گذشتہ ہفتے کشمیر کی خود مختار حیثیت کے خاتمے کے بعد سے چند کشمیری اخبارات میں سے ایک اخبار کے مدیر محی الدین اب بھی کام کر رہے ہیں۔ اِن دنوں میں وہ کام کا آغاز صبح انتہائی جلدی کرتے ہیں۔
وہ رات کو دو بجے جیب میں کمپیوٹر ہارڈ ڈسک لیے اپنی موٹرسائیکل پر سوار ہو کر سری نگر کی گلیوں سے گزرتے ہیں۔ ان کی موٹرسائیکل کے انجن کی آواز اینٹوں سے بنی دیواروں سے ٹکرا کر گونجتی ہے۔
وہ سڑکوں پر پڑی خاردار تاروں اور مظاہرین کی جانب سے پھینکے گئے پتھروں سے بچتے بچاتے، تاریکی میں ڈوبے گھروں کے سامنے سے گزرتے ہیں۔ ان کی نظریں بھارتی فوجیوں کی تلاش میں رہتی ہیں۔
ان کے کارکن پرنٹنگ پریس تک نہیں پہنچ سکتے، وہ ایسے قریبی علاقوں کے اندرونی حصوں میں رہتے ہیں جو مکمل طور پر کٹے ہوئے ہیں۔
اخبار چھاپنے کے لیے ڈیٹا الیکٹرانک آلات کے ذریعے پرنٹنگ پریس تک منتقل کرنا ممکن نہیں ہے، کیونکہ بھارتی حکومت نے موبائل فون سروس، انٹرنیٹ اور لینڈ لائن فون بند کر رکھے ہیں۔
اس لیے محی الدین اگلے دن کے لیے خبریں ہاتھ میں لیے پریس تک جاتے ہیں اور بھاری بھرکم مشین کو خود چلاتے ہیں۔ اس سے پہلے انہیں ایسا کبھی نہیں کرنا پڑا۔
صبح پانچ بجے وہ اخبار کے مختصر ایڈیشن کے ساتھ نمودار ہوتے ہیں جو بعض اوقات کاغذ کے صرف ایک صفحے پر مشتمل ہوتا ہے (جس کے دونوں جانب خبریں چھپی ہوتی ہیں)۔ محی الدین کہتے ہیں کہ لوگوں کا ایک ہجوم ہمیشہ ان کے انتظار میں ہوتا ہے۔ عملی طور پر ان کے ذریعے صرف اتنی صحافت دستیاب ہے۔
محی الدین نے کہا: ’لوگ اخبار دیکھنے کے لیے بے چین ہوتے ہیں۔ گذشتہ روز میں نے پانچ منٹ میں اخبار کی پانچ سو کاپیاں فروخت کیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کشمیری صحافی صورت حال کا مقابلہ کرنے کی بھرپور جدوجہد کر رہے ہیں اور سادہ سی بات ہے کہ وہ سخت ترین لاک ڈاؤن سے پیدا ہونے والی مشکلات برداشت کر رہے ہیں، جس کا اس شورش زدہ مسلم اکثریتی علاقے کو سامنا ہے۔
پیر کو لاک ڈاؤن کو ایک ہفتہ گزر چکا تھا۔ بھارتی سکیورٹی فورسز نے سڑکوں کو بند کر رکھا ہے اور نگرانی کے لیے ہیلی کاپٹرز پرواز کرتے ہیں۔ دائیں بائیں کی گلیوں سے لوگوں کو ہٹا دیا گیا جبکہ بچوں کو پارکوں میں نہیں جانے دیا گیا۔ یہ عیدالاضحیٰ کا موقع تھا جو اسلامی کیلنڈر میں مقدس ترین دنوں میں سے ایک ہے لیکن اس روز زیادہ تر بڑی مساجد کو بند کر دیا گیا تھا۔ وہ خاندان جو معمول کے حالات میں دوستوں کے ساتھ مل کر عید کی خوشیاں مناتے ہیں،گھروں تک محصور ہوکر تنہائی اور مایوسی کا شکار تھے۔
مظاہرے ہوتے رہے اور بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے نوجوانوں نے ٹولیوں کی صورت میں سکیورٹی فورسز پر پتھراؤ کرکے حملہ کیا۔
بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں حکام کی جانب سے کی گئی پریس کانفرنس میں صورت حال کی مختلف تصویر پیش کی گئی۔ کہا گیا کہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے بڑے حصے میں حالات معمول پر آ رہے ہیں۔وہ مسلسل انکار کرتے رہے کہ گذشتہ ہفتے کے مظاہروں کے دوران سکیورٹی فورسز نے گولیاں چلائیں حالانکہ برطانوی نشریاتی ادارے کی بڑے پیمانے پر دیکھی جانے والی ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ جمعے کو ہزاروں مظاہرین سری نگر کی سڑکوں پر احتجاج کر رہے ہیں اور خود کار ہتھیاروں سے گولیاں چلنے لگتی ہیں۔اس ویڈیو سے متعلق سوال پر ایک اعلیٰ بھارتی عہدیدار نے برہمی کا اظہار کیا۔
ایک بھارتی عہدیدار نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر غیرملکی ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات چیت میں کہا: ’بھارتی حکومت نے جو کہنا تھا کہہ دیا۔ میں آپ سے یہ نہیں کہہ رہا کہ آیا آپ کی خبریں صحیح ہیں یا نہیں۔‘
انسانی حقوق کے کارکن اور کئی بھارتی دانشور کہتے ہیں کہ حکومت کشمیر میں خطرناک کھیل کھیل رہی ہے۔ کئی سال سے پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر کے متنازع علاقے کو بغاوت اور جنگ کے ہاتھوں تکلیف اور مسائل کا سامنا ہے۔
گذشتہ ہفتے وزیراعظم نریندر مودی کی قیادت میں بھارتی حکومت نے اپنے زیر انتظام کشمیر کو 1940 سے حاصل محدود خودمختاری اچانک ختم کرکے اسے مزید مسائل میں دھکیل دیا ہے۔ اس فیصلے سے بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی میں مزید اضافہ ہوگیا۔شاید دہائیوں میں ہونے والا یہ سب سے زیادہ ہنگامہ خیز سیاسی واقعہ ہے۔ بطور مسلم اکثریتی ریاست کشمیر کے بھارت کے ساتھ طویل عرصے سے قائم تعلقات کو تنزلی کا شکار بنا دیا گیا۔ اب وہ ایک ملک میں نیم خود مختار ریاست ہوگی جہاں ہندو اکثریت میں ہیں۔
بھارتی حکومت کو معلوم تھا کہ کشمیر میں اس کا اقدام انتہائی غیر مقبول ثابت ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ اعلان سے کئی روز پہلے علاقے میں بھارتی فوج کی تعداد میں ہزاروں کا اضافہ کیا گیا۔
آئینی حیثیت میں تبدیلی کے اعلان سے چند گھنٹے پہلے بھارتی سکیورٹی فورسز نے انٹرنیٹ اور ٹیلی فون سروس بند کرکے 80 لاکھ کشمیریوں کو بیرونی دنیا سے کاٹ کر رکھ دیا۔ نیوز چینلز، جنہیں کشمیر کی خود مختاری کے خاتمے کی خبر نشر کرنے کی اجازت دی گئی تھی، بعد میں ان کی نشریات بھی بند کر دی گئیں۔
اس وقت 50 کے لگ بھگ مقبول کشمیری اخبارات میں سے صرف نصف شائع ہو رہے ہیں۔ انہیں باریک کاغذ پر چھاپا جاتا ہے۔ صفحات کی زیادہ سے زیادہ تعداد آٹھ ہوتی ہے۔ یہ اخبارات فوری طور پر فروخت ہو جاتے ہیں، جس کے بعد سارا دن یہ ایک سے دوسرے ہاتھ میں جاتے رہتے ہیں۔
ذرائع ابلاغ کے رپورٹروں کو خبر رساں اداروں اور سوشل میڈیا تک رسائی حاصل نہیں ہے۔ وہ انٹرنیٹ پر کسی خبر کی تصدیق نہیں کر سکتے اور نہ ہی فون کال کر سکتے ہیں۔ وہ اپنا کام پرانے طریقے سے کرتے ہیں اور نوٹ بکس اور قلم استعمال کرتے ہیں۔
وہ ہر صبح چھ یا آٹھ افراد کے گروپ کی شکل میں موٹرسائیکلوں پر سوار ہو کر خبروں کی تلاش میں سری نگر کے ارد گرد کے علاقوں میں جاتے ہیں۔ چاہے یہ خبر کسی احتجاجی مظاہرے، پیٹرول کی قلت یا کسی سیاستدان کی گرفتاری کی ہو۔ گذشتہ ہفتے سینکڑوں لوگوں کو حراست میں لیا گیا۔
بہت سے صحافی نیوز روم کے فرش پر ہی سو جاتے ہیں کیونکہ اکثر اوقات، چوکیوں کی وجہ سے گھر پہنچنا ناممکن ہوتا ہے۔ وہ خطرے کے عادی ہو چکے ہیں۔کئی برسوں میں متعدد کشمیری صحافیوں کو قتل کیا گیا اور کئی گرفتار ہوئے لیکن اطلاعات کا بلیک آؤٹ بالکل نیا ہے۔
’رائزنگ کشمیر‘ نامی اخبار کے سیاسی مدیر فیصل یاسین نے کہا: ’ہم نہیں جانتے کہ وہاں کیا ہو رہا ہے؟ ہم ایک تاریک کمرے میں رہ رہے ہیں جہاں درست اطلاعات تک رسائی ایک سوراخ کے ذریعے ہوتی ہے جو بہت چھوٹا ہے۔‘ اس اخبار کی روزانہ ایک ہزار کاپیاں شائع ہوتی ہیں۔
بھارتی حکام نے مواصلاتی پابندیوں کو معاشرتی بدنظمی سے بچنے کے لیے ضروری قرار دیا ہے لیکن انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ جو تھوڑے سے اخبار شائع ہو رہے ہیں ان کے خلاف کارروائی کی کوئی منصوبہ بندی نہیں کی گئی۔
اس کے باوجود اخبار ’دی کشمیر ٹائمز‘ جو کشمیر کے سب سے پرانے اخبارات میں سے ایک ہے، کے ایڈیٹر نے بھارتی سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ کشمیر میں لگائی گئی پابندیاں آزادی اظہار کی خلاف ورزی ہونے کی وجہ سے غیر آئینی ہیں۔
یہ واضح نہیں ہے کہ کشمیری صحافی کس طرح کام چلا رہے ہیں جبکہ اخبار کی چھپائی کے لیے کاغذ اور سیاہی کی ضرورت ہوتی ہے۔
اخبارکے ایڈیٹر محی الدین نے، جو صبح سویرے موٹر سائیکل پر سوار ہو کر پرنٹنگ پریس جاتے ہیں، کہا ہے کہ انہیں زیادہ تشویش نہیں ہے۔’کشمیر میں ہم اس کے عادی ہیں۔ میں نے اخبار کی اشاعت کے لیے ضروری سامان کا ایک ماہ کے لیے ذخیرہ کر لیا ہے۔‘
ساتھ ہی انہوں نے پیشانی پر ہلکا سا بل ڈال کر کہا: ’لیکن جتنے برے حالات اب ہیں پہلے کبھی نہیں ہوئے۔‘
بھارت کے زیر انتظام کشمیرکے رہائشی کہتے ہیں کہ لوگوں میں غصہ بڑھ رہا ہے۔ صحافی نہ چاہنے کے باجود پُرتشدد جھڑپوں میں پھنس جاتے ہیں۔
جمعے کی سہ پہر اخبار میں بطور ڈیزائنر کام کرنے والے سمیر بھٹ جب کام پر جانے لگے تو ان کی والدہ نے ان سے محتاط رہنے کے لیے کہا کیونکہ تھوڑی ہی دور سڑک پر پتھراؤ کرنے والے پولیس کے ساتھ لڑ رہے تھے۔
سمیر بھٹ جونہی گھر سے نکلے پیلٹ گن کی آوازیں آنا شروع ہو گئیں۔کشمیر میں بھارتی سیکیورٹی فورسز ہجوم پر قابو پانے کے لیے شاٹ گن استعمال کرتی ہیں۔ پیلٹ گن کی زد میں آکر ہزاروں کشمیری بینائی سے محروم ہو چکے ہیں۔
سمیر بھٹ نے اپنی آنکھیں ڈھانپنے کی کوشش کی۔ پیلٹ ان کے چہرے پر لگا جس سے وہ زمین پر گر گئے۔ اگلے روز ہسپتال سے فارغ ہوتے ہی وہ آنکھوں کے نیچے سیاہ دھبوں کے ساتھ نیوز روم میں دکھائی دیئے۔
انہوں نے کہا: ’میں نے اخبار کی ڈیزائننگ کرنی تھی۔‘
حالات کی وجہ سے کشمیری خوف زدہ اور غصے میں ہونے کے ساتھ ساتھ مخمصے کا شکار ہیں۔ وہ اپنے آپ کو باقی دنیا سے کٹا ہوا محسوس کرتے ہیں۔وہ خبریں چاہتے ہیں۔
ہوٹل مینیجر ویویک وزہر ہر صبح بے تابی سے ’گریٹر کشمیر‘ نامی اخبار کی کاپی کا انتظار کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا: ’اخبار کے یہ دو صفحے دنیا کو دیکھنے کے لیے میرے لیے کھڑکی ہیں۔‘
بہت سے کشمیر بھارتی حکمرانی میں زندگی گزارنے پر ناراض ہیں اور 1990 کی دہائی سے عسکریت پسند آزادی کے لیے لڑ رہے ہیں۔
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا ہے کہ نئے انتظامی قدم کی بدولت، جس سے کشمیر وفاقی علاقہ بن گیا ہے اور کشمیریوں کو حاصل مراعات ختم ہو گئی ہیں، کشمیر میں بیرونی سرمایہ آئے گا، نظام حکومت بہتر اور امن قائم ہوگا۔
بہت سے بھارتی شہریوں نے وزیراعظم کی اس توجیہہ کو قبول کرلیا ہے۔ وہ کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ سمجھتے ہیں اور گذشتہ ہفتے نریندر مودی کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے۔ ایک مشہور اداکار نے نریندر مودی اور طاقتور وزیر داخلہ امِت شاہ کا لارڈ کرشنا اور ارجن سے موازنہ کیا ہے۔ یہ دونوں کردار قدیم ہندو جنگی داستان مہا بھارت کا حصہ ہیں۔
لیکن دانشور اور حزب اختلاف کے کچھ رہنماؤں نے موجودہ صورت حال کے خلاف بات کی ہے۔ وہ کشمیر کی آئینی حیثیت میں تبدیلی کو جمہوریت اور بھارتی آئین کی پہلی سطور میں موجود سیکولرازم سے وابستگی کے عزم کے لیے ایک دھچکہ قرار دیتے ہیں۔
ایک سابق وزیر مانی شنکر ایئر نے اپنے تنقیدی مضمون میں لکھا: ’کشمیر کی خود مختاری کے خاتمے سے شدید قسم کی فرقہ واریت شروع ہونے سمیت سیاسی تناؤ،کبھی نہ ختم ہونے والی مارو اور بھاگ جاؤ طرز کی دہشت گردی، غیر منظم مسلح جدوجہد اور چھاپہ مار سرگرمیوں میں اضافہ ہوگا۔‘
انہوں نے مزید لکھا: ’یہ خاص طور پر بہت افسوس ناک صورت حال ہے کیونکہ کشمیریوں نے ’پاکستان کی جانب سے سائرن جیسی کال‘کی مزاحمت کرکے حب الوطنی کا ثبوت دیا ہے۔‘
مانی شنکر ایئر نے لکھا: ’اب دھوکہ کھانے کے بعد کشمیری کیا محسوس کر رہے ہوں گے؟ ملک کے اٹوٹ انگ سمجھے جانے والے کشمیر میں پہلی بار اتنی زیادہ تعداد میں سکیورٹی فورسز تعینات کرکے ’آزادی‘کشمیریوں کے گلے میں انڈیلی جا رہی ہے، جس طرح کسی ضدی بچے کو پیٹ کی بیماری کی دوا پلائی جاتی ہے۔‘
© The Independent