حکومت طوفان میں بھی چاولوں کی دیگیں دے رہی ہے: پناہ گزین

سمندری طوفان ’بپر جوئے‘ کے پیش نظر سندھ کی ساحلی پٹی سے ضلعی انتظامیہ نے عوام کو احتیاطی تدابیر اختیار کرنے اور نقل مکانی کرنے کو کہا تھا، جنہیں بسوں، گاڑیوں اور ٹرکوں کی مدد سے ریلیف کیمپوں میں منتقل کیا۔

صوبہ سندھ کے ضلع ٹھٹہ کے شہر بگھان میں ضلعی انتظامیہ نے ایک سکول میں ان افراد کے لیے کیمپس لگائے ہیں جنہیں سمندری طوفان بپرجوئے کے پیش نظر ساحلی علاقے کیٹی بندر سے نقل مکانی کرنی پڑی ہے۔

بگھان میں ایسے چھ مزید کیمپس بھی لگائے گئے ہیں، جن کے اندر تقریباً 800 سے زیادہ افراد ٹھہرے ہوئے ہیں۔

محکمہ موسمیات کے مطابق بپرجوئے سے اب کراچی کو کوئی خطرہ نہیں مگر کراچی کے علاوہ سندھ کی بقیہ ساحلی پٹی جس میں ٹھٹہ، سجاول اور بدین شامل ہیں، اب بھی سمندری طوفان کے خطرے سے دوچار ہیں۔

ان علاقوں کے عوام کو ضلعی انتظامیہ کی جانب سے احتیاطی تدابیر اختیار کرنے اور نقل مکانی کرنے کا کہا گیا تھا اور مقامی انتظامیہ نے لوگوں کو بسوں، گاڑیوں اور ٹرکوں کی مدد سے کیمپوں میں منتقل کیا۔

بگھان شہر کیٹی بندر سے 40 کلومیٹر دور واقع ہے۔ کیمپ میں موجود کیٹی بندر سے تعلق رکھنے والی خاتوں کھتان نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہماری زندگی یہ ہے کہ ہم سمندر کی مچھلی مار کر پیٹ کا گزارا کرتے ہیں اور کوئی روزگار نہیں ہے۔ ابھی یہ بتا رہے ہیں کہ طوفان آ رہا ہے، جو سب کچھ تباہ کر دے گا۔ جب حکومت کو اطلاع ملی تو انتظامیہ نے ہمارے علاقے خالی کروا دیے اور سب کو ایک جگہ اکھٹا کر کے یہاں منتقل کر دیا۔‘

کھتان نے مزید بتایا کہ ’میرے پاس دیسی مرغیاں تھیں جو بہت مہنگی ہوتی ہیں اور انہیں کتے کھا گئے۔ حکومت ہمیں اس طوفان میں بھی چاولوں کی دیگیں فراہم کر رہی ہے، باقی تمام امداد سے ہمیں کچھ بھی نہیں ملتا۔‘

اسی کیمپ میں موجود کیٹی بندر سے تعلق رکھنے والے اللہ ڈنو کا کہنا تھا کہ ’دو روز قبل ہمیں بتایا گیا تھا آپ اپنے گھر خالی کر دیں طوفان آنے والا ہے، طوفان سے نقصان ہوگا، ابھی بھی طوفان کا خطرہ چل رہا ہے، طوفان آتا ہے تو ہمیں ڈر ہوتا ہے کیوں کہ ہم کنارے پر ہیں، ایسے طوفان دو تین آ بھی چکے ہیں، اس سے پہلے بھی کیٹی بندر میں ایسے واقعات دو سال بعد، تین سال بعد پیش آتے رہتے ہیں۔‘

اللہ ڈنو کا کہنا تھا کہ ’کے کیٹی بندر ہمارا وطن ہے، ہم پیدا وہاں ہوئے ہیں، پلے بڑے وہاں ہیں، مریں گے تو بھی کیٹی بندر میں، ہم کیٹی بندر نہیں چھوڑ سکتے، ہمارے بڑے چھوٹے وہاں ہی ختم ہوگئے، ہم خود اب بڑھاپے میں آ چکے ہیں، ہماری نسل ہے پتا نہیں وہ کیا کرے کیا نہیں کرے، تو ہم اپنا وطن اس لیے نہیں چھوڑتے۔‘

بدھ کی شام سندھ کے وزیر اعلیٰ ہاؤس سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق سندھ کے ساحلی تین اضلاع سے مجموعی طور پر سڑسٹھ ہزار 367 افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کر دیا گیا ہے۔

بیان کے مطابق تینوں اضلاع میں مجوعی طور پر 39 ریلیف کیمپس قائم کردیے گئے ہیں۔ تحصیل کیٹی بندر کی 13 ہزار آبادی میں سے 10 ہزار افراد کو انتظامیہ نے منتقل کیا ہے جبکہ تین ہزار رضاکارانہ طور پر منتقل  ہوئے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

وزیر اعلی ہاؤس کے بیان کے مطابق صرف تحصیل کیٹی بندر کے چھ ریلیف کیمپوں میں  پانچ ہزار افراد کی  گنجائش ہے اور 1500 خاندان وہاں منتقل ہوچکے ہیں۔

وزیراعلیٰ سندھ نے اپنے بیان میں دیگر ساحلی علاقوں کے حوالے سے کہا ہے کے تحصیل گھوڑاباڑی میں تین ریلیف کیمپوں میں 1000 افراد کی گنجائش ہے اور 445 خاندان وہاں منتقل ہوچکے ہیں۔

تحصیل شہید فاضل راہو کے 10 ریلیف کیمپوں میں 11 افراد ہزار کی گنجائش اور وہاں تین ہزار خاندان منتقل ہوچکے ہیں۔

تحصیل بدین بدین کے چھ ریلیف کیمپوں میں ساڑھے 16 ہزار افراد کی گنجائش ہے اور وہاں  ساڑھے سولہ ہزار افراد منتقل ہوچکے۔

تحصیل شاہ بندر میں 10 ریلیف کیمپوں میں ساڑھے نو ہزار افراد کی گنجائش موجود ہے اور وہاں 13 ہزار خاندان منتقل ہوئے۔

تحصیل جاتی کے چار ریلیف کیمپوں میں ڈھائی ہزار افراد کی گنجائش موجود ہے اور 840 افراد منتقل کر دیے گئے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ماحولیات