’میں شعلوں سے کھیلتا ہوں۔ کبھی کبھار شعلے لگ بھی جاتے ہیں لیکن یہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں، کیونکہ شعلوں سے جو فن پارہ بنایا جاتا ہے اس کی اپنی ایک خوبصورتی ہوتی ہے جو دیکھنے والوں کو خوش کرتی ہے۔‘
بشیر احمد باطش اپنے ایک چھوٹے سے کمرے میں بیٹھے شعلوں کے ذریعے قائد اعظم کا فن پارہ بنا رہے تھے۔
وہ بتاتے ہیں: ’پاکستان میں شعلوں سے فن پارے بنانے کا ہنر بہت کم ہے۔ واٹر کلر، آئل پینٹنگ وغیرہ تو بہت لوگ کرتے ہے لیکن یہ انوکھا کام ہے۔‘
بشیر احمد باطش کا تعلق ڈیرہ اسماعیل خان کے ایک متوسط گھرانے سے ہے اور وہیں انہوں نے اپنے گھر سے متصل ایک چھوٹا سا کمرہ بنایا ہوا جس میں ان کے کچھ فن پارے رکھے ہوئے ہیں اور کچھ کے لیے جگہ موجود ہے۔
’فن پارے بنانے کا ہنر مشکل ضرور ہے لیکن مجھے اتنا وقت نہیں ملتا کہ اپنے کام کو کسی اچھی جگہ پر ڈسپلے کر سکوں۔‘
شعلے سے فن پارے کیسے بنتے ہیں؟
باطش نے بتایا کہ اس میں ویلڈنگ میں استعمال ہونے والا شعلوں والا کاویا اور بغیر شعلوں کا کاویا استعمال ہوتا ہے جب کہ جس چیز پر فن پارہ بنایا جاتا ہے وہ ایسی ہوتی ہے جو آگ سے نہ جلے۔
باطش نے بتایا: ’پہلے شعلوں سے تصویر بنائی جاتی ہے یعنی فن پارہ تقریباً مکمل بنایا جاتا ہے اور اس کے بعد بغیر شعلوں کے کاویے سے اس کی ریفائننگ کی جاتی ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے بتایا کہ آئل پینٹنگ اور دیگر آرٹ میں غلطی کو درست کیا جا سکتا ہے، لیکن ان کے کام میں غلطی کی گنجائش نہیں ہے کیونکہ جس چیز پر فن پارہ بنایا جارہا ہے وہ ایک بار جل جائے تو اسے دوبارہ ٹھیک نہیں کیا جا سکتا۔
باطش سے جب پوچھا گیا کہ اس ہنر کا شوق کیسے پیدا ہوا تو انہوں نے جواب دیا کہ وہ چار سال کی عمر سے ہی اس کے شوقین ہیں اور تب سے اب تک جتنا سیکھا ہے اسی کو اب استعمال کر رہے ہیں۔
باطش نے بتایا کہ انہوں نے سرکاری دفاتر کے لیے قائد اعظم کا شعلوں سے جلا پورٹریٹ بنایا ہے۔
ان کے مطابق کراچی، کوئٹہ اور پشاور کے وزیر اعلیٰ ہاوسز میں ان کے بنائے ہوئے پورٹریٹ لگے ہوئے ہیں جبکہ جی ایچ کیو کی مختلف یونٹس کے لیے بھی وہ قائد اعظم کے پورٹریٹ بنا چکے ہیں۔
باطش کا کہنا ہے کہ: ’آگ سے فن پارے بنانا ایک شارٹ کٹ ہے۔ اس میں زیادہ کلرز استعمال نہیں ہوتے اور فن پارہ بنانے کے بعد یہ کسی بھی فریم میں فٹ ہو سکتے ہیں۔‘