کچھ الفاظ مجھے ہمیشہ پریشان کرتے رہے۔ کبھی ان کے صوتی تاثرات، کبھی ان کی شکل اور کبھی معنی۔ میں سوچا کرتی تھی کہ ایک دن ان سب الفاظ کو الٹ پلٹ کے وہی بنا دوں گی جو وہ مجھے نظر آتے ہیں۔
ایسا دن انسان کی زندگی میں کم ہی آتا ہے اور جب آتا ہے تو الفاظ کی قطار سے مرضی کا لفظ چننے میں بھی بڑی مشکل پیش آتی ہے۔ ہر لفظ منہ بسورتا سامنے آ کے کھڑا ہوا جاتا ہے۔ لگتا ہے الفاظ بھی اپنے پرانے پیراہن تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔
جب نو مئی کا تصور کروں تو ایسا ہی ایک لفظ سامنے آتا ہے، جو ہے تو ہندی زبان کا، مگر اس دن جو کچھ ہوا اس کے لیے اس سے بہتر لفظ مجھے نہیں ملا۔ یہ لفظ ہے ’وِس پھوٹ،‘ جو دھماکے یا بلاسٹ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔
رواں ماہ کی نو تاریخ بھی ایک ایسا ہی دن تھا، جب سب سے پہلے تو ایک سیاسی جماعت جس کا مزاج کچھ کچھ انقلابی اور کچھ کچھ رومانی تھا 180 درجے پر گھوم گئی۔
بھلا چنگا احتجاج کرتے کرتے یہ مقبول جماعت ایک ایسے عمل میں دانستہ یا نادانستہ ملوث ہوتی چلی گئی، جسے دنیا چاہے کچھ بھی کہے، لغت کے مطابق وہ کچھ بھی ہو مگر مجھے یہ ’وِس پھوٹ‘ لگا۔
’وس پھوٹ‘ کے اس عمل کے دوران یہ سیاسی جماعت ایک عجیب منظم انداز میں ایسے آگے بڑھی کہ ’دل کو کئی کہانیاں یاد سی آ کے رہ گئیں۔‘
مارا ماری جنگا جنگی کے اس کھیل میں جو کچھ سنا، جو کچھ دیکھا وہ وہی تھا جو ایسے کھیلوں کا منطقی انجام ہوتا ہے۔
ایک محاورہ ہے، ’چور کو مت مارو چور کی ماں کو مارو۔‘ چور کی ماں کو مارنے والے اس قدر جذباتی تھے کہ انہیں اس وس پھوٹ کے دوران کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ چور کی اصل ماں ہے کون؟
ماں کی تلاش میں یہ بے چارے اتنی دور نکل گئے کہ اب انقلاب وغیرہ تو ایک طرف رہا، ضمانتوں کے لالے پڑے ہیں۔ لاکھ چلا چلا کے کہیں کہ ہمیں تو بڑی امی نے کہا تھا مگر ظالم سنتے ہی کہاں ہیں۔
یہ ’وس پھوٹ‘ جو نو مئی کو ہوا، اچانک نہیں ہوا۔ ایسا ہی وس پھوٹ 12 مئی نومبر 2017 کو ہوا اور پیچھے دیکھتے جائیں تو جانے کب کب ہوا۔ عقلمندوں کے لیے اشارہ کافی ہے۔
’وس پھوٹ‘ کے اس واقعے میں جو نقصان ہوا وہ بے شک بہت بڑا ہے لیکن مجھے بہت حیرت ہوتی ہے کہ بالکل آپ کے میرے جیسے، عام نہتے انسان اچانک اس قدر وحشت میں کیسے مبتلا ہو جاتے ہیں؟ ایک جماعت سے ایک ہجوم میں کیسے تبدیل ہو جاتے ہیں؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کیا یہ وہی عمل نہیں جس کے تحت، عام الفاظ اپنا پیرہن بدل کے کسی اور معانی میں ڈھل جاتے ہیں؟ اسی پراسرار عمل کی طرف میں نے اپنے ایک کالم میں اشارہ کیا تھا کہ تخت سے تختے کے اس سفر میں ’یوم قیادت‘ اور ’یوم قیامت‘ ایک سے ہی محسوس ہوتے ہیں۔
نو مئی کا وہ دن ’یوم قیادت‘ بھی تھا مگر بعض حوالوں سے وہ ’یوم قیامت‘ ہی بن کر رہ گیا۔ جانے کتنے لوگ اس غلط پلاننگ کی بھینٹ چڑھیں گے، وہ نوجوان جن کے سامنے ابھی زندگی پڑی ہے آج وہ بلوائیوں میں تبدیل ہو چکے ہیں اور پولیس ریکارڈ میں بستہ ب کے بدمعاش کے طور پہ درج ہو چکے ہیں۔
صورت حال افسوس ناک ہے۔ احتجاج اور ’وس پھوٹ‘ میں کچھ فرق ہوتا ہے۔ سٹریٹ پاور دکھانے اور ’گھسن مکی‘ میں بھی ایک باریک سی حد فاصل ہوتی ہے۔
خیر جو ہوا، برا ہوا مگر حیرت یہ ہے کہ مجھے ایک نئی بات کا علم ہوا کہ جہاں میرے پاس ایسے الفاظ کا ذخیرہ ہے جو اپنے اصل معنوں میں کچھ اور ہیں اور میرے ذہن میں کچھ اور اسی طرح اور لوگوں کے پاس بھی ایسے بہت سے الفاظ موجود ہیں۔
آپ بس ایک لفظ ہی کو دیکھ لیجیے، عمر بھر ہم جس عمارت کو کور کمانڈر ہاؤس سمجھ کے تعظیم سے پرانے امرتسریوں کی طرح زمین پہ لیٹ کے رینگتے رینگتے گزرتے تھے، اس عمارت کے لیے لفظ ’جناح ہاؤس‘ کہیں کسی کونے کھدرے سے نمودار ہوا اور شہ سرخیوں میں جگہ پا گیا۔
اب لغت اور دنیاوی اصولوں کے مطابق تو جناح ہاؤس ایک ایسا گھر ہونا چاہیے تھا جو یا تو قائداعظم کی ملکیت ہوتا یا پھر ان کے ٹرسٹ کا حصہ ہوتا یا اس میں جناح صاحب کی ذات سے متعلق کوئی میوزیم وغیرہ ہوتا مگر یہ تو کور کمانڈر کی رہائش گاہ تھی۔
تو ایسا ہے کہ الفاظ کے ایسے عجیب استعمال کا ہلہلا صرف مجھے ہی نہیں اٹھتا، اس دشت میں اور بھی کئی مجنوں اور بھی کئی خار ہیں، رہے نام اللہ کا!
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔