چین کے وزیر خارجہ چِن گانگ نے ہفتے کو خطے میں عسکریت پسندی کے خلاف ’غیر متزلزل‘ جنگ شروع کرنے پر پاکستان کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ان کا ملک اس سلسلے میں اسلام آباد کی قربانیوں اور انتھک جدوجہد کو سراہتا ہے اور اس کی فتح پر پختہ یقین رکھتا ہے۔
اسلام آباد میں دونوں وزرائے خارجہ کی چوتھے پاک چائنا سٹریٹجک ڈائیلاگ میں شرکت کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس میں چِن گانگ نے سی پیک کے تحت پاکستان میں کام کرنے والے چینی شہریوں کے تحفظ کے لیے پاکستانی حکام کے انتظامات کو سراہا۔
چینی وزیر خارجہ نے ہندوستان کی جانب سے پاکستان پر ’دہشت گردی‘ کا الزام لگائے جانے کے ایک دن بعد اربوں ڈالر کے اقتصادی رابطہ پروگرام کے تحت دونوں پڑوسی ملکوں (پاکستان اور چین) کے درمیان تعاون جاری رکھنے کا وعدہ کیا۔
چینی وزیر خارجہ گوا میں شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں شرکت کے بعد اسلام آباد آئے ہوئے ہیں۔
انڈین وزیر خارجہ ڈاکٹر سبرامنیم جے شنکر نے بھی سی پیک پر تنقید کرتے ہوئے تجویز کیا کہ بیجنگ اور اسلام آباد کی انتظامیہ کی جانب سے علاقائی رابطے کے اقدام میں پاکستان کی سرزمین کے کچھ حصے استعمال کیے گئے جن پر ان کے ملک نے دعویٰ کیا تھا۔
چیبی وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان میں چینی شہریوں کو نشانہ بنانے والے عسکریت پسندوں کو جلد انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ دونوں فریق سی پیک کی پیش رفت سے مطمئن ہیں۔
’ایم ایل ون ٹرین لائن اور گوادر گہرے سمندری بندرگاہ سمیت تمام بڑے منصوبوں کی رفتار کو تیز کرنے پر اتفاق کیا گیا۔‘
چینی وزیر خارجہ نے کہا کہ دونوں ممالک پاکستان میں ’پائیدار ترقی‘ کے حصول کے لیے صنعتی تعاون کو مضبوط بنانے کے لیے بھی کام کر رہے ہیں۔
اس سے قبل پاکستان کے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے ہفتے کو خطے کی سماجی و اقتصادی ترقی کے لیے ’افغانستان میں امن و استحکام‘ کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے اس مقصد کے حصول کے لیے چین سمیت تمام سٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر کام کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔
اسلام آباد میں چینی ہم منصب چِن گانگ کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب میں بلاول بھٹو نے کہا: ’آج ہماری بات چیت میں ہم نے یہ بھی نوٹ کیا کہ افغانستان میں امن اور استحکام خطے میں سماجی و اقتصادی ترقی، رابطے اور خوش حالی کے لیے ناگزیر ہے۔‘
انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ وہ پرامن، مستحکم، خوش حال اور متحد افغانستان کے لیے تمام سٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر کام کرتے رہیں گے۔
ایک روز قبل چین اور افغانستان کے وزرائے خارجہ سلامتی اور معیشت سمیت متعدد امور پر دوطرفہ اور سہ فریقی اجلاسوں میں شرکت کے لیے اسلام آباد پہنچے تھے۔
چینی وزیر نے، جو دو روزہ دورے پر اسلام آباد میں ہیں، پاکستان کے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی سے ملاقات کی، جس میں دونوں فریقوں نے علاقائی امن اور خوش حالی کے فروغ کے علاوہ بیرونی چیلنجوں سے مشترکہ طور پر نمٹنے کے لیے مل کر کام کرنے کا عزم کیا۔
افغانستان کے قائم مقام وزیر خارجہ امیر خان متقی بھی چار روزہ دورے پر پاکستان میں موجود ہیں جس دوران انہوں نے سہ فریقی اجلاس میں بھی شرکت کی۔
اجلاس میں افغانستان، پاکستان اور چین کے درمیان متعلقہ سیاسی، اقتصادی اور تجارتی تعلقات، علاقائی استحکام اور راہداری پر جامع بات چیت ہوئی۔
امیر خان متقی اپنے قیام کے دوران دو طرفہ ملاقاتوں میں شرکت کریں گے، جن میں چین پاکستان افغانستان کے وزرائے خارجہ کے پانچویں سہ فریقی مذاکرات اہم ہیں۔
امیر خان متقی کا دورہ افغانستان کے پاکستان کے ساتھ سیاسی روابط کا تسلسل ہے، جس میں دیگر چیزوں کے علاوہ گذشتہ سال نومبر میں وزیر مملکت برائے امور خارجہ حنا ربانی کھر کا دورہ کابل اور فروری میں وزیر دفاع خواجہ آصف کی قیادت میں ایک اعلیٰ سطحی وفد کا دورہ شامل تھا۔
امیر خان متقی بین الاقوامی پابندیوں کی وجہ سے بیرون ملک سفر نہیں کر سکتے۔ تاہم ان کا پاکستان آنا اقوام متحدہ کی جانب سے خصوصی استثنیٰ کے تحت ممکن ہو سکا۔
تھینک ٹینک ساؤتھ ایشین سٹریجیٹک سٹیبیلیٹی انسٹی ٹیوٹ کی ڈائریکٹر جنرل ماریہ سلطان نے اے ایف پی کو بتایا کہ اس سربراہی اجلاس کی سب سے بڑی اہمیت یہ ہے کہ اس وقت افغانستان کے استحکام کے بغیر کوئی علاقائی اقتصادی مستقبل ممکن نہیں۔
’یہ بھی ضروری ہے کہ باضابطہ تعلقات قائم کیے جائیں، اور یہ تبھی ممکن ہے جب سفارتی راستے کی تعمیر نو کا کام ہو۔‘
چین کی حمایت
وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے پاکستان اور چین کے درمیان دیرینہ دوستانہ تعلقات کو اجاگر کرتے ہوئے کہا: ’ہم دونوں ممالک کئی دہائیوں سے ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہیں اور آنے والی دہائیوں میں بھی ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے رہیں گے۔‘
وزیر خارجہ نے پاکستان کی جانب سے چین کے لیے تمام اہم اور بنیادی امور خصوصاً تائیوان، تبت، سنکیانگ، ہانگ کانگ اور بحیرہ جنوبی چین سمیت دوسرے تمام بنیادی مسائل پر بیجنگ کی مضبوط حمایت کا اعادہ کیا۔
انہوں نے مزید کہا: ’پاکستان چین کی فراخدلانہ اور بروقت امداد کے لیے اس کا تہہ دل سے شکر گزار ہے کیونکہ ہم عالمی معیشت میں سرد مہری کا مقابلہ کرتے رہتے ہیں۔‘
بلاول بھٹو نے پاک چین دوستی کو ’ناقابل واپسی‘، ’ایک تاریخی حقیقت‘ اور ’دونوں قوموں کا متفقہ انتخاب‘ قرار دیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان بلاک سیاست یا بڑی طاقتوں کے درمیان طاقت کے مقابلے کے خلاف ہے۔
انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ پاکستان جنوب میں تعاون کو فروغ دینے کے لیے چین کے ساتھ مصروف عمل رہنے کے لیے پرعزم ہے، خصوصاً انسان کی وجہ سے ماحولیاتی تبدیلی کے ابھرتے ہوئے خدشات۔
سی پیک کے بارے میں بات کرتے ہوئے بلاول پاکستانی وزیر خارجہ نے کہا کہ یہ (سی پیک کا) منصوبہ دنیا بھر کے سرمایہ کاروں کے لیے کامیابی والا اقتصادی اقدام ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ سی پیک سے پاکستان میں سماجی اقتصادی ترقی، روزگار کے مواقع پیدا کرنے اور لوگوں کے معیار زندگی میں بہتری آئی ہے۔
اس سے قبل بلاول بھٹو نے دفتر خارجہ میں چینی وفود کے ساتھ اجلاس سے خطاب میں انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے معاملے پر چین کے ’اصولی اور منصفانہ موقف‘ اور پاکستان کی علاقائی سالمیت کے لیے اس کی بھرپور حمایت کی بھی تعریف کی۔
وزیر خارجہ نے کہا: ’چین ہمیشہ پاکستان کو اپنے سب سے قابل اعتماد پارٹنر اور قابل اعتماد دوست کے طور پر شمار کر سکتا ہے۔ چین کے ساتھ دوستی پاکستان کی خارجہ پالیسی کی بنیاد ہے۔
انہوں نے سوڈان سے پاکستانی شہریوں کے انخلا میں چین کی مدد اور تعاون کو دونوں ملکوں کے درمیان دوستی کا حالیہ مظہر قرار دیا۔