میدان جنگ سے رپورٹنگ آسان ہے لیکن اچھے طریقے سے کرنی مشکل ہے۔ کسی بھی مسلح تنازعے میں ملوث فریقین کو سچ بتانے کا کوئی ثواب نہیں ہے۔ یہ صورتحال صحافت کی تمام اقسام میں موجود ہے، لیکن عسکری تنازعات کے موسم میں پروپیگنڈے کی کوششیں اپنے عروج پر ہیں اور جنگی افراتفری سے اسے تقویت ملتی ہے جو سچ کے متلاشیوں کے لیے اچھا نہیں۔
فوجی رہنماؤں کو اکثر رپوٹروں سے میدان جنگ سے خبروں کی غیریقینی اور پیچیدگی کا زیادہ احساس ہے۔ انہیں کو وجوہات بیان کرتے ہوئے ڈیوک آف ویلنگٹن نے اس شبہہ کا اظہار کیا کہ واٹرلو کی جنگ کا کوئی درست احوال کبھی لکھا جاسکے گا۔
امریکی خانہ جنگی کے دوران، کنفیڈریٹ جنرل ’سٹون وال‘ جیکسن نے قدرے مختلف بات کی۔ حالیہ لڑائی کے مقام کی ایک مشیر کے ہمراہ جائزے کے دوران وہ مڑے اور ان سے پوچھا: ’کیا آپ نے کبھی سوچا، سر کہ میدان جنگ جھوٹوں کو کیسا موقع فراہم کرتا ہے؟‘
ان کا مطلب تھا کہ جنگ دروغ گوئی کے لیے دروازہ کھول دیتی ہے کیونکہ جھوٹے دعوے کرنا آسان اور ان تردید کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ لیکن یہاں محض ’جنگی دھند‘ کے علاوہ بھی بہت کچھ کارفرماں ہے جو ابہام کی حادثاتی صورت کو بڑھاتی ہے اور جسے باآسانی غلط معلومات کی وجہ قرار دیا جاتا ہے۔
پروپیگینڈا، معلومات کی جان بوجھ کر ہیرا پھری، ہمیشہ سے جنگی حکمت عملی کا مرکزی حصہ رہی ہے۔ یہ آج کل سے بھی زیادہ ہے۔ اسے برا پریس ملتا ہے اور اس پر انگلیاں بھی اٹھائی جاتی ہیں لیکن یہ واضح ہے کہ جو لوگ ایک دوسرے کو مارنے پر تلے ہیں وہ ایک دوسرے کے بارے میں جھوٹ بولنے سے نہیں کترائیں گے۔
اس فیشن کو مزید مقبول امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے اپنے مفاد کے خلاف خبر کو ”جعلی خبر” قرار دینے نے کیا جس سے یہ تاثر بڑھا کہ معلومات، غلط یا درست، ہمیشہ کسی کے ہاتھ میں ایک ہتھیار ہے۔ یہ درست ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ”اوبجیکٹو” سچ وجود ہی نہیں رکھتا اور یہ کہ اسے اچھی صحافت کے ذریعے بےنقاب نہیں کیا جاسکتا ہے۔
’جنگ میں سچ پہلا شکار ہوتا ہے۔‘ خراب رپورٹنگ یا فریقین کی جانب سے مہیا کی گئی معلومات پر انحصار میڈیا کے لیے ایک خطرناک راہ فرار ہے۔ اس کے برخلاف جنگ میں سچائی چھپانا ضروری نہیں اور یہ حکومتوں کے فائدے میں ہے کہ وہ اپنے مخالفین کی کوششوں کو بےمعنی اور کمزور ہیں۔ صحافی، انفرادی اور اجتماعی طور پر پروپیگینڈا کرنے والوں کے ساتھ ہمیشہ ایک مسلسل جدوجہد میں رہیں گے جس میں کی ایک کی کامیابی ممکن نہیں۔
اگرچہ عام اصول درست ہے، لیکن مجھے 1991 کی پہلی خلیجی جنگ سے لگتا ہے کہ پروپیگنڈا کرنے والے جیت رہے ہیں اور درست شاہدین کی رپورٹنگ پسپا ہو رہی ہے۔ اس کی وجوہات کئی ہیں: سیاست، معیشت اور ٹیکنالوجی نے مل کر ان کو جن کا کام واقعی ہے کہ معلوم کرسکیں کہ کیا ہو رہا ہے اور اس کی خبر لوگوں تک پہنچا سکیں شکنجے میں جکڑ لیا ہے یا خاتمہ کر دیا ہے۔
یہ باد مخالف کئی سمتوں سے چل رہی ہے لیکن ان کا مجموعی اثر یہ ہے کہ وہ جائے وقوع پر خبریں اکٹھی کرنے کی مختلف طریقوں کو متاثر کر رہی ہے۔ جنگ کی رپورٹنگ میں حالیہ چند دھائیوں میں جو تبدیل ہوا ہے وہ ہے کہ حکومتوں نے خبر بنانے کے لیے انہیں زیادہ وسائل دیے ہیں اور ان کا معیار بہتر کیا ہے۔ میں 1991 سے چچنیا، افغانستان، عراق، لیبیا اور شام میں تنازعات کے بارے میں لکھ رہا ہوں جنہیں بعض اوقات نائین الیون کے بعد کی جنگیں کہا جاتا ہے، اگرچہ بعض اہم پہلو ٹوِن ٹاورز کی تباہی سے پہلے کے ہیں۔ جنگ سے رپورٹ کرنا ہمیشہ مشکل اور خطرناک رہا ہے، لیکن اس دور میں کچھ زیادہ ہوگئی ہیں۔ افغان اور عراق کی جنگوں کی کوریج اکثر مناسب نہیں رہی لیکن اتنی بری نہیں تھی جتنی کہ لیبیا اور شام میں رہی۔ غلط فہمیاں محض تفصیلات کے بارے میں نہیں تھیں مگر بنیادی سوالات کے بارے میں جیسے کہ کون واقعی کس سے لڑ رہا ہے اور کون فاتح اور کس کی قسمت میں شکست آئی ہے۔
یہ کم علمی کہا جاتا ہے کہ عام لوگوں میں ہے، جبکہ طاقتور اور ”ڈیپ سٹیٹ یا گہری ریاست” کو جن کے جاسوس پینٹاگان، وائٹ ہال اور کریملن میں ہیں، سب معلوم ہے کہ کیا ہو رہا ہے۔ درحقیقت، برا تجربہ بتاتا ہے کہ یہ درست نہیں اور سیاستدان جیسے کہ ٹونی بلیئر اور جارج ڈبلیو بش کو 2003 میں عراق میں محدود یا غلط معلومات کی بنیاد پر بڑے فیصلے کئے۔
یہ ہی بات تھی جب وہ 2011 میں ڈیویڈ کیمرون، نیکولس سرکوزی اور ہیلری کلنٹن نے مل کر نیٹو کے ذریعے لیبیا میں معمر قذافی کا تختہ الٹنے کا فیصلہ کیا۔ یہ آغاز سے واضح ہونا چاہیے تھا کہ ٹوٹے پھوٹے مخالف ملیشیا انہیں ہٹانے کی حالت میں نہیں تھے اور جنگ کے نتیجے میں افراتفری روکنا ناممکن ہوگا۔
شام میں سیاسی رہنماؤں اور ذرائع ابلاغ نے انہیں یقین دلایا کہ صدر بشر الاسد کا خاتمہ ممکن ہے جبکہ کوئی بھی شخص جس کے پاس زمینی حقائق ہیں پیشن گوئی کرسکتا ہے کہ یہ ممکن نہیں ہوگا۔
کسی کی بھی آنکھیں پچاس سال پہلے کے رپورٹنگ کے معیار کے بارے میں نم نہیں ہونی چاہیے جب اکثر نیوز ادارے جو ویتنام کی جنگ کی کوریج کر رہے تھے نے ممکنہ امریکی اور ان کے اتحادیوں کی فتح کی ذمہ داری کے ساتھ سرکاری لائن لی۔ میڈیا اکثر سچ تلاش کرنے اور اسے صاحب اقتدار تک پہنچانے کی اپنی صلاحیت کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے۔
پھر بھی ویتنام میں صحافی بڑی تعداد میں موجود تھے اور کام کرنے میں آذاد تھے۔ ان کی صفوں میں ایسے بھی تھے جو سرکاری پرامیدی کی نفی کرتے ہوئے کہتے رہے کہ امریکہ شکست کی جان بڑھ رہا ہے۔ بدقسمتی سے ویتنام کے بعد سے طاقت کا توازن آذاد سوچ کی حامل صحافت سے سرکاری نکتہ نظر کی تروایج کرنے والوں میں تبدیل ہو چکا ہے۔
ابتری کی جانب پیش رفت نوٹ کی جاسکتی ہے، اگرچہ دنیا میں تبدیلی سست روی سے آتی ہے اور تبدیل ہونے والی چیزیں مستقل رہنے والوں سے کم ہوتی ہیں۔ پروپگینڈا میں کچھ نیا نہیں ہے، خبر کو کنٹرول کرنا یا ”جعلی حقائق” پھیلانا۔ قدیم مصری فرعون نوادرات پر اپنی شکست کو خود تعریفی فتح کے طور پر پیش کرتے تھے۔
جنگ کی رپورٹنگ کے بارے میں جو حالیہ دھائیوں کچھ نیا ہے وہ حکومتوں کی جانب سے زیادہ وسائل اور سفیسٹیکیشن ہے۔ جہاں اب حکومتوں کے اپنے بھاری تعداد میں پریس دفاتر میں افراد نہیں، وہ اب پی آر کمپنیوں کی خدمات حاصل کرتی ہیں۔
ویتنام کے بعد امریکی فوج نے اپنے آپ کو قائل کیا کہ – میرے خیال میں غلط فیصلہ تھا – کہ اسے شکست جارحانہ میڈیا کوریج کی وجہ سے ہوئی۔ وہ نہیں چاہتے کہ یہ دوبارہ ہو اور اس نئے رویے کو 1991 کی خلیجی جنگ میں دیکھا جاسکتا تھا – ایک جنگ جس نے آنے والے برسوں میں جنگی رپورٹنگ کی روایت شروع کی۔
پروپگینڈا کرنے والوں کے لیے شروع کے دنوں میں زندگی مشکل نہیں تھی: صدام حسین کو باآسانی شیطان کے طور پر پیش کیا جاسکتا تھا کیونکہ وہ واقعی شیطان تھا۔ دوسری جانب عراق کی جانب سے کویت میں مداخلت اور اس کے مقابلے کے لیے جوابی حملہ جعلی خبر تھی۔ یہ ایک رپورٹ تھی کہ اگست 1990 میں حملہ آور عراقی فوجیوں نے کویت کے ایک ہسپتال میں نومولود بچوں کو انکیوبیٹرز سے نکال کر فرش پر مرنے کے لیے چھوڑ دیا۔
ایک کویتی لڑکی نے جو اس ہسپتال میں رضاکار تھی امریکی کانگرس کو بتایا کہ انہوں نے یہ ظلم ہوتے دیکھا تھا۔ ان کہانی کی ایمنسٹی انٹرنیشنل نے تصدیق کی تھی اور امریکی اور اس کے اتحادیوں کی کارروائی کو ممکن بنانے کے لیے بین القوامی حمایت حاصل کرنے کے لیے اہم تھی۔
حقیقت میں کویتی بچوں کی کہانی ایک افسانہ تھی۔ وہ لڑکی جس نے گواہ ہونے کا دعوی کیا واشنگٹن میں کویت کے سفیر کی بیٹی تھیں۔ کئی صحافیوں اور انسانی حقوق کے ماہرین نے اس وقت شکایات کی تھی کیونکہ ان شاہدوں کی کہانیوں میں تضاد تھا، لیکن ان کی آوازیں اس قصے کی وجہ سے پیدا ہونے والےغم و غصے میں ڈوب کر رہ گئیں۔ یہ ایک کامیاب پروپیگنڈا کی اعلی مثال تھی: یہ کہانی آسانی سے مسترد نہیں کی جاسکتی تھی – اور جب جنگ کے بعد یہ ممکن ہوا تو اس وقت تک پانی سر سے گزر چکا تھا۔
بیس برس بعد لیبیا میں ظلم و ستم کی کہانیوں نے وہی کھیل کھیلا، جنہوں نے لوگوں کو قائل کیا کہ معمر قذافی ایک برا انسان تھا جس کا خاتمہ ضرور ہے۔ ذرائع ابلاغ نے لیبیا میں ایک عورت کی کہانی چلائی جس میں انہوں نے دعوی کیا تھا کہ قذافی کے جنگجوں نے حزب اختلاف کے جن علاقوں پر دوبارہ قبضہ کیا وہاں کی خواتین کی ایک سروے کی مطابق انہوں نے سرکاری ہدایات پر بڑی تعداد میں عورتوں کے ساتھ جنسی تشدد کیا۔
اس کے کئی ہفتوں بعد ایمنسٹی انٹرنیشنل، ہومن رائٹس واچ اور اقوام متحدہ کی کمیٹی نے جامع تحقیقاتی رپورٹ شائع کی جس میں واضح کیا گیا کہ انہیں نہ تو ایسے کسی سروے اور نہ ہی کسی ایک متاثرہ خاتون کے ثبوت ملے۔ لیکن اس قت تک نیوز ایجنڈا آگے بڑھ چکا تھاء میرے خیال میں میں ان چند صحافیوں میں سے ایک تھا جس نے اس ظلم کی کہانی کو غلط قرار دیا تھا۔
حکومتوں نے سرعام یا پھر پوشیدہ طریقے سے خبر کو کنٹرول کرنے کی کوششیں ایک ایسے وقت بڑھا دی ہیں جب صحافیوں اور نیوز اداروں کی حکومتی اقدامات اور بیانات کا جائزہ لینے کی صلاحیت تیزی سے کم ہوئی ہے۔
مجھے یہاں یہ کہنا چاہیے کہ دی انڈیپینڈنٹ کے سلسلے میں اس کا الٹ درست ہے جس نے اپنے بین القوامی عملے کی تعداد بشمول تین اضافی نامہ نگار جو مشرق وسطی کی کوریج کریں گے قابل ذکر حد تک حالیہ دنوں میں بڑھائی ہے۔ تاہم باقی میڈیا میں تہ کمی واضح ہے۔
پہلے تو ، کسی بھی قسم کی تنازعات کی رپورٹنگ ماضی کے مقابلے میں جب میں نے پہلی بار 1970 کی دہائی کے ابتدا میں شمالی آئر لینڈ میں تنازع کے بارے میں لکھا زیادہ خطرناک ہو گی ہے۔ میں مذاق کیا کرتا تھا کہ مسلح افراد کا کوئی گروپ ان کے خیالات کو فروغ دینے کے لیے پریس آفیسر کے بغیر نہیں تھا جو ان کے تشدد کو ردعمل کے طور پر پیش کرتے تھے۔ چند برس بعد خانہ جنگی کے دوران بیروت منتقل ہونے پر میں نے ملیشیا رہنماوں کو انٹرویو اور ان کی چوکیوں سے محفوظ طریقے سے گزرنے کی اجازت دینے میں پیش پیش پایا۔
اس کا آج کے شام کے ساتھ مقابلہ کریں، جہاں اب غیرملکی صحافی کے لیے ناممکن ہے کہ وہ مسلح حزب اختلاف کے زیر قبضہ علاقے میں مارے جانے یا اغوا ہونے کے خطرے کے بغیر داخل ہوسکے۔
”شہری صحافیوں” کے ذریعے بھی خبریں اکٹھی کی جاسکتی ہیں لیکن وہ صرف القاعدہ جیسے گروہوں کی اجازت سے کام کرسکتے ہیں جو کسی قسم کی مخالف رائے برداشت نہیں کرتے۔ وہ جو خبر کو توازن کے ساتھ کرنا چاہتے ہیں انہیں اس کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔ دمشق میں حزب اختلاف کے زیر قبضہ ڈوما پر سیرین گیس حملے کے دوران مجھے معلوم ہوا کہ یہ قمیت کتنی بڑی ہوسکتی ہے۔ میں رظان زیتونح کے ہمراہ ایک امریکی ٹی وی پروگرام میں شریک ہوا جو حقوق انسانی کی بہادر کارکن ہیں جو شامی حکومت کے ناقدین میں سے بھی ہیں اور اس اختلاف کی تاریخ عرب بہار سے قبل کی ہے۔ وہ سکائپ پر اندرون ڈوما سے شریک تھیں۔
وہ بہت خوب انداز میں شامی حکومت کی سینکڑوں افراد کو گیس کرنے سے متعلق ذمہ داری کے بارے میں بول رہیں تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ”میں نے اپنی زندگی میں اتنی موت کبھی نہیں دیکھی ہے۔” انہوں نے وہاں کی صورتحال بیان کرتےہوئے کہا کہ ڈاکٹر بھی بچوں کو بچانے میں ناکامی پر رو رہے تھے۔
لیکن زیتونح نے محض حکومت پر زیادتیوں کی وجہ سے تنقید نہیں کی۔ اپنے خلاف ورزیوں کے ریکارڈ کے مرکز سے انہوں نے جہادی آرمی آف اسلام پر بھی تنقید کی جن کے کنٹرول میں ڈوما تھا۔ اس کے چند ہفتوں بعد جب میں نے ان سے بات کی بندوق بردار افراد ان کے دفتر میں داخل ہوئے اور ان کےعلاوہ تین دیگر افراد کو اغواء کر لیا۔ اس کے بعد سے انہیں نہیں دیکھا گیا ہے اور خیال ہےکہ انہیں مار دیا گیا ہے۔
یہاں ایک اہم نکتہ واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ نیوز رپوٹنگ سے پروپگینڈا کیسے مخلتف ہے۔
خبریں اکٹھی کرنے کے عمل سے ناآشنا افراد اکثر سمجھتے ہیں کہ پروپیگینڈا بنائی گئی کہانیوں پر مبنی ہوتا ہے جیسے کہ کویتی نومولود بچے یا معمر قذافی کی تصوراتی جنسی زیادتی کی مہم – اور ظاہر ہے پروپگینڈا اکثر قابل اعتبار جھوٹ پر مبنی ہوتا ہے تاکہ اس کا زیادہ سے زیادہ سیاسی اثر ہو۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
لیکن یہ غیرمعمولی واقعات ہیں: یہ زیادہ عام ہے کہ پروپیگینڈا درست اور انتہائی سوچ بچار کے بعد منتخب کئے گئے حقائق پر مبنی ہوتا ہے جو ایک فریق کو مثبت جبکہ دوسرے کو شیطان کے طور پر پیش کرتا ہے۔ جنگ میں چونکہ ہر فریق ظلم کرتا ہے – اور شام اور عراق میں جنگی خصوصی طور پر بہت ظالمانہ ہیں – یہ ممکن ہے کہ ان خوفناک واقعات کو انتہائی درست انداز میں پھیلایا جائے، لیکن پھر بھی توڑ مروڑ اور پروپیگنڈا کے طور پر پیش کیا جائے۔
مشرقی الیپو اور مشرقی غوتا میں شامی حکومت کی بمباری سے ہسپتالوں میں مرنے والے بچوں کی تصاویر اور ویڈیوز نے ہلا کر رکھ دیا۔ یہاں یہ سوچنے کی کوئی گنجائش نہیں کہ یہ جعلی تھیں لیکن ان دونوں مقامات پر یہ قابل ذکر تھا کسی نے بھی مسلح شامیوں یا غیرملکی صلفی جہادیوں کی کوئی تصویر دیکھی ہو۔
بی بی سی اور سی این این اور دوسرے ادارے ان علاقوں سے ان ویڈیوز کی اصلیت اپنے رپورٹر عدم موجودگی میں ثابت کرنے کی پوری کوشش کرتے ہیں۔ لیکن بات یہ نہیں ہے: یہ تمام ویڈیوز صحیع ہوسکتی ہیں لیکن یہ سچ منتخب کیا گیا سچ ہے۔ جب ظلم کی غیرجانبدارانہ تحقیقات کی بات آتی ہے تو حقوق انسانی کی تنظیموں کے صحافیوں کے مقابلے میں زیادہ بہتر ریکارڈ، وقت اور وسائل ہیں۔
نائن الیون کے بعد کی ان جنگوں کی رپورٹنگ میں کمزوری واقعی شرکاء کی غلطی نہیں ہے۔ ان سب میں، سیاسی پیش رفت اتنی ہی اہم تھیں جتنی کہ فوجی کارروائی، لیکن یہ جسے میں ”ٹویکس شاٹ اینڈ شیل” رپورٹنگ کہتا ہوں غیرواضح کر دیتی ہے۔ نیوز تنظیموں اور عوام دونوں کو غمگین جنگی ڈرامہ اپنی طرف راغب کرتا ہے، لیکن یہ بہت زیادہ گمراہ کن بھی ہوسکتی ہے۔
میں نے افغانستان میں جنگ 2001 میں رپورٹ کی جب بین القوامی میڈیا تاثر دے رہا تھا کہ طالبان کو شکست دی جاچکی ہے۔ ٹیلیویژن نے بموں اور میزائلوں کے ذریعے طالبان کے محاذ پر نشانہ بنانے اور مخلف شمالی اتحاد کے جنگجو بغیر مزاحمت کے کابل میں داخل ہونے کی تصاویر دکھائیں۔ لیکن میں نے پسپائی اختیار کرنے والے طالبان کا پیچھا کیا اور یہ واضح ہوگیا کہ انہیں شکست نہیں دی گئی ہے بلکہ ان کے جنگجوں کو حکم تھا کہ وہ اپنے گھروں کو لوٹ جائیں۔ انہیں معلوم تھا کہ اس وقت کو اقلیت میں ہیں اور انہیں مناسب وقت کا انتظار کرنا چاہیے۔یہ سب کچھ 2006 میں رونما ہوا جب انہوں نے دوبارہ جنگ شروع کی اور آج تک لڑ رہے ہیں۔ 2009 تک طالبان کی چوکیوں کے خطرے کے پیش نظر کابل کے انتہائی جنوبی سٹیشن سے آگے جانا خطرناک ہوگیا تھا۔
جنگوں کی درست رپورٹنگ کی راہ میں رکاوٹیں بہت ہیں لیکن وہ عبور کی جاسکتی ہیں۔ ان میں سے بہت سی نئی نہیں ہیں: غور کریں کہ کس طرح پہلی عالمی جنگ کی غلط رپورٹنگ کی گئی۔ لیکن ذرائع ابلاغ کے لیے اس کا مؤثر طریقے مقابلہ کرنے کے لیے تجربہ کار، اچھی طرح سے تمام پہلوں کی تحقیقات کرنے والے صحافیوں کی ضرورت ہے۔
لیکن یہ بالکل وہی ہے جو نہیں ہو رہا ہے اور رجحان مخالف سمت میں ہے۔ مجموعی طور پر، میدان میں بہت کم پیشہ ور صحافی ہیں: کچھ اشاعتیں ختم ہوئیں ہیں اور کئی صورتوں میں غیر ملکی بیوروز بند کر دیئے گئے ہیں یا عملے کی تعداد کم کر دی گئی ہیں۔
جیسے جیسے جنگ کی رپورٹنگ زیادہ پرخطر ہوتی جاتی ہے ویسے ہی اس پر لاگت بڑھ جاتی ہے اور یہ رقم ہمیشہ دستیاب نہیں ہوتی ہے۔ مشرق وسطی کے سب سے زیادہ تجربہ کار صحافیوں میں سے ایک اور اے ایف پی کے بغداد میں ریٹائرڈ بیورو چیف سامی کٹز لکھتے ہیں: ’چالیس سال کی رپورٹنگ میں نے فیلڈ میں موجود صحافیوں کی تعداد بتدریج کم ہوتے دیکھی ہے جبکہ خطرات مسلسل بڑھ رہے ہیں۔ ہم نشانہ بن گئے ہیں اور ہماری رپورٹنگ کے اخراجات بڑھ گئے ہیں۔‘
ڈرائیورز جو خطرے کی وجہ سے زئادہ پیسے مانگتے ہیں انہیں یہ رقم دی جانی چاہیے۔ لیکن اشتہارات نیوز اداروں سے انٹرنٹ پلیٹ فارمز پر منتقل ہوگئے ہیں مشرق وسطی کے میدان جنگوں سے معلومات کی ترسیل بھی کم ہوگئی ہے۔ بہی سے جو خطے سے رپورٹ کرتے تھے بےروزگار ہوچکے ہیں اور دنیا کا ایک بہت بڑا علاقہ میڈیا کے نقشے سے اوجھل ہوگیا ہے۔ جو نیوز ادارے شاہدین رپورٹنگ کے لیے ادائیگی کرتے ہیں انہیں اس سے ضروری نہیں کہ معاشی منافع ہو رہا ہوں کیونکہ انٹرنٹ اس منافع کو ہائی جیک کر لیتا ہے جو خود صحافیوں کو کام نہیں دیتے ہیں۔
غیرملکی رپورٹنگ میں کمی اس وقت تک جاری رہے گی جب تک انٹرنٹ پلیٹ فارمز خبریں اکٹھی کرنے والے اداروں کے ساتھ اپنی آمدن نہیں بانٹتے۔ کٹز موجودہ صورت حال واضح کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ”ایک اجنبی شخص نے آکر آپ کی محنت چھین لے۔ یہ جمہوری اور اخلاقی طور پر درست نہیں۔” اظہار رائے کی آذادی کا کوئی معنی نہیں جب تک ایسے نیوز ادارے جو دنیا کو ضروری معلومات پھیلاتے ہوں موجود نہ ہوں۔
زمین پر شاہدین کی عدم موجودگی جہالت کو مضبوط کرتی ہے اور یہ بدلے میں مزید تنازعات کو جنم دیتا ہے۔ جنگیں اکثر وہ لوگ شروع کرتے ہیں جن کا خیال ہوتا ہے کہ وہ اسے آسانی سے جیت لیں گے اور وہ اکثر یہ سمجھتے ہیں کیونکہ انہوں نے اپنا ہی پروپیگینڈا استعمال کیا ہوتا ہے۔ تقریبا تمام جنگوں میں جن کے بارے میں میں نے نائن الیون کے بعد – افغانستان، عراق، لیبیا، شام اور یمن – لکھا ہے جنہوں نے لڑنے کا فیصلہ کیا انہیں اس بات کا اندازہ ہی نہیں تھا کہ وہ کس مشکل میں پڑنے جا رہے ہیں۔
1991 میں میں مرحوم دوست کرسٹوفر ہچنز نے چارلٹن ہیسٹن کا ایک ٹی وی شو میں ملیہ میٹ کر دیا۔ مسٹر ہیسٹن عراق جنگ کے حامی تھے۔ ہچنز نے ہیسٹن سے دریافت کیا کہ وہ ان ممالک کے نام بتائیں جن کی سرحدیں عراق سے ملتی ہیں۔ ”کویت، بحرین، ترکی، روس، ایران،” اس معروف اداکار کا جواب تھا۔
ہچنز نے چھکا لگاتے ہوئے انہیں کہا کہ ’اگر آپ کسی ملک پر بمباری کرنے والے ہیں تو کم از کم اتنی زحمت اٹھا لیں کہ آخر وہ ہے کہاں۔‘
بیرون ملک رپورٹنگ میں کمی کا مطلب ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگ ہیسٹن کا بمباری کرنے کا جذبہ رکھیں گے جنہیں نقشے پر وہ جگہ ہی نہیں ملتی۔
© The Independent