سوات سکول وین فائرنگ: پولیس اہلکاروں کی ’ذہنی جانچ پڑتال‘ کا حکم

سوات میں ریجنل پولیس دفتر نے پولیس کے نام ایک مراسلہ جاری کرتے ہوئے فوری طور پر تمام پولیس اہلکاروں کی ذہنی فٹنس کا جائزہ لینے اور متضاد رویے پر انہیں میڈیکل بورڈ کے حوالے کرنے کے احکامات جاری کیے۔

18 ستمبر 2018 کو لی گئی اس تصویر میں لڑکیاں وادی سوات کے ایک قصبے مینگورہ کے ایک سکول میں کلاس میں جا رہی ہیں (اے ایف پی/فائل)

ضلع سوات میں سنگوٹہ کے علاقے میں غیر سرکاری سکول کے سکیورٹی ملازم کی جانب سے 16 مئی کو طالبات کی گاڑی پر فائرنگ کے واقعے کے بعد عوامی غم وغصہ بتدریج بڑھتا جارہا ہے جبکہ پولیس کا موقف ہے کہ اس معاملے میں تفتیش کے علاوہ دیگر اقدامات لیے جا رہے ہیں۔

سات زخمی بچیوں کی حالت اب خطرے سے باہر بتائی جارہی ہے اور ماسوائے دو طالبات کے دیگر کو ہسپتال سے گھر بھیج دیا گیا ہے، جبکہ پولیس کی جانب سے لیے جانے والے اقدامات میں سوات کے پولیس اہلکاروں کی ذہنی حالت کے معائنے کے احکامات بھی جاری کیے گئے ہیں۔

منگلور پولیس سٹیشن کی حدود میں پیش آنے والے اس واقعے کے حوالے سے محرر شاہ خالد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ملزم عالم خان کو گذشتہ روز عدالت میں پیش کرنے کے بعد سیدو شریف جیل بھیج دیا گیا ہے، جہاں ملزم سے تفتیش جاری ہے۔

سنگوٹہ سکول کے واقعے میں زخمی ہونے والی ایک بچی روما کے والد ظہور حسین نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کی بیٹی کو کندھے اور سر کے کچھ حصے پر چوٹ آئی تھی، جس کے مزید علاج کے لیے وہ اسلام آباد کا رخ کریں گے۔

انہوں نے بتایا، ’سیدو ہسپتال سے ابتدائی علاج ہوگیا ہے، لیکن روما کے کندھے اور گردن میں اب بھی کچھ پیچیدگیاں ہیں۔ اس لیے ہم نے اسلام آباد کے کسی ہسپتال سے علاج کرنے کا سوچا ہے۔‘

ظہور حسین نے کہا کہ ان کا تعلق تحصیل چارباغ سے ہے، جہاں سے روزانہ ان کی دو بیٹیاں کوسٹر میں دوسری تحصیل میں واقع سنگوٹہ سکول جاتی تھیں۔

’فائرنگ کے وقت میری دوسری بیٹی بھی اسی گاڑی میں موجود تھی، جو معجزاتی طور پر بچ گئی ہیں۔‘

ظہور حسین نے بتایا کہ وفات پانے والی پانچ سالہ عائشہ بھی ان کے ہمسائےعابد کی بیٹی تھیں، جس کے بعد ان کا پورا خاندان شدید غم میں مبتلا ہے۔

مختلف خبریں کچھ یوں بھی آرہی ہیں کہ ملزم کی دماغی حالت ٹھیک نہیں تھی اور اس سے متعلق سنگوٹہ سکول انتظامیہ کو پہلے سے علم تھا اور وہ اس بابت پولیس کو بھی آگاہ کرچکے تھے۔

انڈپینڈنٹ اردو نے متعلقہ سکول سے رابطہ کیا تو ایڈمن آفیسر شکیل نے فقط اتنا بتایا کہ ملزم اکتوبر 2022 سے سکیورٹی گارڈ کے عہدے پر بھرتی ہوا تھا اور انہیں بطور ایڈمن افسر کبھی ملزم کے رویے میں تضاد کا شبہ نہیں ہوا۔

ایڈمن افسر نے کہا کہ دراصل سنگوٹہ سکول کانوینٹ سکول سسٹم ہے، جس میں مختلف عہدوں پر حوالدار، چوکیدار اور دیگر ملازمین پولیس کی جانب سے بھرتی کروائے جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس تناظر میں ان کے سکول میں تقریباً نو ایسے ملازمین کام کر رہے ہیں۔

پولیس کے اقدامات اور دباؤ

سوات میں ریجنل پولیس دفتر نے واقعے کے اگلے دن 17 مئی کو پولیس کے نام ایک مراسلہ جاری کرتے ہوئے ضلع سوات میں فوری طور پر تمام پولیس اہلکاروں کی ذہنی فٹنس کا جائزہ لینے اور متضاد رویہ رکھنے والے افراد کی نشاندہی کر کے انہیں میڈیکل بورڈ کے حوالے کرنے کے احکامات جاری کیے۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مراسلے میں کہا گیا، ’جو لوگ غیر متضاد برتاؤ کرتے ہوئے پائے گئے یا شدید طور پر افسردہ یا صنف، عقیدے میں متعصب پائے گئے ہوں، ان کی نشاندہی کرکے میڈیکل بورڈ کے حوالے کیا جائے اور ان کی خدمات کو ختم کردیا جائے کیونکہ وہ عوامی تحفظ کے لیے سنگین خطرہ ہیں۔ علاوہ ازیں، ایسے افسران کو اس وقت تک اہم ڈیوٹیوں پر تعینات نہیں کیا جاسکتا جب تک انہیں میڈیکل بورڈ کے ذریعے موزوں قرار نہیں دیا جاتا۔ عدم تعمیل کے بعد اگر کوئی واقعہ پیش آیا تو متعلقہ ایس ڈی پی اوز، ایس ایچ اوز، ڈی ایس پی ہیڈ کوارٹرز و دیگر افسران کے خلاف محکمانہ کارروائی کی جائے گی۔‘

دوسری جانب علاقے کے سرگرم شہری، مقامی سوشل میڈیا انفلوئنسرز اور سوات ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کے وکلا نے متعلقہ سانحے کو ضلعی پولیس افسر(ڈی پی او) کی ’لاپرواہی اور کوتاہی‘ کا نتیجہ قرار دیا اور اسی سبب ان کی فوری تبدیلی کا مطالبہ کیا ہے۔ اس ضمن میں ایک متفقہ قرارداد منظور کی گئی اور یہ کہا گیا کہ اگر ڈی پی او کو تبدیل نہ کیا گیا تو وہ آئندہ کا لائحہ عمل طے کریں گے۔

واقعے کی تفصیلات

انڈپینڈنٹ اردو کو موصول ہونے والی ایف آئی آر کی نقل اور عینی شاہدین کی جانب سے میڈیا کے ساتھ کی گئی بات چیت کے مطابق یہ واقعہ دن کے تقریباً دو بجے اس وقت پیش آیا جب سکول کی چھٹی ہوئی تھی۔

ایف آئے آر میں واقعے کے چشم دید گواہ نے بیان دیا ہے کہ اس دوران گیٹ پر موجود ملزم نے اچانک اپنا سرکاری کلاشنکوف اٹھا کر ایک کوسٹر پر اندھا دھند فائرنگ شروع کی، جس کے نتیجے میں ایک بچی موقع پر ہی دم توڑ گئی جبکہ دیگر سات زخمی ہوئیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان