اکتوبر 2005 کے زلزلے میں زخمی ہونے والا ایک بچہ 18 سال بعد اپنے ورثا کی تلاش میں بالاکوٹ لوٹ آیا تو ایک شخص نے بتایا کہ سانحے میں ان کا اسی نام اور عمر کا بیٹا گم ہوا تھا، جس کے بعد دونوں کی جانب سے ڈی این اے ٹیسٹ کرنے پر اتفاق ہوا ہے۔
25 سالہ اعجاز احمد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وہ موجودہ وقت میں ایبٹ آباد کے ایک علاقے میں امام مسجد کے پاس مقیم ہیں، جو ان کی رہائش اور کھانے پینے کے اخراجات برداشت کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ امام مسجد قاری عبدالمجید ہی انہیں میانوالی سے ایبٹ آباد لانے اور پھر بالاکوٹ لے جانے میں مددگار ثابت ہوئے، کیونکہ نہ تو ان کے پاس قومی شناختی کارڈ تھا اور نہ سفری اخراجات کے لیے درکار رقم تھی۔
اعجاز احمد نے بتایا کہ 2005 میں وہ تیسری جماعت کا طالب علم تھا، اور وہ اپنے والدین کا اکلوتا بیٹا تھا۔
’زلزلے کے دن میں اپنی 15 سالہ بہن گلشن کے ساتھ ان کی سہیلی کے گھر گیا ہوا تھا۔ زلزلے میں میری ٹانگ اور بازو ٹوٹ گئے اور میری بہن بھی زخمی ہوئیں۔ بعدازاں ایک امدادی تنظیم نے ہمیں راولپنڈی میں زلزلہ زدگان کے لیے قائم ایک کیمپ منتقل کیا۔
’جب مجھے ہوش آیا تو میری بہن میرے پاس والی کرسی پر بیٹھی تھی۔ بعد میں ہم دونوں کو ایک فیملی کے حوالے کر دیا گیا، جنہوں نے کچھ عرصہ تو ہم دونوں کو رکھا لیکن پھر مجھے کسی انجان سڑک پر چھوڑ کر غائب ہو گئے۔ وہاں سے میں کسی کے ہاتھ لگ گیا، جنہوں نے مجھے قصور میں ایک بھٹہ مالک کو چار لاکھ میں فروخت کیا۔‘
انہوں نے مزید کہا، ’بھٹہ مالکان مجھ پر بےتحاشا ظلم کرتے رہے، یہاں تک کہ ایک نیک انسان نے مجھے وہاں سے بھاگنے میں مدد دی۔ میں مارا مارا پھرتا ہوا ایک بس اڈے پر پہنچا، جہاں مجھے برتن صاف کرنے کا کام ملا، وہاں بھی مجھ پر مظالم ہوتے رہے۔ یہاں تک کہ اتفاقاً میانوالی کے ایک صوبیدار کے پاس پہنچا، جنہوں نے مجھے اپنے خاندان والوں سے ملوانے کا وعدہ کیا۔ انہی نے امام مسجد قاری عبدالمجید سے بات کی اور ایبٹ آباد پہنچایا۔‘
اعجاز احمد کے مطابق، 18 سال کے تشدد اور تکلیف دہ واقعات نے ان سے بچپن کی بہت سی یادیں بھلا دی ہیں، انہیں اب یہ بھی یاد نہیں کہ ان کے سکول کا نام کیا تھا اور وہ کس رنگ کا یونیفارم پہنتے تھے۔
انہوں نے کہا کہ ان کے والد کا نام محمد انور اور والدہ کا نام نسیم اختر ہے، اور یہ کہ ان کی تین بہنیں گلشن، ارم اور کرن کے نام سے تھیں۔
دوسری جانب، قاری مجید نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ میانوالی کے صوبیدار ان کے دوست ہیں، جنہوں نے ایک ہفتہ قبل فون کر کے تمام ماجرا سنایا اور اعجاز کو بالاکوٹ تک پہنچانے کی درخواست کی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے کہا، ’میں نے بالاکوٹ میں میڈیا اور سرکاری محکمے کے دوستوں کو بتایا، جنہوں نے تھانہ بالاکوٹ کے ایس ایچ او طارق خان سے بھی بات کروا دی۔ بالاکوٹ پہنچے تو مکین علاقہ جمع ہوئے۔ انہی میں سے ایک شخص نے کہا کہ ان کا نام بھی محمد انور ہے اور ان کا بیٹا بھی اکلوتا اور تیسری جماعت کا طالب علم تھا جو زلزلے میں لاپتہ ہوا۔ تاہم انہوں نے کہا کہ نہ تو ان کی تین بیٹیاں تھیں اور نہ ان کی اہلیہ کا نام نسیم اختر ہے۔‘
قاری مجید نے بتایا کہ اس مسئلے کا حل پیش کرتے ہوئے ایس ایچ او نے ڈی این اے ٹیسٹ کرنے کا مشورہ دیا ہے، جو کہ جلد ہی عمل میں لایا جائے گا۔
عبدالمجید نے مزید بتایا کہ جب تک اعجاز اپنے خاندان والوں سے نہیں مل پاتا وہ ان کے پاس مسجد کی جانب سے دیے گئے مکان کے مہمان خانے میں قیام پذیر ہو گا۔
مقامی صحافی خورشید زمان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ بالاکوٹ زلزلے کے دوران اعجاز احمد کی طرح کئی بچے لاپتہ ہو گئے تھے، جو آج تک اپنے آبائی علاقے نہیں لوٹ سکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگرچہ اعجاز 18 سال بعد اپنے علاقے لوٹ آنے پر رو رہا تھا اور اپنے اوپر ہونے والے مظالم اور دکھ بھری زندگی کا قصہ سنا رہا تھا، تاہم علاقہ مکینوں میں ابہام پایا جا رہا ہے کہ وہ اپنے علاقے، سکول اور خاندان سے متعلق بعض ضروری معلومات فراہم نہیں کر پا رہے ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو نے متعلقہ تھانے کے ایس ایچ او سے بھی رابطہ کرنے کی کوشش کی مگر اس تحریر کے شائع ہونے تک ان کی طرف سے جواب موصول نہیں ہوا۔