جی 20 کے سیاحتی ورکنگ گروپ کے سری نگر میں ہونے والے اجلاس پر برطانیہ کا کہنا ہے کہ اس اجلاس میں شرکت کے فیصلے سے ان کے کشمیر پر دیرینہ موقف میں ’کوئی تبدیلی‘ نہیں آئی جب کہ امریکہ کا کہنا ہے کہ پاکستان اور انڈیا کو براہ راست مذاکرات کے ذریعے مسائل کو حل کرنا چاہیے۔
سری نگر میں سہ روزہ جی 20 فورم کے سیاحتی ورکنگ گروپ کا اجلاس کل (پیر) سے شروع ہو رہا ہے جس میں جی 20 ممالک کے سیاحت کے شعبے سے تعلق رکھنے والے ماہرین شرکت کریں گے۔
پاکستان نے انڈیا کی جانب سے اس ورکنگ گروپ کے اجلاس کے سری نگر میں انعقاد پر اعتراض اٹھایا تھا کہ بین الاقوامی سطح پر ’متنازع مانے جانے والے علاقے میں اس گروپ کا اجلاس نہیں ہونا چاہیے‘۔
اسی طرح جب گلگت بلتستان سے پاکستان چین اقتصادی راہدری کے تحت روٹ کا اعلان کیا گیا تھا تو انڈیا نے بھی اس پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا تھا کہ اس سڑک کو نہیں بننا چاہیے کیونکہ یہ ایک ’متنازع علاقہ‘ ہے۔
اس ضمن میں چین نے یہ کہہ کر اس اجلاس میں شرکت سے انکار کر دیا تھا کہ یہ ایک ’متنازع علاقہ‘ ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو نے اسی حوالے سے مغربی ممالک سے پاکستان کے اعتراضات پر سوال کیا اور ان کا موقف جاننے کی کوشش کی ہے۔
کشمیر پر دیرینہ موقف تبدیل نہیں ہوا: برطانیہ
پاکستان میں موجود برطانوی سفارت خانے نے انڈپینڈنٹ اردو کے بھیجے گئے سوال پر کہا ہے کہ ’برطانیہ جی20 سیاحتی ورکنگ گروپ کے اجلاس میں، سکیورٹی کو مدنظر رکھتے ہوئے، شرکت کا ارادہ رکھتا ہے۔‘
برطانوی سفارت خانے کا کہنا ہے کہ ’اس فیصلے سے برطانیہ کی دیرینہ پوزیشن میں کوئی تبدیلی نہیں آئی کہ پاکستان اور انڈیا کو کشمیر کی صورت حال پر دیرپا سیاسی حل تلاش کرنا ہے جو کہ کشمیری عوام کی امنگوں کو ملحوظ خاطر رکھے۔‘
پاکستان اور انڈیا براہ راست مذاکرات سے مسائل حل کریں: امریکہ
انڈپینڈنٹ اردو نے جی 20 اجلاس پر پاکستان کے اعتراضات پر امریکہ کا موقف جاننے کے لیے امریکی محکمہ خارجہ سے رابطہ کیا تو ان کے ترجمان نے بذریعہ ای میل جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’سری نگر میں ہونے والے جی 20 ایونٹ پر سوالات براہ راست انڈین حکومت کو بھیجے جانے چاہییں۔‘
تاہم امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے یہ کہا کہ ’ہم پاکستان اور انڈیا کے درمیان حل طلب مسائل پر دونوں ممالک کے درمیان براہ راست مذاکرات کی حمایت کرتے رہیں گے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’امریکہ پاکستان اور انڈیا کے ساتھ اہم تعلقات کی قدر کرتا ہے اور ان تعلقات کی اپنی اپنی اہمیت ہے۔‘
اسی طرح یورپی یونین سے بھی سوال کیا گیا مگر ان کی جانب سے کہا گیا کہ فی الحال ان کے پاس اس سوال کا جواب دینے کے لیے کوئی ایکسپرٹ موجود نہیں ہے۔
پاکستان کو اعتراض کیوں؟
پاکستان کا کہنا ہے کہ جموں و کشمیر ایک ’متنازع علاقہ‘ ہے اور اس اجلاس کو سری نگر میں منعقد کر کے انڈیا ’جموں و کشمیر کی بین الاقوامی متنازع حیثیت‘ کو ختم کرنا چاہتا ہے۔
سیاحت پر ورکنگ گروپ کا اجلاس
سیاحت کے موضوع پر جی 20 ممالک کا انڈیا میں یہ تیسرا اجلاس ہے۔ اس سے پہلے دو اجلاس گجرات اور مغربی بینگال میں ہو چکے ہیں۔ گجرات میں ہونے والا اجلاس پاکستان سے ملحقہ علاقے رن آف کچ میں تھا۔ رن آف کچ کا علاقہ بھی پاکستان اور انڈیا کے مابین تنازع کے باعث رہا ہے۔
جی 20 کیا ہے؟
جی 20 گروپ کا قیام 1999 میں رکھا گیا تھا جس کا مقصد معاشی معاملات پر رابطہ کاری تھی۔ 2007 کے عالمی معاشی بحران کے بعد اس فورم کو 2008 میں سربراہان مملکت کا درجہ دے دیا گیا۔
جی 20 فورم کے ایجنڈے پر اب اقتصادی معاملات کے علاوہ تجارت، ترقی، صحت، زراعت، انرجی، موسمیاتی تبدیلی اور انسداد کرپشن کے موضوعات بھی شامل ہوتے ہیں۔
جی 20 میں 19 ممالک اور یورپی یونین شامل ہیں۔ ان ممالک میں آرجنٹینا، آسٹریلیا، برازیل، کینیڈا، چین، فرانس، جرمنی، انڈیا، انڈونیشیا، اٹلی، جاپان، میکسیکو، جنوبی کوریا، روس، سعودی عرب، جنوبی افریقا، ترکی، برطانیہ، اور امریکہ شامل ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
رواں سال کی صدارت انڈیا کے ذمہ ہے اور اگلے سال یہ صدارت برازیل کو سونپ دی جائے گی۔
جی 20 سربراہان کی بیٹھک
پیر کو ہونے والا اجلاس محض ورکنگ گروپ اجلاس ہے جس میں صرف سیاحت کے شعبے سے تعلق رکھنے والا وزرا اور ماہرین شامل ہوں گے۔ جی 20 کا سب سے اہم اجلاس جی 20 سمٹ ہے۔ 9 سے 10 ستمبر کو نئی دہلی میں لیڈران کی سمٹ ہو گی جس میں توقع ہے کہ رکن ممالک کے سربراہان مملکت اس میں شرکت کریں گے۔
رکن ممالک کے علاوہ بنگلہ دیش، مصر، متحدہ عرب امارات، سپین، نائجیریا، نیدرلینڈز، عمان، سنگاپور، اور موریشیس کے سربراہان کو بھی بطور مہمان مدعو کیا گیا ہے۔ ان ممالک کے علاوہ اقوام متحدہ، عالمی بینک، آئی ایم ایف، ایشیائی ترقیاتی بینک اور دیگر عالمی تنظیموں کو بھی شرکت کی دعوت دی گئی ہے۔