اس وقت پاکستان ایک نئے قانونی تنازعے کے دوراہے پر ہے۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے کارکنوں کی طرف سے پارٹی چیئرمین عمران خان کی اسلام آباد ہائی کورٹ میں گرفتاری کے فوراً بعد ملک بھر میں ہنگامے اور جلاؤ گھیراؤ کا سلسلہ شروع ہوا تو پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار کسی سیاسی جماعت کے ہمدردوں نے فوجی مقتدرہ کے خلاف صرف زبانی کلامی تنقید کرنے کی بجائے بظاہر عملی ٹکراؤ کا فیصلہ کیا۔
اس ٹکراؤ میں بہت سے ایسے مناظر بھی دیکھنے میں آئے جن کا دفاع اب خود پی ٹی آئی کے ذمہ داران کے لیے مشکل ہو چکا ہے۔ خاص طور پر لاہور کے کور کمانڈر کی رہائش گاہ پر حملے کے دوران ہونے والی لوٹ مار اور مختلف مقامات پر فوجی ہیروز کی یادگاروں کی توہین کے واقعات پر پی ٹی آئی سے ہمدردی رکھنے والے حلقوں کا اس تشدد کا دفاع کرنا مشکل ہو چکا ہے۔
ان واقعات پر فوری ردعمل دیتے ہوئے پاکستان کی فوجی قیادت کی طرف یہ پالیسی بیان سامنے آیا ہے کہ ایسے واقعات کے ذمہ داران کے ساتھ ساتھ ان کے سہولت کاروں کو بھی پاکستان کے مروجہ فوجداری قوانین کے علاوہ پاکستان آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت قانون کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔
اگرچہ فوج اور سول حکومت میں ماضی کی طرح اب بھی اس بات پر اتفاق نظر آتا ہے کہ نو مئی کے واقعات میں ملوث افراد اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف مقدمات عام عدالتوں کی بجائے فوجی عدالتوں میں چلائے جائیں گے لیکن کیا پاکستان کے موجودہ دستوری ڈھانچے اور قانونی نظام کے اندر رہتے ہوئے ایسا ممکن ہے؟
فوجی عدالتیں کیا ہیں؟ کس قانون کے تحت کام کرتی ہیں اور کیا ان کے فیصلوں کے خلاف اپیل کا حق ہے؟
عام فہم الفاظ میں فوجی عدالتیں پاکستان آرمی ایکٹ 1952 کے تحت قائم کی جاتی ہیں اور فوج کے حاضر سروس افسران ہی ان عدالتوں میں بطور جج بیٹھتے ہیں۔
یہ عدالتیں آئین پاکستان کے آرٹیکل 175 کے تحت قائم کردہ عام عدالتی ڈھانچے سے باہر کام کرتی ہیں اور ملک کی باقی فوجداری عدالتوں کے برعکس وہ ملک کے عمومی ضابطہ فوجداری اور قانون شہادت پر شق وار عمل کرنے کی پابند نہیں ہیں۔
ان عدالتوں کی طرف سے سنائی گئی سزا کے خلاف اپیل یا نظرثانی کی درخواست بھی سزا کی نوعیت کے مطابق صرف فوجی حکام یا فوجی سربراہ یعنی چیف آف آرمی سٹاف کو ہی کی جا سکتی ہے۔
یہ عدالتیں ہائی کورٹس کی عمومی انتظامی ماتحتی میں نہیں آتیں اور آئین کے آرٹیکل 199 میں دیے گئے خصوصی اختیارات کو استعمال کرنے کے علاوہ ملک کی اعلی عدلیہ ان عدالتوں کی کارروائی یا سزاؤں کی بابت کوئی حکم صادر نہیں کر سکتیں۔
فوجی عدالتوں کی تاریخ
پاکستان میں فوجی عدالتوں میں عام افراد کے مقدمات سنے جانے کا آغاز لاہور میں 1953 میں فسادات کے بعد لگائے جانے والے مارشل لا سے ہوا جس کے بعد خصوصی فوجی عدالتیں لگا کر سزائیں سنائی گئیں۔
بعد میں فیڈرل کورٹ نے ’محمد عمر بنام تاج برطانیہ‘ نامی کیس کے ذریعے توثیق بھی کر دی۔
یکم جنوری 2015 کو ملک کی تاریخ میں پہلی بار دستوری بندوبست کرتے ہوئے دو سال کے لیے 21ویں آئینی ترمیم کے ذریعے مذہبی اور فرقہ وارانہ دہشت گرد تنظیموں سے تعلق رکھنے والے افراد کے خلاف درج مقدمات کو فوجی عدالتوں کے سپرد کر دیا گیا۔
2017 میں دوسری بار 23ویں آئینی ترمیم کے ذریعے فوجی عدالتوں کو مزید دو برس کے لیے یہ اختیار دے دیا گیا۔ فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی طرف سے وقتا فوقتا جاری کی گئی تفصیلات کے مطابق ان چار برسوں میں کل 641 افراد کو فوجی عدالتوں کی طرف سے سزائیں سنائی گئیں جن میں 345 افراد کو سزائے موت ہوئی۔
ان میں سے اب تک 56 افراد کی سزاؤں پر عمل درآمد کیا جا چکا ہے۔ اس عرصے میں صرف پانچ افراد ان عدالتوں سے بری ہوئے۔
مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی کے دور میں باقاعدہ عارضی دستوری بندوبست کے تحت عام شہریوں کے مقدمات کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے علاوہ پاکستان میں جمہوری ادوار میں شہریوں کے مقدمات فوجی عدالتوں میں عدالتوں میں چلائے جانے کی روایت موجود نہیں تھی۔
پاکستان فوج کی جیک برانچ سے منسلک رہنے والے سابق فوجی افسر کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم کے مطابق جنرل قمر جاوید باجوہ کی سربراہی کے دوران پی ٹی آئی کی حکومت کے دور میں 25 شہریوں کے مقدمات فوجی عدالتوں میں چلائے گئے جن میں سے تین کو سزائے موت بھی سنائی گئی تھی۔
#EXCLUSIVE: Yesterday night #PTI protestors stolen a cannon from #Peshawar cantt. pic.twitter.com/LmJVw3Uc2L
— Asad Ali Toor (@AsadAToor) May 10, 2023
عام شہریوں کے مقدمات بھی فوجی عدالتوں میں چلائے جا سکتے ہیں؟
جیسا کہ نام سے ظاہر ہے کہ آرمی ایکٹ 1952 بنیادی طور پر فوج کے حاضر سروس تنخواہ دار ملازمین کے لیے بنایا گیا ہے لیکن کچھ صورتوں میں ریٹائرڈ فوجی ملازمین اور بہت ہی استثنائی صورتوں میں ملک کے عام شہریوں پر بھی اس ایکٹ کے تحت مقدمہ چلانے کی گنجائش بہرحال موجود ہے۔
لیکن وہ گنجائش اس قدر ناکافی ہے کہ دو بار دستور پاکستان میں ترمیم کرتے ہوئے ایک محدود عرصے کے لیے آرمی ایکٹ کی دفعہ دو میں کچھ ذیلی شقیں داخل کی گئی تھیں جن کے بعد دہشت گردی کے جرم میں گرفتار افراد کے مقدمات عام عدالتوں کے بجائے فوجی عدالتوں میں چلائے جا سکیں گے مگر اس ترمیم کی مدت آخری بار سات جنوری 2019 کو ختم ہو چکی ہے۔
کن صورتوں میں عام شہریوں پر فوجی عدالتوں میں مقدمہ چلایا جا سکتا ہے؟
پاکستان فوج کے شعبہ تعلقات عامہ، قومی سلامتی کمیٹی اور حکومت پنجاب کے اعلیٰ سطح کے اجلاس کے جاری کردہ اعلامیے میں آرمی ایکٹ کے ساتھ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کا حوالہ بھی دیا جا رہا ہے۔
اس سے بظاہر یہی نظر آتا ہے کہ پی ٹی آئی کے مظاہرین کے خلاف آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کے الزام میں ہی آرمی ایکٹ کے تحت قائم کردہ فوجی عدالتوں میں یہ مقدمات چلائے جائیں گے۔
اس وقت نافذ العمل آرمی ایکٹ کی دفعہ دو کی ذیلی شق ڈی کی دفعات ایک اور دو کے تحت فوج سے تعلق نہ رکھنے والے افراد یعنی ملک کے عام شہری اگر فوج سے تعلق رکھنے والے ملازمین یعنی فوجیوں کو حکومت وقت کے خلاف نافرمانی کی ترغیب دیں یا پھر وہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ میں فوجی تنصیبات اور دفاعی مقامات وغیرہ کی بابت درج کسی جرم کے مرتکب ہوں تو شہریوں کے مقدمات بھی آرمی ایکٹ کے تحت فوجی عدالتوں میں چلائے جا سکتے ہیں۔
آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی دفعہ دو کی ذیلی دفعہ آٹھ کے تحت ممنوعہ مقامات کی ایک تعریف بیان کی گئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ’نہ صرف وہ تمام مقامات ممنوعہ مقام تصور ہوں گے جنہیں حکومت نے واضح طور پر ایسا قرار دیا ہو اور بلکہ وہ تمام مقامات یا عمارتیں بھی ممنوعہ مقام تصور ہوں گی جہاں جنگ یا دفاعی نظام سے متعلق تنصیبات یا ریکارڈ وغیرہ موجود ہو۔‘
آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی دفعہ تین کے مطابق ’اگر کوئی بھی شخص ریاست کے مفادات اور سلامتی کے منافی کوئی بھی شخص اوپر بیان کردہ کسی ممنوعہ مقام میں محض داخل ہو جاتا ہے تو اسے جرم تصور کیا جائے گا اور ایسے شخص کو 14 برس تک کی سزا سنائی جا سکتی ہے۔‘
اسی طرح آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی دفعہ آٹھ کے مطابق ایسے افراد کے سہولت کاروں اور اعانت کنندگان کو بھی وہی سزا دی جاسکتی ہے جو اس جرم کا ارتکاب کرنے والے افراد کو دی جائے گی۔
فوجی عدالتیں کیسے کام کرتی ہیں؟
فوجی عدالتوں کے کام کرنے کی تفصیل، مقام، تاریخ اور کارروائی مکمل طور پر خفیہ رکھی جاتی ہے۔ صرف فوج کے تعلقات عامہ کا شعبہ ہی کوئی تفصیلات جاری کرتا ہے۔ یعنی بند کمرے میں فوج کا منتخب کردہ ایک جج کارروائی چلانے میں مکمل طور پر خودمختار ہوتا ہے۔
18 اکتوبر 2018 کو پشاور ہائی کورٹ کے جسٹس وقار سیٹھ کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے دستور کے آرٹیکل 199 میں اپنے خصوصی اختیار کا استعمال کرتے ہوئے فوجی عدالتوں سے سزا یاب ہونے والے 70 افراد کو جرم سے بری کر دیا تھا جن میں سے زیادہ تر کو فوجی عدالتوں نے سزائے موت سنائی تھی۔
اس کے بعد پہلی بار فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے نام پر ہونے والی کارروائی کی تفصیلات ریکارڈ پر لائی گئی تھیں۔
بریت کے اس فیصلے میں عدالت نے انصاف اور قانون کے بنیادی تقاضوں کو بری طرح طرح نظر انداز کیے جانے پر ان عدالتوں کی کارروائی کو استغاثہ کا ایک ایسا ’کھیل‘ قرار دیا جو عدالت کے الفاظ میں ’طے شدہ مائنڈ سیٹ کے ساتھ ایک ایسی خانہ پری تھی جس میں خود فوج کی طرف سے چنے گئے ملزمان کے وکیل صفائی کی حیثیت محض ایک تماشائی کی تھی۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
عدالت نے نوٹس لیا کہ ان سب ہی ملزمان کو صرف ان کے اعتراف جرم پر ہی سزا سنائی گئی تھی۔ ان میں سے ہر ملزم نے اپنی مرضی سے وکیل منتخب کرنے کا حق استعمال کرنے سے انکار کیا۔ سب ہی کو سرکار کی طرف سے ایک ہی وکیل صفائی دیا گیا جس نے ہر گواہ پر جرح کرنے سے انکار کیا۔
تین مختلف عدالتوں میں مقدمات چلے لیکن اکثر ملزمان کے اعتراف جرم ایک ہی جیسے الفاظ اور لہجے میں تھے حتیٰ کہ ان تمام اعتراف ہائے جرم کی ہینڈ رائیٹنگ بھی ایک ہی تھی اور ملزمان نے محض ان بیانات کو تسلیم کیا تھا۔
اکثر ملزمان ٹرائل سے پہلے کئی سالوں سے گمشدہ تھے اور پہلی بار ان عدالتوں کے سامنے ظاہر ہوئے اور اپنا جرم قبول کر لیا۔
وکیل صفائی نے اس پوری کارروائی میں صرف عدالت میں کھڑے رہنے کے سوا کوئی کام نہ کیا۔ وکیل صفائی کا تعلق بھی ایک اور صوبے سے تھا جو ملزمان کی زبان تک سے ناواقف تھے۔
پشاور ہائی کورٹ کے اس بریت کے فیصلے کی گونج بین الاقوامی سطح تک سنی گئی اور کلبھوشن یادیو کے مقدمے میں عالمی عدالت انصاف نے بھی اپنے فیصلے میں اس مقدمے کا حوالہ دیتے ہوئے فوجی عدالتوں کے فیصلوں پر تفصیلی پیپر جاری کیا اور بعد میں پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ آف پاکستان نے عالمی عدالت انصاف کی طرف سے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دینے کا ذکر بھی کیا۔
16 جون 2020 کو ایک اور فیصلے میں پشاور ہائی کورٹ نے دوبارہ جسٹس وقار سیٹھ کی سربراہی میں فوجی عدالتوں کی طرف سے دی گئی 200 افراد کی سزاؤں کو انہی بنیادوں ہر ایک بار پھر کالعدم قرار دیا جبکہ 100 افراد کے مقدمات کو وزارت دفاع کی طرف سے ریکارڈ پیش نہ کرنے پر التوا میں رکھا گیا جن کی تاحال شنوائی نہیں ہو سکی ہے۔
کیا فوجی عدالتوں پر عدلیہ مداخلت کرے گی؟
اس بات کا قوی امکان موجود ہے۔ اس سے پہلے 21ویں آئینی ترمیم پر بھی سپریم کورٹ کا ایک فیصلہ موجود ہے اور آئینی ترمیم پر آئینی تحفظ حاصل ہونے کی وجہ سے فوجی عدالتوں کی جانب سے کی گئی قانون سازی، بینچ کی منقسم رائے میں اکثریتی رائے حاصل ہونے کی وجہ سے کالعدم قرار دیے جانے سے بچ گئی تھی۔
لیکن پشاور ہائی کورٹ کے دو فیصلوں میں ان عدالتی کارروائیوں کی تفصیلات منظر عام پر آنے کے بعد کلبھوشن یادیو کے کیس میں عالمی عدالت انصاف کے علاوہ بھی کئی بین الاقوامی غیر جانبدار اداروں کی طرف سے اس نظام پر تنقید کی گئی تھی۔
اسی تنقید کی وجہ سے عالمی سطح پر پاکستان کی جو جگ ہنسائی ہوئی تھی اس کے بعد شاید بغیر کسی آئینی ترمیم کے سیکرٹ ایکٹ میں دیے گئے انتہائی محدود قانونی جواز کے اندر رہتے ہوئے ملک کے عام شہریوں پر فوجی عدالتوں میں مقدمات چلائے جانے کا فیصلہ عدالتی نظرثانی کی تلوار کی زد میں آنے سے شاید نہ بچ سکے۔
ایڈووکیٹ حیدر سید اسلام آباد ہائی کورٹ کے وکیل ہیں اور آئینی اور قانونی امور پر گہری نظر رکھتے ہیں۔