پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد میں پولیس نے اتوار کے روز تصدیق کی کہ ساتھی طالب علم کو قتل کرنے کے الزام میں چار طلبا کو گرفتار کر لیا گیا جنہوں نے اعتراف جرم بھی کرلیا ہے۔
پولیس کے مطابق ان چار طلبا نے مبینہ طور پر اپنے ایک ساتھی طالب علم کو ’امتحان میں نقل نہ کروانے پر خنجر کے وار کر کے مار دیا تھا۔‘
گیارہویں جماعت کے طالب علم 17 سالہ علی رشید مغل کی لاش جمعے کے روز ایک سرکاری سکول کے احاطے سے ملی تھی جہاں وہ گیارہویں جماعت کا امتحان دینے جاتے تھے۔
پولیس نے ہتھکڑیاں لگے چار نوجوان لڑکوں کی تصاویر بھی جاری کی ہیں جن کی عمریں 16 سے 19 سال کے درمیان ہیں۔
پولیس کے مطابق گرفتار نوجوانوں میں سے تین مقتول علی رشید کے ہم جماعت ہی ہیں جبکہ چوتھے طالب علم بھی ان کے ساتھی ہیں اور وہ اسی نجی سکول میں بارہوں جماعت کے طالب علم ہیں جہاں یہ سب پڑھتے تھے۔
تھانہ سٹی مظفرآباد کے ایس ایچ او جاوید گوہر نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا: ’چاروں ملزمان کو ان شواہد کی بنیاد پر گرفتار کیا گیا جو اس اندھے قتل کے بعد ابتدائی تحقیقات کے نتیجے میں سامنے آئے اور بعد ازاں پولیس کو ملنے والی ایک مختصر سی سی ٹی وی فوٹیج سے ان شواہد کی تصدیق ہوئی۔‘
جاوید گوہر کے بقول گرفتار چاروں ملزمان نے دوران تفتیش پولیس کے دیے گئےابتدائی بیان میں اپنے جرم کا اعتراف کرلیا ہے اور قتل کی وجہ مقتول کی جانب سے دوران امتحان انہیں نقل نہ کرنے دینا اور ان کی شکایت امتحانی عملے سے کرنا بتائی ہے۔
جاوید گوہر کہتے ہیں کہ گرفتار ملزمان میں سے تین مقتول کے ہم جماعت ہیں اور وہ امتحانی ہال میں ان کے ساتھ بیٹھتے تھے۔
وہ کہتے ہیں ’مقتول چونکہ لائق بچہ تھا اور امتحان کی تیاری کر کے آتا تھا۔ یہ لڑکے اس کا پرچہ دیکھ کر اپنے پرچے پر نقل کرتے تھے۔ مقتول علی رشید نے ان کو کئی بار منع کیا مگر وہ بار بار اسے تنگ کرتے تھے۔ جس پر مقتول نے امتحانی عملی سے شکایت کر کے اپنی نشست تبدیلی کروا لی۔‘
ملزمان کے بیان کے مطابق ان کا ارادہ قتل کا نہیں تھا بلکہ وہ اسے ڈرا دھمکا کر ’معاملہ ختم کرنا چاہتے تھے۔‘ مگر پولیس کے مطابق عین چھٹی کے وقت ان کے چوتھے ساتھی کے خنجر لے کر امتحانی مرکز پر پہنچنے سے یہ واضح ہے کہ انہوں نے اس واردات کی ’باقاعدہ منصوبہ بندی‘ کر رکھی تھی۔
مقتول علی رشید کی والدہ نے اپنے بیان میں پولیس کو بتایا کہ مقتول نے ان لڑکوں کے ساتھ جھگڑے کا ذکر گھر پر بھی کیا اور بتایا کہ یہ لڑکے اسے ’سبق سکھانے‘ کی دھمکیاں دے رہے ہیں مگر انہوں نے اس بات کو سنجیدہ نہیں لیا۔
اپنے بیان میں وہ کہتی ہیں کہ، ’اس نے مجھے اپنے موبائل میں ان لڑکوں کی تصاویر بھی دکھائیں اور بتایا کہ یہ مجھے دھمکیاں دے رہے ہیں۔ مگر میں سمجھی کہ اس عمر میں بچوں کے درمیان تو تکرار عام سی بات ہے۔ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ وہ اس حد تک چلے جائیں گے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مقتول علی رشید کی لاش جمعے کے روز مظفرآباد کے پائلٹ ہائی سکول کے احاطے سے ملی۔ یہ گیارہویں جماعت کے امتحانات کا آخری دن تھا۔
پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق مقتول علی کی پیٹھ پر بائیں جانب خنجر کا وار کیا گیا جو سیدھا ان کے دل کے اندر اتر گیا اور موقع پر ہی اس کی موت واقع ہو گئی۔
جاوید گوہر کے بقول: ’پہلے سے طے شدہ منصوبے کے مطابق وہ انتظار میں تھے۔ جونہی مقتول امتحانی ہال سے نکلے، وہ انہیں سکول کے عقبی حصے میں لے گئے اور خنجر کا وار کر کے بھاگ گئے۔‘
جاوید گوہر کہتے ہیں کہ مقتول کی والدہ کے بیان کے بعد پولیس نے امتحانی سینٹر سے مقتول کے ساتھ امتحان میں شامل طلبا کا ریکارڈ حاصل کر کے تعلیمی دستاویزات پر موجود ان کی تصاویر والدہ کو دکھائیں تو انہوں نے تین ایسے لڑکوں کو شناخت کر لیا جنہوں نے مقتول کو دھمکیاں دی تھیں۔
اس کے بعد پولیس نے ان کی تلاش شروع کر دی مگر یہ واردات کے بعد علیحدہ علیحدہ جگہوں پر چھپ گئے تھے۔
مبینہ ملزمان میں سے تین کا تعلق ایک ہی گاؤں سے ہے اور وہ آپس میں رشتہ دار ہیں جبکہ چوتھے کا تعلق ایک علیحدہ گاؤں سے ہے۔
پولیس نے ان کے گھروں پر چھاپے مارے تو ان میں سے کوئی بھی اپنے گھروں میں موجود نہیں تھا بلکہ ارد گرد کے گھروں میں روپوش تھے اور وہیں سے گرفتار ہوئے۔
اس سوال پر کہ کیا پولیس نے امتحانی عملے سے پوچھ گچھ کی کہ انہوں نے مقتول طالب علم کی شکایت پر کوئی کارروائی کیوں نہیں کی، جاوید گوہر نے کہا کہ ابھی تفتیش کے کئی مراحل باقی ہیں۔
’اگر ضروری ہوا تو امتحانی عملے کو بھی شامل تفتیش کیا جائے گا اور جو بھی ملوث ہوا یا غفلت کا مرتکب پایا گیا اس کے خلاف قانونی کارروائی ہو گی۔‘
مقتول علی رشید کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ مظفرآباد کے نواحی قصبے گڑھی دوپٹہ کے رہائشی تھے اور ان کے والد بجلی کے محکمے میں لائن مین ہیں۔ علی رشید کافی عرصے تک بیمار رہنے کے بعد صحت یاب ہوئے تھے او انہیں پڑھنے لکھنے کا کافی شوق تھا اور وہ اپنی جماعت کے نمایاں طالب علم تھے۔
اس سوال پر کہ کیا ان طلبا کی مقتول کے ساتھ امتحان سے قبل بھی کوئی دشمنی تھی یا کبھی لڑائی ہوئی، پولیس نے بتایا کہ ابھی ایسے کوئی شواہد نہیں ملے تاہم اس معاملے کی ہر پہلو سے جانچ کی جائے گی۔