پاکستان میں سالانہ 55 ارب پلاسٹک کے تھیلے استعمال کیے جاتے ہیں یعنی ایک فرد سالانہ بنیاد پر 379 پلاسٹک بیگز استعمال کرتا ہے جبکہ ایک پلاسٹک کے تھیلے کو زائل ہونے کے لیے ایک ہزار سال کا عرصہ درکار ہوتا ہے۔
یہ صرف ایک مسئلہ نہیں بلکہ ہنگامی صورتحال ہے۔
پاکستان میں یہ صرف زرعی زمینوں کو نقصان پہنچانے اور آلودگی میں اضافے کا باعث ہی نہیں بلکہ سیوریج کے نظام میں بھی رکاوٹ پیدا کرتے ہیں، جس کی وجہ سے شہروں میں سیلابی صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
پاکستان میں پلاسٹک کے تھیلوں کے استعمال کو ختم کرنے کے لیے وفاقی حکومت کی جانب سے جولائی میں ان پر مکمل پابندی عائد کرنے کا اعلان کیا گیا تھا، جو 14 اگست یعنی یوم آزادی سے نافذ العمل ہوگی۔
اس پابندی کے دائرہ کار میں سپر سٹورز یا ریسٹورنٹس پر ملنے والے پلاسٹک کے تھیلے بھی شامل ہیں، جنہیں سنگل یوز یعنی ایک مرتبہ استعمال ہونے والے تھیلوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ روز مرہ کی اشیا کے لیے استعمال ہونے والے یہ پلاسٹک بیگز آسانی سے پھٹ جاتے ہیں۔
لیکن یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ اسلام آباد میں ان تھیلوں کے استعمال پر پابندی لگائی گئی ہو۔ 2013 میں بھی ایک قانون کے تحت اسلام آباد میں پلاسٹک کی مصنوعات بنانے اور خریدوفروخت پر پابندی عائد کی گئی تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اُس وقت کے ماحولیاتی تبدیلی کے وزیر رانا محمد فاروق کا کہنا تھا کہ ان تھیلوں کا متبادل لایا جائے گا، جو oxo-biodegradableپلاسٹک سے بنا ہو گا۔
پاکستانی کی ماحولیاتی تحفظ ایجنسی (پاک ای پی اے) کے چیئرمین آصف شجاع کا کہنا ہے کہ متبادل تھیلے زائل ہونے میں تین سے چار ماہ کا وقت لیتے ہیں اور ان کی تیاری کے لیے موجودہ مشینری میں کچھ بڑی تبدیلیوں کی ضرورت نہیں ہوگی۔ لیکن یہ منصوبہ کئی وجوہات کی بنا پر کامیاب نہیں ہو سکا۔
اس حوالے سے کام کرنے والے غیرجانبدار ادارے ایس ڈی پی آئی کی ایک ماہر ماحولیات کا کہنا ہے کہ بہت زیادہ استعمال کی وجہ سے پلاسٹک کو ایک دم سے ختم نہیں کیا جاسکتا۔ جب پلاسٹک کی اشیا کا متبادل نہیں ہوگا تو لوگ کیا کریں گے؟
ان کا کہنا تھا کہ اس مرتبہ اگر قانون صحیح طرح سے نافذ کیا گیا اور لوگوں کو پلاسٹک کے تھیلوں کا متبادل سستے داموں ملے تو ان سے نجات حاصل کی جاسکتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ صنعت کاروں کو چاہیے کہ وہ پلاسٹک کے متبادل میں اپنا سرمایہ لگائیں۔
دوسری جانب پوٹھوہار پلاسٹک ایسوسی ایشن کے صدر افتخار احمد جمال کا کہنا تھا کہ حکومت کو پلاسٹک بیگ کے صنعت کاروں کو وقت دینا چاہیے تھا، تاکہ وہ دوسرا انتظام کرسکیں۔
انہوں نے کہا: ’لاکھوں خاندان اس کام سے وابستہ ہیں۔ راتوں رات فیکٹریاں بند ہونے سے لوگوں کے روزگار ختم ہو رہے ہیں۔ ہمیں تھوڑا وقت دیں۔ ہم بھی چاہتے ہیں کہ ہمارا ملک صاف رہے۔‘
ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ تمام پلاسٹک کے تھیلوں پر پابندی کی بجائے اس کو آہستہ آہستہ مارکیٹ سے اس طرح ختم کیا جاسکتا ہے کہ ان تھیلوں کی موٹائی بڑھادی جائے۔ اس سے یہ مضبوط ہوجائیں گے اور بار بار استعمال میں آئیں گے۔
مزید تجویز دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’دکانداروں یا ہول سیلرز کو کہا جائے کہ تھیلوں کو مفت دینے کے بجائے فروخت کریں۔’جب بھی کوئی چیز خریدتے ہیں تو معمولی سی ہی قیمت کیوں نہ ہو، اس کو سنبھال کر رکھتے ہیں۔ جب لوگوں کو پلاسٹک کے تھیلے خریدنے پڑیں گے تو وہ خود ہی اس کا استعمال کم کر دیں گے۔‘
اگرچہ فیکٹری میں پلاسٹک بیگز بننا بند ہوچکے ہیں، تاہم افتخار احمد جمال کا کہنا ہے کہ انہوں نے عدالت میں اس قانون کے خلاف اپیل دائر کردی ہے۔