پاکستان کے دفتر خارجہ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ افغانستان کے قائم مقام وزیر خارجہ امیر خان متقی چار روزہ دورے پر آج یعنی جمعے کو اسلام آباد پہنچ رہے ہیں۔ ان کے دورے میں دو طرفہ تعلقات کے تمام شعبوں پر بات چیت کی جائے گی۔
عرب نیوز کے مطابق متقی پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی طرف سے طویل عرصے سے عائد پابندیوں کے تحت سفری اور ہتھیاروں کی خریداری پر پابندی ہے اور ان کے اثاثے منجمد ہیں۔
تاہم اقوام متحدہ کی ایک کمیٹی نے پیر کو طالبان انتظامیہ کے وزیر خارجہ کو پاکستان اور چین کے وزرائے خارجہ سے ملاقات کے لیے افغانستان سے پاکستان کا سفر کرنے کی اجازت دینے پر اتفاق کیا تھا۔
متقی اس وقت پاکستان کا دورہ کر رہے ہیں جب پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحدی جھڑپوں کی وجہ سے پاک افغان تعلقات کشیدہ ہیں اور افغانستان میں پاکستانی طالبان یا تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے عسکریت پسندوں کی موجودگی کے بارے میں پاکستان کے خدشات بڑھ رہے ہیں۔
افغان طالبان کی ثالثی میں ہونے والی ’کمزور جنگ بندی‘ ختم ہونے کے بعد کالعدم ٹی ٹی پی نے گذشتہ سال نومبر کے بعد سے پاکستان میں حملے بڑھا دیے ہیں۔
پاکستان کے دفتر خارجہ نے اپنے بیان میں کہا کہ ’قائم مقام افغان وزیر خارجہ پانچ سے آٹھ مئی 2023 تک پاکستان کا دورہ کریں گے۔‘
دفتر خارجہ کا مزید کہنا تھا کہ افغان وفد میں قائم مقام وزیر تجارت و صنعت حاجی نورالدین عزیزی، افغانستان کی وزارت خارجہ، ٹرانسپورٹ اور تجارت کے اعلیٰ حکام بھی شامل ہوں گے۔
دفتر خارجہ کے مطابق: ’دورے کے دوران دونوں فریق پاکستان اور افغانستان کے درمیان سیاسی، اقتصادی، تجارتی اور روابط سمیت امن و سلامتی اور تعلیم کے شعبوں میں دو طرفہ تعلقات کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لیں گے۔‘
دو طرفہ ملاقاتوں کے علاوہ افغان وزیر خارجہ چھ مئی کو ہونے والے پانچویں چین، پاکستان اور افغانستان سہ فریقی وزرائے خارجہ مذاکرات میں بھی شرکت کریں گے جس میں چینی وزیر خارجہ چِن گانگ بھی شریک ہوں گے۔
چینی اور پاکستانی حکام دونوں ماضی میں کہہ چکے ہیں کہ وہ طالبان کی زیر قیادت افغانستان کو اربوں ڈالر کے چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے بنیادی ڈھانچے کے منصوبے میں خوش آمدید کہیں گے جو بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کا حصہ ہے۔
افغانستان جنوبی اور وسطی ایشیا کے درمیان اہم جغرافیائی، تجارتی اور ٹرانزٹ روٹ ہے۔ وہ اربوں ڈالر کے غیر استعمال شدہ معدنی وسائل کا مالک ہے۔ 20 سالہ جنگ کے خاتمے پر امریکی قیادت میں غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد اگست 2021 میں طالبان نے اقتدار سنبھال لیا تھا۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق سلامتی کونسل کی 15 رکنی کمیٹی کو لکھے گئے خط کے مطابق اقوام متحدہ میں پاکستان کے مشن نے درخواست کی تھی کہ امیر خان متقی کو چھ سے نو مئی کے درمیان ’پاکستان اور چین کے وزرائے خارجہ سے ملاقات‘ کے لیے استثنیٰ دیا جائے۔
تاہم اس درخواست میں یہ نہیں بتایا گیا کہ وزرا ملاقات میں کن امور پر بات چیت کریں گے۔ اس میں کہا گیا کہ امیر خان متقی کے دورے کے تمام اخراجات پاکستان برداشت کرے گا۔
سلامتی کونسل کی کمیٹی نے گذشتہ ماہ فوری امن، سلامتی اور استحکام کے امور پر تبادلہ خیال کے لیے افغانستان کے ہمسایہ ممالک کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں شرکت کے لیے بھی امیر خان متقی کو ازبکستان جانے کی اجازت دی تھی۔
اقوام متحدہ کے ترجمان سٹیفن دوجارک نے کہا کہ یو این کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریش نے پیر کو دوحہ میں افغانستان کے متعلق مختلف ممالک کے خصوصی ایلچیوں کے ساتھ دو روزہ اجلاس کا آغاز کیا، جس کا مقصد ’طالبان کے ساتھ بات چیت کے بارے میں بین الاقوامی برادری کے اندر باہمی اتفاق پیدا کرنا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ بند کمرے میں ہونے والے اس اجلاس میں انسانی حقوق بالخصوص خواتین اور لڑکیوں کے حقوق، جامع حکمرانی، انسداد دہشت گردی اور منشیات کی سمگلنگ جیسے اہم امور پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔
اجلاس میں چین، فرانس، جرمنی، انڈیا، انڈونیشیا، ایران، جاپان، قازقستان، کرغزستان، ناروے، پاکستان، قطر، روس، سعودی عرب، تاجکستان، ترکی، ترکمانستان، متحدہ عرب امارات، برطانیہ، امریکہ، ازبکستان، یورپی یونین اور اسلامی تعاون تنظیم شریک ہے جبکہ طالبان انتظامیہ کو دوحہ اجلاس میں مدعو نہیں کیا گیا۔
اس حوالے سے افغان طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے گذشتہ روز کہا تھا کہ کوئی بھی اجلاس افغان حکومت کے نمائندوں کے بغیر غیرموثر ہے۔
دوحہ میں طالبان کے سیاسی دفتر کے سربراہ سہیل شاہین کا کہنا تھا: ’امارات اسلامیہ، جو مسئلے کا بنیادی فریق ہے، اس کے نمائندوں کے بغیر کوئی بھی اجلاس غیر موثر ہے اور بعض اوقات خلاف منشا بھی ہو سکتا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’یہ افغانستان کی امارات اسلامیہ کا قانونی حق ہے کہ اسے ایسے اجلاسوں میں اپنی پوزیشن واضح کرنے کا موقع دیا جائے۔
’ایسے اجلاس میں لیے جانے والے فیصلے کیسے قابل قبول یا نافذ ہو سکتے ہیں جبکہ ہم اس عمل کا حصہ ہی نہیں ہیں۔‘
بقول سہیل شاہین: ’یہ تفریق اور بلاجواز ہے۔‘
اُدھر پاکستان کے سرکاری خبر رساں ادارے اے پی پی کے مطابق چینی وزارت خارجہ کی ترجمان ماؤ نِنگ نے جمعرات کو کہا کہ چینی وزیر خارجہ چِن گانگ پانچ سے چھ مئی تک پاکستان کا دورہ کریں گے۔ وہ چین، افغانستان اور پاکستان کے وزرائے خارجہ مذاکرات میں شرکت کریں گے۔
ماؤننگ نے کہا کہ یہ گانگ کا پاکستان کا پہلا دورہ ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ وزیر خارجہ کا دورہ بیجنگ اور اسلام آباد کے درمیان حالیہ وسیع روابط کا ایک اہم حصہ ہے۔
چینی وزیر خارجہ اپنے دورہ پاکستان میں پاکستانی رہنماؤں سے ملاقات سمیت اور پاکستانی ہم منصب بلاول بھٹو زرداری کے ساتھ چین اور پاکستان کے وزرائے خارجہ کے درمیان چوتھے سٹریٹیجک ڈائیلاگ کی شریک صدارت کریں گے۔
چینی وزارت خارجہ کی ترجمان کا کہنا تھا کہ ’چن گانگ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات اور عالمی و علاقائی صورت حال پر براہ راست تفصیلی بات چیت کریں گے۔‘
ترجمان نے مزید کہا کہ بیجنگ اور اسلام آباد مستقل سٹریٹجک شراکت دار اور گہرے دوست ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان مضبوط دوستی طویل عرصے سے چلی آ رہی ہے۔