ججز کی آڈیو لیکس کی تحقیقات کے لیے قائم کے گئے انکوائری کمیشن کی کارروائی کے دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پیر کو کمیشن کی کارروائی کو پبلک کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے کہا کہ کمیشن ’کسی جج کے خلاف کوئی کارروائی کر رہا ہے اور نہ کرے گا۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’کمیشن صرف حقائق کے تعین کے لیے قائم کیا گیا ہے، سپریم جوڈیشل کونسل کے دائرہ اختیار میں مداخلت نہیں ہو گی۔‘
وفاقی حکومت نے 20 مئی کو ججز کی آڈیو لیکس کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ کے سینیئر ترین جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اور چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ نعیم افغان پر مشتمل تین رکنی انکوائری کمیشن تشکیل دیا تھا۔
پیر کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں اس کمیشن نے آڈیو لیکس کے معاملے پر سماعت کی، جہاں اٹارنی جنرل عثمان منصور اعوان کمیشن میں پیش ہوئے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ یہ ’کمیشن کس قانون کے تحت تشکیل دیا گیا؟‘ جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ’کمیشن انکوائری کمیشن ایکٹ 2016 کے تحت تشکیل دیا گیا۔‘
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ’جن سے متعلق انکوائری کرنی ہے ان میں دو بڑی عمر کی خواتین بھی شامل ہیں، اگر درخواست آئی تو کمیشن کارروائی کے لیے لاہور بھی جا سکتا ہے۔‘
سماعت کے دوران کمیشن کی کارروائی کو عام (پبلک) کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے انکوائری کمیشن نے کہا کہ ’کوئی حساس معاملہ سامنے آیا تو اِن کیمرا کارروائی کی درخواست کا جائزہ لیں گے۔‘
کمیشن نے اٹارنی جنرل کو کمیشن کے معاملات کے لیے آج ہی موبائل فون اور سم فراہم کرنے کی ہدایت کی جبکہ جوڈیشل کمیشن کے لیے فراہم کردہ فون نمبر پبلک کیا جائے گا۔
اس کے ساتھ ہی کمیشن نے وفاقی حکومت کو ای میل ایڈریس بھی فراہم کرنے کی ہدایت کر دی۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کمیشن بذریعہ اشتہار عوام سے بھی معلومات فراہم کرنے کا کہے گا، لیکن معلومات فراہم کرنے والے کو شناخت ظاہر کرنا لازمی ہو گا۔ نامعلوم ذرائع سے آنے والی معلومات قابل قبول نہیں ہوں گی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انکوائری کمیشن نے حکومت سے تمام آڈیو ریکارڈنگ بھی 27 مئی تک طلب کر لیں۔ اس کے علاوہ تمام آڈیوز کے ٹرانسکرپٹ بھی ذمہ دار افسر کے دستخط کے ساتھ فراہم کرنے کی ہدایت کر دی۔
انکوائری کمیشن نے مزید کہا کہ ٹرانسکرپٹ میں غلطی ہوئی تو متعلقہ افسر کے خلاف کارروائی ہو گی جبکہ جن کی آڈیوز ہیں ان کے نام، عہدے اور رابطہ نمبر بھی فراہم کیے جائیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے انکوائری کمیشن کا دائرہ اختیار بھی واضح کرتے ہوئے کہا کہ ’انکوائری کمیشن سپریم جوڈیشل کونسل نہیں ہے۔ ‘
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مزید کہا کہ ’تمام گواہوں کی نہ صرف عزت کریں گے بلکہ جواب میں عزت کی توقع بھی کرتے ہیں۔ کمیشن کو اختیار ہے کہ تعاون نہ کرنے والوں کے سمن جاری کر سکے، کمیشن صرف نوٹس جاری کرے گا اور کوشش ہوگی کہ کسی کے سمن جاری نہ ہوں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’حکومتی افسران کے پاس پہلے ہی انکار کی گنجائش نہیں ہوتی۔‘
انکوائری کمیشن کی مزید کارروائی 27 مئی تک ملتوی کردی گئی۔
کمیشن کن آڈیو لیکس کی تحقیقات کرے گا؟
وفاقی حکومت کی جانب سے جاری کیے گئے نوٹیفکیشن کے مطابق انکوائری کمیشن کی تشکیل سے آڈیو لیکس کی صداقت اور عدلیہ کی آزادی پر پڑنے والے اثرات کی تحقیقات کی جا سکیں گی۔
یہ انکوائری کمیشن 30 روز میں ججز کی مبینہ آڈیوز کے معاملے کی تحقیقات مکمل کرے گا۔
جن آڈیو لیکس کی تحقیقات کی جائیں گی، ان میں سابق وزیراعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی کی سپریم کورٹ کے جج کے ساتھ مبینہ آڈیو لیک، سابق وزیراعلیٰ پنجاب کی ایک وکیل کے ساتھ گفتگو کی آڈیو لیک، سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی سپریم کورٹ کے وکیل کے ساتھ آڈیو لیک، سپریم کورٹ کے ایک وکیل اور صحافی کی آڈیو لیک سمیت سابق وزیراعظم عمران خان اور مسرت جمشید چیمہ کے درمیان ہونے والی گفتگو کی آڈیو لیکس کی تحقیقات شامل ہیں۔
پی ٹی آئی نے انکوائری کمیشن کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا
پاکستان تحریک انصاف نے آڈیو لیک کی تحقیقات کے لیے تشکیل دیے گئے انکوائری کمیشن کو پیر کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا۔
ایڈووکیٹ بابر اعوان کی جانب توسط سے دائر کی گئی درخواست میں ہی ٹی آئی نے موقف اختیار کیا کہ چیف جسٹس پاکستان کی اجازت کے بغیر کسی جج کو کمیشن کے لیے نامزد نہیں کیا جاسکتا۔
جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کے نوٹیفکیشن کو کالعدم قرار دیتے ہوئے درخواست میں مزید کہا گیا کہ ’سپریم کورٹ کے کسی جج کے خلاف تحقیقات یا کارروائی کا فورم صرف سپریم جوڈیشل کونسل ہے۔