پشاور کے تاریخی بازار صدر کی ایک تنگ گلی میں چھوٹی سی دکان پر جوتوں کی مرمت کا کام کرنے والے معراج گل نے تقسیم ہند کے وقت یہ کام سیکھا اور شروع کیا اور اب ان کا بیٹا یہ کام کر رہا ہے۔
معراج نے بتایا: ’میں بہت کم عمر تھا جب تقسیم ہند کے بعد انڈیا سے کچھ لوگ آئے۔ انہوں نے پشاور میں جوتوں کا کارخانہ کھولا۔
’میں ان کے ساتھ بطور شاگرد کام کرتا تھا، اب پچھلے تقریباً 40 سال سے جوتوں کی مرمت کے کام سے وابستہ ہوں۔‘
صدر بازار کی لیاقت گلی میں تقریباً پانچ بائی چھ فٹ کی دکان میں معراج ایک طرف بیٹھے ہوئے تھے جبکہ ان کے بیٹے انور زیب اور ان کے گرد مرمت کے لیے جوتوں کا ڈھیر لگا ہوا تھا۔
جوتوں میں مرد و خواتین کے برانڈڈ جوتے، لوکل جوتے، پرس سمیت پولیس اور آرمی اہل کاروں کے جوتے بھی پڑے نظر آئے جبکہ انور زیب خواتین کے ایک جوتے کی مرمت میں مصروف دکھائی دیے۔
85 سالہ معراج نے بتایا، ’میری نظر کمزور ہو گئی ہے اور کام نہیں کر سکتا، لیکن گذشتہ تقریباً 40 سال سے یہی کام کیا ہے اور پشاور کے اچھے موچیوں میں شمار کیا جاتا ہوں۔‘
انہوں نے بتایا: ’اب بیٹے کو کام سکھایا ہے اور وہی اسے چلا رہا ہے لیکن میں ان کے ساتھ دکان میں بیٹھا رہتا ہوں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ بہت عرصے تک وہ نئے جوتے بناتے تھے لیکن اس کے بعد نئے جوتے بنانے کا کام چھوڑ دیا اور اب صرف مرمت کا کام کرتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
معراج کے بیٹے انور زیب کے مطابق: ’زیادہ تر ہمارے پاس لوگ گوچی جیسے امپورٹڈ جوتے لاتے ہیں، جن کی قیمت 50 سے 80 ہزار روپے ہوتی ہے۔
’ہم اس کی ایسے مرمت کرتے ہیں کہ گاہک کو پتہ بھی نہیں چلتا کہ اس کی مرمت ہوئی ہے۔‘
انور زیب نے بتایا، ’پولیس اور آرمی کے اہل کار بھی اپنے قیمتی جوتے لاتے ہیں، جس کو ہم مرمت کرتے ہیں جبکہ بازار میں لنڈے کے کاروبار سے وابستہ لوگ بھی نقص والے جوتے مرمت کرواتے ہیں۔‘
لنڈے کے کاروبار سے وابستہ ہجرت نامی شخص معراج گل کے دکان میں اپنے دیے ہوئے جوتے واپس لے کر جا رہے تھے۔
انہوں نے بتایا: ’ہم زیادہ تر لنڈے میں آئے ہوئے جوتے اسی دکان سے مرمت کرواتے ہیں کیونکہ یہ صفائی سے کام کرتے ہیں۔
’ان کی خاص بات یہ ہے کہ یہ مشین اور ہاتھ دنوں سے مرمت کرتے ہیں جبکہ باقی موچی ان کی طرح صفائی سے کام نہیں کر سکتے۔‘