سوڈان میں کئی مہینوں سے متحارب فوجی دھڑوں کے درمیان جاری کشیدگی کے بعد اتوار کو تازہ جنگ بندی عمل میں آ گئی ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق سوڈانی فوج، جس کی کمان جنرل عبدالفتح البرہان کر رہے ہیں 15 اپریل سے اپنے سابق نائب محمد حمدان دقلو کی سربراہی میں نیم فوجی فورس ریپڈ سپورٹ فورسز (آر ایس ایف) سے برسرپیکار ہے۔ دونوں فوجی جرنیل اقتدار کے لیے جنگ میں مصروف ہیں۔
اس سے پہلے لڑائی کے دوران کئی جنگ بندیوں پر اتفاق کیا گیا لیکن ان کی خلاف ورزی کی گئی۔ ان جنگ بندیوں میں مئی کے آخر میں ہونے والی جنگ بندی بھی شامل ہے، جس کی خلاف ورزی پر امریکہ نے دونوں جرنیلوں پر پابندیاں عائد کر دیں۔
ہفتے کو رات گئے سعودی عرب کی وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں کہا: ’سعودی عرب اور امریکہ نے سوڈان کی مسلح افواج (ایس اے ایف) اور ریپڈ سپورٹ فورسز (آر ایس ایف) کے نمائندوں کے درمیان 72 گھنٹے کے لیے جنگ بندی کے معاہدے کا اعلان کیا ہے۔‘
تازہ جنگ بندی پر اتوار کو صبح چھ بجے سے عملدرآمد شروع ہوا ہے۔ مصالحت کروانے والوں کا کہنا ہے کہ فریقین نے ایک دوسرے پر حملوں سے باز رہنے، نقل و حرکت کی آزادی اور متاثرین تک امداد پہنچانے کی اجازت پر اتفاق کیا۔
عینی شاہدین کے مطابق جنگ بندی شروع ہونے کے ایک گھنٹے کے دوران صورت حال ’پرسکون‘ دکھائی دی۔
دارالحکومت خرطوم کے جڑواں شہر اومدرمان کے رہائشی نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’ہم مکمل جنگ بندی چاہتے ہیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا: ’معمولات زندگی معمول پر لانے کے لیے جنگ بندی ہمارے لیے کافی نہیں۔ وہ جنگ روک سکتے ہیں لیکن آر ایس ایف ان گھروں کو نہیں چھوڑے گی جن پر اس نے (قبضہ کر رکھا ہے) اور سکیورٹی ناکوں سے گزرنا بھی اتنا ہی مشکل ہے۔‘
دونوں فریقوں نے ہفتے کی رات الگ الگ بیانات میں جنگ بندی کا احترام کرنے کا عہد کیا۔
فوج نے کہا کہ ’ہماری طرف سے سیز فائر کے احترام کے عزم کے باوجود ہم جنگ بندی کے دوران باغیوں کی جانب سے کی جانے والی کسی بھی خلاف ورزی کا فیصلہ کن جواب دیں گے۔‘
دوسری جانب آر ایس ایف نے ’شہریوں کو ضروری انسانی امداد کی فراہمی میں سہولت فراہم کرنے کے بنیادی مقصد کی خاطر جنگ کے جامع خاتمے کے عزم پر قائم رہنے کا اعلان کیا۔‘
عینی شاہدین نے بتایا کہ تازہ ترین جنگ بندی سے کچھ دن قبل دارالحکومت میں شدید فضائی حملے ہوئے۔
ہفتے کو جنگی طیاروں نے خرطوم کے رہائشی علاقوں کو نشانہ بنایا۔ سٹیزن سپورٹ کمیٹی کے مطابق ’پانچ بچوں سمیت 17 شہریوں‘ کی جان گئی، تاہم اے ایف پی آزادانہ طور پر ان اعداد و شمار کی تصدیق کرنے سے قاصر ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
قبل ازیں شہر کے جنوبی علاقے یرموک کے مکینوں نے ارد گرد کے علاقے میں فضائی حملوں کی اطلاع دی تھی جہاں ہتھیاروں کا کارخانہ اور اسلحہ ڈپو کمپلیکس واقع ہے، جس پر آر ایس ایف نے جون کے شروع میں ’مکمل کنٹرول‘ کا دعویٰ کیا تھا۔
آرمڈ کنفلیکٹ لوکیشن اینڈ ایونٹ ڈیٹا پروجیکٹ نے کہا کہ جب سے لڑائی شروع ہوئی سوڈان بھر میں اموات کی تعداد 2000 سے تجاوز کر گئی ہے۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ ریکارڈ ڈھائی کروڑ افراد، جو سوڈان کی نصف سے زیادہ آبادی سے زیادہ بنتے ہیں، کو امداد کی ضرورت ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ کے مطابق خرطوم سے سینکڑوں کلومیٹر دور مغرب میں مغربی دارفر ریاست کے دارالحکومت ال جینینا میں 1100 افراد جان سے جا چکے ہیں۔
چاڈ میں طبی ماہرین نے ہفتے کو کہا کہ وہ سوڈان میں دارفر کے علاقے سے فرار ہونے والے سینکڑوں زخمیوں کی دیکھ بھال کی وجہ سے کام کے دباؤ کا شکار ہیں۔ دارفر کا علاقہ بڑھتی ہوئی عالمی تشویش کا مرکز بن گیا ہے۔
جان سے جانے والوں میں مغربی دارفر کے گورنر خمیس عبداللہ ابابکر بھی شامل ہیں، جنہیں بدھ کو ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والے اس انٹرویو کے بعد قتل کیا گیا جس میں انہوں نے نیم فوجی فورس کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا، تاہم آر ایس ایف نے ان کے قتل کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔
ایدرے، چاڈ میں ڈاکٹرز ودآؤٹ بارڈرز (ایم ایس ایف) کے پراجیکٹ رابطہ کار ڈاکٹر سیبو کا کہنا تھا کہ ’ہمارے پاس آپریشن تھیٹر میں لوگ زیادہ تعداد میں ہیں۔ ہمیں فوری طور پر مزید بستروں اور عملے کی ضرورت ہے۔‘
چاڈ کے مطابق تین دن میں 600 سے زیادہ مریض ہسپتال آئے جن میں سے زیادہ تر گولی لگنے سے زخمی ہوئے۔ ان میں سے نصف سے زیادہ جمعے کو پہنچے۔
ایم ایس ایف کے ایمرجنسی پروگرام کی سربراہ کلیر نکولے نے بتایا کہ ’اس ہفتے بڑھتے ہوئے اور بڑے پیمانے پر حملوں کی اطلاعات ملیں۔‘
انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن کے مطابق کم از کم 149000 افراد دارفر سے چاڈ میں نقل مکانی کر چکے ہیں۔
آئی او ایم کا کہنا تھا کہ وہ ان تقریباً 22 لاکھ لوگوں میں شامل ہیں، جو ملک بھر میں لڑائی کی وجہ سے نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔ لڑائی نے 528000 سے زیادہ لوگوں کو پڑوسی ممالک میں پناہ لینے پر مجبور کیا۔
جمعرات کو امریکی محکمہ خارجہ نے دارفر میں ہونے والے مظالم کا بنیادی طور پر آر ایس ایف بنیادی کو ذمہ دار قرار دیا اور کہا کہ تشدد اور حقوق کی مبینہ خلاف ورزیاں خطے میں ماضی میں ہونے والی نسل کُشی کی ’منحوس یاد دہانی‘ ہیں۔