پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اور وزیراعظم عمران خان اقتدار میں آنے سے پہلے اور بعد میں بھی بارہا عوام کے ساتھ یہ وعدہ کر چکے ہیں کہ وہ پاکستان کو ’ریاست مدینہ‘ کی طرز کا بنائیں گے۔ انڈپینڈنٹ اردو نے مختلف قومی و بین الاقوامی مذہبی ماہرین سے بات کرکے اور تحقیقاتی مقالوں کا جائزہ لے کر اس بات کو پرکھنے کی کوشش کی ہے کہ ریاست مدینہ اصل میں کیا تھی۔
تاریخ کے اوراق میں لکھا گیا ہے کہ پیغمبرِ اسلام نے اپنے ساتھیوں سمیت مکہ سے مدینہ، جو اس وقت یثرب کہلاتا تھا، ہجرت کی کیونکہ مکہ میں ان کو مختلف مشکلات کا سامنا کرنا پڑا یہاں تک کے مکہ کے سرداروں نے ان کو قتل کرنے کا منصوبہ بھی بنا رکھا تھا۔
امریکہ کی یونیورسٹی آف سینٹ تھومس کے لا جرنل میں شائع ہونے والے ایک مقالے میں علی خان لکھتے ہیں کہ پیغمبرِ اسلام نے اپنے ساتھیوں سمیت امن اور آزادی کی خاطر مدینے ’ہجرت‘ کرنے کا فیصلہ کیا۔
مدینہ پہنچ کر وہاں انہوں نے ’میثاق مدینہ‘ کے نام سے عرب مسلمانوں، غیر مسلموں اور یہودیوں کے مابین معاہدہ لکھ ڈالا۔
اسی ریسرچ پیپر میں علی خان نے لکھا ہے کہ دنیا بھر میں سکالرز اس بات پر متفق نہیں کہ آج کل جو میثاقِ مدینہ کا معاہدہ ہم دیکھ رہے ہیں یہ واقعی وہی ایک معاہدہ تھا یا یہ اُس وقت کیے گئے مختلف معاہدوں کا مجموعہ ہے۔
یہ معاہدہ یہودیوں کے قبیلوں اوف، نجر، حارث، سعیدہ، طعلبہ، اند جفنہ اور مسلمانوں کے قبیلے قریش اور مدینے کے عرب مسلمانوں کے درمیان کیا گیا تھا۔
مختلف تحقیقی مقالوں میں یہ لکھا گیا ہے کہ یہ معاہدہ امن اور سکیورٹی کی اُس وقت کی ابتر صورتحال کی وجہ سے کیا گیا تھا کیونکہ مختلف قبائل ایک دوسرے کےساتھ مختلف جنگیں لڑ چکے تھے۔
مسلم و غیر مسلم ایک جان
میثاقِ مدینہ میں مختلف سکالرز ’ایک کمیونٹی‘ کے نظریے کو زیادہ اہمیت کا حامل سمجھتے ہیں۔
اسی معاہدے میں یہ لکھا گیا تھا کہ مدینے کے مسلمان، مکہ سے آئے ہوئے مہاجر اور مدینے میں موجود غیر مسلم سب ایک ہی کمیونٹی کا حصہ ہوں گے۔
اس معاہدے کے تحت ان تمام لوگوں کو ایک دوسرے پر کوئی برتری حاصل نہیں تھی اور ہر ایک کو ایک جیسے حقوق میسر تھے۔
اسی شق کے اندر میثاقِ مدینہ میں کسی کے ساتھ ان کے مذہب، رنگ، نسل یا اگر کوئی مہاجر ہوکر مدینہ آگیا ہو، تو اس کی بنا پر کسی قسم کا امتیازی سلوک نہیں کیا جائے گا۔
علی خان نے اپنے تحقیقی مقالے میں لکھا ہے کہ معاہدے کی اسی شق کی رُو سے آج کل اپنے آپ کو اسلامی ریاستیں سمجھنے والے بیشتر ممالک مدینے کے آئین کے میعار پر پورا نہیں اترتے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
علی خان کے مطابق آج کے دور کی بیشتر اسلامی ریاستوں میں شہریت کا جو سسٹم موجود ہے اس میں ہجرت یا تارکینِ وطن افراد کو مستقل شہریت نہیں دی جاتی اور یہی وجہ ہے کہ وہ ریاست مدینہ کے آئین پر پورا نہیں اترتے۔
’ریاست مدینہ اسلامی ریاست نہیں تھی‘
ترک سکالر مصطفیٰ اکیول مصنف اور امریکی اخبار ’نیویارک ٹائمز ‘کے کالم نگار ہیں، جو مذہب پر وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مدینہ کی ریاست سیاسی اور مذہبی آزادی کی ایک بہترین مثال تھی۔
ایک ای میل انٹرویو میں کتابوں ’دی اسلامک جیزز‘ اور ’اسلام وِد آؤٹ ایکسٹریمز‘ کے مصنف مصطفیٰ اکیول نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ مدینہ کی ریاست اسلامی ریاست نہیں تھی اور نہ مسلمانوں کی ریاست تھی۔
ان کا کہنا تھا: ’مدینہ کی ریاست ایک سول ریاست تھی جس کو مسلمانوں اور یہودیوں نے مل کر بنایا تھا، جہاں پر دونوں مذاہب کے ماننے والوں کو ایک جیسی آزادی حاصل تھی۔ مذہب کی اتنی آزادی آج کل کی اسلامی ریاستوں میں خام خیالی ہی ہو سکتی ہے۔‘
ریاست مدینہ میں امہ کا تصور
مصطفیٰ کا کہنا ہے کہ ریاست مدینہ نے امہ کا جو تصور پیش کیا تھا اس میں اور آج کل کے مسلمان جس تناظر میں اس کو استعمال کرتے ہیں، وہ دونوں مختلف ہیں۔
ان کے مطابق ریاست مدینہ میں یہودیوں اور مسلمانوں کو ایک امہ تصور کیا جاتا تھا جس سے اندازہ لگانا آسان ہے کہ ریاست مدینہ نے کتنے تکثیری معاشرے کا تصور دیا تھا۔
ان سے جب پوچھا گیا کہ پاکستان میں ریاست مدینہ کی طرز کا حکومتی نظام نافذ ہوسکتا ہے؟ تو انہوں نے بتایا کہ ریاست مدینہ کے وقت اور آج کل کے زمانے میں بہت فرق ہے۔
مصطفیٰ نے کہا: ’اس وقت کسی جگہ پر لوگ قبیلوں کے صورت میں رہتے تھے اور مختلف سیاسی معاہدے قبیلوں کے درمیان ہوتے تھے لیکن آج کل کے زمانے میں ریاستوں میں انفرادی شہریت کا تصور ہے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ مدینہ ایک چھوٹا شہر تھا اور اس کا سیاسی ڈھانچہ مکمل طور پر آج کل کی ’جدید‘ ریاستوں میں کاپی نہیں کیا جاسکتا لیکن ریاست کے مخلتف معاملات میں ہم اس کی مدد لے سکتے ہیں۔
مذہبی آزادی کے بارے میں پشاور میڈیکل کالج کے شعبہ اسلامک سٹڈیز کے سربراہ اور مذہبی سکالر ڈاکٹر شمس الحق حنیف کہتے ہیں کہ ’مذہبی آزادی میں یہ بھی شامل تھا کہ کسی غیر مسلم کو جبراً مسلمان نہیں بنایا جائے گا، انہیں بلاوجہ تنگ نہیں کیا جائے گا، ان کی املاک کو نقصان نہیں پہنچایا جائے گا اور اگر ان سے کسی نے چوری کی تو اس کا بھی ہاتھ کاٹا جائے گا۔‘
تاہم امہ کے تصور کے بارے میں ڈاکٹر شمس الحق کی رائے مصطفیٰ سے قدرے مختلف ہے۔
ڈاکٹر شمس الحق کہتے ہیں: ’امت کا تصور مسلم وغیر مسلم کے اشتراک میں نہیں تھا بلکہ امت کا تصور مسلمانوں کی اجتماعی وحدت قائم کرنے کے لیے تھا۔‘
یہی بات یونیورسٹی آف شکاگو کے جریدے میں شائع ہونے والے فریڈرک میتھیوسن ڈینی کے ایک تحقیقی مقالے میں بھی لکھی گئی ہے۔
مقالے میں فریڈرک لکھتے ہیں کہ ریاست مدینہ میں جو معاہدہ ہوا تھا اس میں کچھ یہودی شامل تھے لیکن اس میں ’امہ‘ کا بنیادی مقصد ایک مذہب کے ماننے والے تھے یعنی مسلمان۔
انہوں نے لکھا: ’اس معاہدے میں یہودی شامل ضرور تھے لیکن اس میں امہ کا تصور ایک مذہب کے ماننے والوں اور پیغمبرِ اسلام کو آخری نبی ماننے والوں کا تھا۔ یہودی اس امہ کا حصہ بطور ایک خاص گروپ بننے کے مجاز تھے۔‘
ریاست مدینہ میں اظہار رائے کی آزادی تھی؟
ڈاکٹر شمس الحق نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ریاستِ مدینہ میں مکمل طور پر اظہار رائے کی آزادی تھی۔
ان کے مطابق: ’پیغمبر اسلام سے ہر قسم کے سوالات پوچھے جاتے تھے۔ کبھی قرآن میں بھی ان کے سوالات کے جوابات آتے اور کبھی آپ خود بھی جواب دیتے۔ ان سوالوں اور جوابوں کی تفصیلات سیرت اور سنتِ رسول میں آج بھی دیکھی جاسکتی ہیں۔‘
ڈاکٹر شمس الحق نے سوال پوچھنے کے حق کے بارے میں بتایا کہ ریاست مدینہ میں غیر مسلم لوگ بھی اسلام کے بارے میں سوالات پوچھتے تھے اور انہیں تسلی بخش جوابات دیے جاتے تھے۔
ان کے بقول: ’’منافقین‘ کی ’الٹی سیدھی‘ باتوں کا بھی جواب دیا گیا ہے البتہ اظہار رائے کی آڑ میں تمسخر، مذاق اور امن وامان کی بربادی اور کسی کی دل آزاری کی اجازت نہیں تھی۔ مسلمانوں کو بھی غیرمسلموں کے معبودوں کو برا بھلا کہنے اور ان کی ذات پر سب وشتم کو منع کیا گیا تھا۔‘