’جب میں نے کوڑے سے فن پارے بنانے کا کام شروع کیا تو سب یہی کہتے تھے ’کچرا چننے والی ڈاکٹر صاحبہ‘ لیکن اب سب میرے کام کو دیکھ کر حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔‘
اسلام آباد کی رہائشی ڈاکٹر سعدیہ فضل سکریپ (کاٹ کباڑ) کی مدد سے مختلف قسم کے فن پارے تحلیق کرنے کے ساتھ ساتھ پینٹنگ کا کام بھی کرتی ہیں۔
ڈاکٹر سعدیہ فضل بنیادی طور پر پاکستان کے زیر انتظام کشمیر سے تعلق رکھتی ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ بچپن سے انہیں کیلی گرافی کا شوق تھا، لہذا انہوں نے اپنے شوق کو پورا کرنے کے لیے ایک ایسے آرٹ ورک کا انتخاب کیا جو ماحول دوست ہو۔ اس کے لیے انہوں نے آئل پینٹ اور کیمیکل کی بجائے گھر میں پڑے کچرے سے مختلف فن پارے تحلیق کرنے شروع کیے۔
انہوں نے بتایا کہ ان کے فن پارے بنانے کا طریقہ باقی لوگوں سے کافی منفرد ہے۔ وہ فن پاروں میں ایسی چیزوں کا استعمال کرتی ہیں، جن سے ہوا میں کیمیکل کا اخراج نہ ہو۔ مثال کے طور پر مختلف گتے کے ڈبے وغیرہ۔
ڈاکٹر سعدیہ کے مطابق وہ اپنے فن پاروں میں ایکولیک پینٹ کا استعمال کرتی ہیں جو آئل پینٹ کی نسبت ماحول کو آلودہ ہونے سے بچاتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ان چیزوں کا انتخاب انہوں نے اس لیے کیا کیونکہ زیادہ تر لوگ یہ پلاسٹک کے ڈبے وغیرہ نالیوں میں پھینکتے ہیں اور پلاسٹک کافی خطرناک بھی ہوتا ہے، اس لیے انہوں نے پلاسٹک کے ڈبوں کو کارآمد بنانے کے لیے انہیں پینٹ کرنا اور کاغذ کے گتوں سے فن پارے تحلیق کرنے کا کام شروع کردیا۔
بقول ڈاکٹر سعدیہ وہ انڈوں کے خالی ڈبوں کو پانی میں بھگو کر ان سےکینوس پر پینٹگز کے لیے ٹیکسچر پیسٹ تیار کرتی ہیں، جس سے ان کے فن پاروں میں جدت آتی ہے اور ان کی خوبصورتی میں اضافہ ہوتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ انہیں اب اس کام میں اتنا تجربہ ہوگیا ہے کہ انہیں پتہ ہے کہ کس کچرے کے ساتھ کن چیزوں کو ملا کر خوبصورت بنایا جاسکتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ڈاکٹر سعدیہ سائیکاٹرسٹ ہیں اور وہ اپنے اس آرٹ ورک کو مریضوں کی بہتری کے لیے بھی استعمال کرتی ہیں اور انہیں یہ سکھاتی ہیں تاکہ ان کی ذہنی صحت بہتر ہو۔
انہوں نے بتایا کہ اب مریضوں کے علاوہ عام لوگ بھی ان سے سیکھنے کے لیے رابطہ کرتے ہیں اور وہ باقاعدہ طور پر لوگوں کو یہ آرٹ سکھانے کا کام بھی کرتی ہے۔
ڈاکٹر سعدیہ اپنے اس آرٹ کو آن لائن فروخت کرتی ہیں لیکن وہ اس سے زیادہ منافع نہیں کماتیں بلکہ لوگوں کو اس بارے میں آگاہی دیتی ہیں کہ کیسے وہ کچرے سے فن پارے بنا کر ماحول کو صاف رکھ سکتے ہیں۔
اس آرٹ کو سیکھنے کا خیال کہاں سے آیا؟
ڈاکٹر سعدیہ نے بتایا کہ سکریپ سے آرٹ بنانے کا خیال انہیں اس وقت آیا، جب ہنزہ کے علاقے میں انہوں نے ایک ہوٹل مالک کو کچرا چنتے ہوئے دیکھا۔ وہیں سے انہیں یہ خیال آیا۔ ابتدا میں بہت سے لوگ انہیں ’کچرا چننے والی ڈاکٹر صاحبہ‘ کہہ کر پکارتے تھے لیکن جب سے انہیں اس کام میں کامیابی ملی ہے، تب سے ان کے دوست احباب اس کام کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور ان کی حوصلہ افزائی بھی کرتے ہیں۔
ڈاکٹر سعدیہ نے بتایا کہ اس کام کے آغاز کے بعد سے ان کے اندر کا سائنس دان ابھر کر باہر نکلا ہے اور اب وہ ماحول کو صاف رکھنے کے اس مشن میں مصروف ہیں اور مختلف نمائشوں میں جاکر لوگوں کو بھی اس کام کے حوالے سے آگاہی دیتی ہیں۔