’کراچی کےعلاقے گلشن حدید میں واقع سٹیل ٹاؤن قبرستان میں ایک خاندان اپنے پیارے کی قبر بنوانے کے لیے مزدور کے سامنے گڑ گڑا رہا تھا مگر مزدور زیادہ پیسے طلب کرنے پر مصر تھا۔ اس وقت اس خاندان نے مجبور ہوکر ڈونگے کی مدد سے قبر میں سے پانی نکالنا شروع کیا تو یہ سب مجھ سے دیکھا نہیں گیا اور میں نے پانی سے متاثرہ 70 کے قریب قبروں کی مرمت کابیڑہ اٹھایا۔‘
یہ الفاظ گلشن حدید کے رہائشی اسفند ستار کے تھے، جو پیشے کے اعتبار سے انجینیئر اور ٹرینر ہیں اورساتھ ہی سماجی کام بھی کرتے ہیں۔
پاکستان میں حالیہ مون سون بارشوں نے جہاں انسانوں کو متاثر کیا، وہیں قبرستان بھی پانی کی نذر ہوئے۔
سٹیل ٹاؤن کے وسیع و عریض قبرستان میں بھی مون سون کی بارشوں سے ایک ہزار سے زائد قبروں کو بری طرح نقصان پہنچا ہے۔
زیادہ تر پاکستان سٹیل ملز کے مرحوم ملازمین اور ان کے اہل خانہ یہاں دفن ہیں۔ بعض علاقہ مکین شکوہ کر رہے ہیں کہ ضلعی انتظامیہ نے قبروں کو بچانے کے لیے قبرستان سے بارش کے پانی کو نکالنے کے لیے کچھ نہیں کیا۔
بارش کا ٹھہرا ہوا پانی قبروں میں داخل ہو چکا ہے، جس کی وجہ سے ان میں سے کچھ منہدم ہوگئی ہیں اور ان کے اندر دفن ہونے والی لاشوں کی بے حرمتی ہو رہی ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ زیادہ تر سیمنٹ کی قبروں میں بڑی دراڑیں پڑ گئی ہیں جبکہ مٹی کی قبریں گہرے گڑھوں میں تبدیل ہو گئی ہیں۔
یہی سب دیکھ کر 28 سالہ اسفند ستار نے متاثرہ قبروں کی مرمت کا ذمہ خود لے کر 70 کے قریب قبروں کی مرمت کروائی ہے۔
اسفند قبرستان میں اپنے دادی کی قبر پر فاتحہ خوانی کے لیے آئے تھے جہاں وہ قبروں کی حالت دیکھ کر حیران رہ گئے۔
انہوں نے بتایا: ’سینکڑوں قبریں تباہ ہوگئیں۔ آپ تازہ کھودی گئی قبروں میں لاشیں واضح طور پر دیکھ سکتے تھے۔‘
انہوں نے دعویٰ کیا کہ ’کچھ تباہ شدہ قبریں بہت پرانی تھیں، لیکن اندر لاشیں مکمل طور پر موجود تھیں۔ شاید یہ قبریں اچھے لوگوں کی ہیں اور مٹی ان کا گوشت نہیں کھانا چاہتی تھی۔‘
اسفند ستار نے قبروں پر لکھے نمبروں کی مدد سے مقتولین کے لواحقین تک پہنچنے کی کوشش کی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے کہا: ’ان میں سے صرف چند اپنے پیاروں کی قبروں کی مرمت کے لیے آئے تھے۔ کچھ خاندان جو قبرستان نہیں آ سکتے وہ مرمت کروانے کے لیے مدد کی غرض سے مجھ سے رابطہ کر رہے ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’ہم مزدوروں اور رضاکاروں کی ایک ٹیم کی مدد سے روزانہ 10 سے 15 قبروں کی مرمت کر رہے تھے اور خاندان اس کے اخراجات بھی ادا کرتے تھے۔ ہم اُن قبروں کو پلاسٹک کی چادر سے ڈھانپ دیتے تھے، جن کی فوری مرمت نہیں کی جا سکتی تھی۔‘
اسفند نے اس کام کے لیے سوشل میڈیا کا بھی سہارا لیا اور اپنی بات لوگوں تک پہنچائی۔
انہوں نے بتایا: ’میرا ایک چھوٹا سا سوشل میڈیا سرکل ہے وہاں پر یہ سٹوری لکھی اور پھر اس کام کو شروع کیا۔ میرا روز یہاں آنا جانا رہتا تھا۔ شروع میں ہفتہ دس دن دیکھا کہ کوئی اپنے پیاروں سے ملنے نہیں آرہا تھا، یہاں تک کہ جو ابھی دفنا کر گئے ان کو بھی اپنے پیاروں کا خیال نہیں تھا۔
’اس کا سلسلہ ایک سٹوری بنا کر شروع کیا جو سوشل میڈیا پر ڈالی گئی لیکن اللہ کے کرم سے ہم 70 تک پہنچے تھے کہ قبرستان بھر گیا اور لوگ اپنے پیاروں کی قبروں پر آگئے۔‘
قبروں کی مرمت پر اخراجات
اسفند نے بتایا کہ ایک قبر کی مرمت پر تقریباً ڈھائی سے تین ہزار روپے کا خرچ آیا۔ ’یہاں پر 500 سے 800 قبریں خراب تھیں۔‘
بقول اسفند: ’میرا ایک چھوٹا سا سرکل ہے۔ اس کے فنڈ کو استعمال کرتے ہوئے 70 کے قریب قبریں مکمل کیں۔ ایک کام یہ کیا کہ جو خود آسکے وہ اپنی قبریں بنواتے گئے، جو نہیں آسکے، جن کی فیملیز آ نہیں رہی تھیں یا جن کا کوئی والی وارث نہیں تھا، ان کی قبریں ہم نے بنالیں۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’یہ سوچ لیں کہ آج نہیں تو کل ہم نے بھی اسی جگہ آنا ہے۔ جو اپنے پیاروں کو دفناتے ہیں ان کا فرض بنتا ہے کہ وہ ایک بار آکر اپنے پیاروں کو دیکھ لیں،‘