کے زیر اہتمام مذاکرات میں طالبان کو شامل نہ کیے جانے پر سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے طالبان کے دوحہ آفس کے رہنما سہیل شاہین نے کہا کہ ایسے مذاکرات سے ’کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا بلکہ بعض صورتوں میں بات مزید بگڑے گی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ایسی صورت میں کہ جب ہم اُن کا حصہ نہیں تو وہ فیصلوں پر کس طرح عمل درآمد کریں گے؟ مسائل کو عملی نقطہ نظر سے حل کیا جا سکتا ہے یک طرفہ فیصلوں سے نہیں۔‘
جمعرات کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے طالبان انتظامیہ کی جانب سے افغانستان میں خواتین کے اقوام متحدہ کے لیے کام کرنے پر پابندی کی متفقہ طور پر مذمت کی اور طالبان رہنماوں پر زور دیا کہ وہ خواتین اور لڑکیوں کے حقوق کی خلاف ورزی ’فوری طور پر بند کریں۔‘
طالبان کا دعویٰ ہے کہ وہ اسلامی قانون کی اپنی سخت تشریح کے مطابق خواتین کے حقوق کا احترام کرتے ہیں۔ طالبان حکام کا کہنا ہے کہ خاتون امدادی کارکنوں کے بارے میں فیصلے افغانستان کا ’داخلی مسئلہ ہے۔‘
طالبان نے 20 سال تک جاری رہنے جنگ کے اختتام پر امریکی قیادت میں لڑنے والی افواج کے افغانستان سے انخلا کے ساتھ ہی اگست 2021 میں سقوط کابل کے بعد اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا۔
© The Independent