پاکستان کے مشرقی ہمسائے بھارت کے ساتھ تعلقات جب بھی کشیدہ ہوئے ملک کے مغربی خطے میں آباد بعض قبائلی اچانک متحرک ہوتے دکھائی دیتے رہے ہیں۔ کچھ غیرمعروف قبائلی تنظیموں کے رہنما پشاور میں اخباری کانفرنسیں منعقد کیا کرتے اور بھارت کو لشکر کشی کی دھمکیاں دیا کرتے۔ اس مرتبہ اس قسم کی اکا دکا پریس کانفرنس یا مظاہرے تو ہوئے ہیں لیکن باضابطہ کوئی سلسلہ دکھائی نہیں دے رہا ہے۔
وزیرستان کے علاقوں وانا، میر علی اور رزمک میں مقامی رکن صوبائی اسمبلی کے زیر انتظام مظاہرے ریکارڈ ہوئے۔ خیبر سے بھی ایسی ہی اطلاعات ہیں۔ بلکہ اب تک تشدد کے خاتمے کے لیے سابق قبائلی علاقوں میں سرگرم پشتون تحفظ موومنٹ کے سربراہ منظور پشتین کہہ چکے ہیں کہ انہوں نے انڈیا سے لڑنے کا کوٹہ پورا کر لیا ہے اب دیگر پاکستانی قومیں بھی اس میں اپنا حصہ ڈالیں۔
تجزیہ نگاروں کے مطابق ماضی میں کشمیر پر قبائلیوں کی طرف سے کی جانے والی لشکر کشی میں سرکاری مدد شامل ہوتی تھی لیکن اس مرتبہ اب تک کوئی ایسا رجحان دیکھنے کو نہیں مل رہا ہے۔
عسکری تاریخ دان میجر (ر) آغا ہمایوں امین نے اپنی کتاب ’دی 48-1947 کشمیر وار: دی وار آف لاسٹ آپرچونٹیز‘ میں لکھا کہ میجر جنرل اکبر خان نے جن کا تعلق چارسدہ سے تھا لشکر کشی کو منظم کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ کتاب میں انہیں ’غیرریاستی عناصر کو پراکسی کے طور پر استعمال کی فلاسفی کے معمار ‘ کے طور پر لکھا گیا ہے۔ پاکستان نے یہی حکمت عملی 1965، 1988، 2003 اور 1999 کی کارگل جنگ کے دوران بھی اپنائی رکھی تھی۔ تو کیا اس مرتبہ قبائلیوں کی خاموشی کے پیچھے ریاستی پالیسی میں کوئی تبدیلی ہے؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
برطانوی راج سے آزادی حاصل کرنے کے بعد پاکستان کے حصے میں تقریباً ڈیڑھ لاکھ فوج اور کچھ بوسیدہ ہتھیار آئے۔ نوزائیدہ پاکستان ابھی سنبھلنے بھی نہیں پایا تھا کہ اسے کشمیر کی پہلی جنگ کا سامنا کرنا پڑا۔
ایسے میں پاکستان نے ہمیشہ مسلح رہنے والے پشتونوں سے مدد کی درخواست کی کیونکہ وہ اکثر جنگوں کا حصہ رہے تھے۔ پشتونوں نے درخواست قبول کی اور لشکروں کی صورت میں کشمیر روانہ ہوئے۔
تاریخی حوالہ
تین جون 1947 کی تقسیم کے مطابق برصغیر میں 565 نوابی ریاستوں کو حکم ملا تھا کہ پاکستان یا ہندوستان کے ساتھ مسلم یا ہندو اکثریت کی بنیاد پر شامل ہو جائیں اور اگر چاہیں تو اپنی جداگانہ حیثیت برقرار رکھیں۔ اس کے بعد جموں اور کشمیر کے مسلمانوں نے پاکستان کے ساتھ شامل ہونے کی خواہش ظاہر کی لیکن ان ریاستوں کے ہندو حکمران مہاراجہ ہری سنگھ ایک خود مختار ریاست کے متمنی تھے۔
ایسے میں کشمیری مسلمانوں کی زور پکڑتی تحریک دیکھ کر ہری سنگھ اس قدر خوفزدہ ہوئے کہ پاکستان پر ہندوستان کو فوقیت دیتے ہوئے اکتوبر1947 میں الحاق کا فیصلہ سنا دیا۔
اس صورتحال کے پیش نظر پرجوش قبائل اور دیگر پشتونوں نے مظفر آباد پر ہلہ بول دیا اور مزید آگے بڑھنے لگے۔
پشتونوں کے لشکر کون تیار کراتا تھا؟
15 اگست 1947 کو پونچھ میں چند کشمیری مسلمانوں نے پاکستان کا جھنڈا لگا کر اس کے ساتھ الحاق کے نعرے لگائے، جس پر پولیس اور ان لوگوں کے درمیان لڑائی کے نتیجے میں کچھ ہلاکتیں ہوئیں۔ اس واقعے کے بعد کشمیری مسلمانوں کی تحریک مزید زور پکڑ گئی اور بلاآخر 12 ستمبر کو وزیر اعظم لیاقت علی خان نے عسکری اور سویلین حکام کے ساتھ اجلاس میں جموں اور کشمیر کے باغیوں کی مدد کرنے اور پشتونوں کو وہاں بھجوانے کی ہدایات دیں۔
اس زمانے میں صوبہ سرحد (موجودہ خیبر پختونخوا) کے وزیراعلیٰ عبدالقیوم خان خود کشمیری تھے۔ انہوں نے اس معاملے میں ذاتی دلچسپی لی اور مستعدی دکھاتے ہوئے پشتونوں کے مقامی عمائدین کو لشکر تیار کرانے کا پیغام بھجوایا۔
اس وقت کے ڈائریکٹر ملٹری آپریشنز محمد شیر خان تھے، جن کا تعلق ضلع صوابی سے تھا۔ انہوں نےچارسدہ اتمانزو کے محمد اکبر خان کو کشمیر میں لڑنے والے سپاہیوں کی قیادت سونپ دی۔ اکبر خان بعد میں میجر جنرل کے عہدے پر فائز ہوئے تھے۔
پشتونوں کے لشکروں میں سابق فاٹا کے وزیر، محسود، منگل، آفریدی، افغانستان سے سلیمان خیل، پویندہ، زازیان اور مہمند سے حاجی ترنگزی کے بیٹوں کی سربراہی میں لشکر تیار ہوئے تھے۔
دوسری جانب نواب آف دیر نے ایک بہت بڑا لشکر تیار کیا۔ ان کےعلاوہ خٹک قبیلے کے لشکر اور صوابی، سوات اور مردان کے یوسفزئی قبیلوں کے الگ لشکر تیار ہوئے۔ ان میں دوسری جنگ عظیم کے تجربہ کار سابقہ فوجی بھی شامل تھے۔
مقامی قائدین کم و بیش ایک ہزار جنگجوؤں کا لشکر تیار کرا کر راولپنڈی بھیجتے اور وہاں ان لوگوں کو دستوں کی شکل میں منظم کر کے آگے بھیج دیا جاتا تھا۔
یہ لوگ اسلحہ اور کارتوس اپنے ہمراہ لائے تھے جب کہ ٹرانسپورٹ، کچھ اضافی ہتھیار اور کارتوس فوج کی جانب سے بھی مہیا کیے گئے۔
ان کے کھانے پینے اور رہنے کا بندوبست ان کا اپنا ہوتا تھا۔ اسی حالت میں یہ پشتون ایک سال لڑتے رہے، یہاں تک کہ محمد اکبر خان کو کمانڈر انچیف کی جانب سے اطلاع ملی کہ جنگ روک دی جائے۔
اس پر نہ صرف اکبر خان بلکہ بہت سے قبائلی سخت ناراض ہوئے۔ ان کا خیال تھا کہ سری نگر ان سے صرف چند میل کے فاصلے پر تھا لہذا انہیں جنگ جاری رکھنے دی جائے کیونکہ ان کے خیال میں وہ پورے جموں اور کشمیر پر قبضہ کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔
مہاراجہ ہری سنگھ نے انڈیا سے مدد کی درخواست کی، جس کے جواب میں ہندوستان نے الحاق کا مطالبہ کیا تاکہ انہیں کشمیر میں داخل ہونے کا قانونی اجازت نامہ مل سکے۔
ہندوستانی فوج کے پہلے فیلڈ مارشل سیم مانک شا، جو بعد ازاں ڈائریکٹر ملٹری آپریشنز تعینات ہوئے، جموں اور کشمیر کی نوابی ریاست کے وقتوں کی یاداشت تازہ کرتے ہوئے بتاتے ہیں انھیں بیوروکریٹ وی پی مینن کے ہمراہ کشمیر بھیجا گیا تاکہ وہ حالات کا جائزہ لیں اور مینن مہاراجہ سے الحاق کے مسودے پر دستخط وصول کریں۔
مانک شا بتاتے ہیں جب وہ سری نگر مہاراجہ کے محل پہنچے تو عجیب صورتحال دیکھی۔’محل کے ایک کمرے میں بہت سارے قیمتی جواہرات کی پیکنگ ہو رہی تھی اور مہاراجہ ایک کمرے سے دوسرے میں چہل قدمی کرتے جا رہے تھے اور کہہ رہے تھے ٹھیک ہے اگر انڈیا مدد نہیں کرتا تو میں خود اپنے سپاہیوں کے ساتھ لڑوں گا۔‘
’بالآخر انھوں نے الحاق کے مسودے پر دستخط کیے اور ہم واپس چلے گئے۔ اس دوران میں نے قبائل کے متعلق معلومات کیں تو پتہ چلا کہ وہ سری نگر سے صرف آٹھ، نو کلومیٹر کے فاصلے پر تھے۔‘
مہاراجہ کے خلاف لڑنے والے کون تھے؟
مہاراجہ ہری سنگھ کے خلاف بنیادی طور پر تین گروہ لڑ رہے تھے۔ ایک پشتون لشکر، دوسرا شدت پسند اور تیسرا کشمیریوں پر مشتمل تھا۔
کشمیر جنگ میں صوابی یوسفزئی قبیلے کے محمد زمان خان بھی پشتونوں کے ایک لشکر کی قیادت کر رہے تھے۔ مرحوم کے بھائی محمد ایاز خان نے انڈپینڈنٹ اردو کے ساتھ کشمیر جنگ کے حوالے سے اپنی یاداشتیں بانٹتے ہوئے بتایا کہ کس طرح پشتون قدم بہ قدم مظفر آباد سے آگے بڑھتے ہوئے بارا مولا تک پہنچ گئے تھے۔
’بھائی صاحب کے مطابق پشتونوں نے اونچے اونچے پہاڑوں اور ڈھلوانوں میں جنگ لڑی۔ نہ موسم کی پرواہ کی اور نہ کسی تنگ دستی کی۔ کئی لوگ شہید اور زخمی ہوئے لیکن کچھ بھی ان کےعزائم پست نہ کر سکا۔ ایسے میں بھارت کو ڈر لگا کہ اگر یہ سری نگر پہنچ گئے تو ان کا پٹھان کوٹ اور گرداس پور کے راستے سری نگر پہنچنا ناممکن ہو جائے گا، لہذا ہندوستان کی سیاسی اور عسکری قیادت حرکت میں آ گئی اور مہاراجہ سے الحاق کے مسودے پر فوری طور پر دستخط وصول کرنے کے آرڈر جاری کر دیے گئے۔‘
کارگل کے شہید کیپٹن کرنل شیر خان کے دادا خان غالب نے بھی کشمیر جنگ میں حصہ لیا تھا۔ شیر خان کے بھائی انور شیر اپنے دادا کی باتوں کو یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں ’مجھے زیادہ یاد نہیں لیکن دادا اکثر لاشوں اور سری نگر تک پہنچنے کا کچھ قصہ سنایا کرتے تھے۔ کشمیر جنگ کے دوران وہ صوابی کے محمد شیر خان (ڈائریکٹر ملٹری آپریشنز) سے ملے اور ان سے اتنے متاثر ہوئے کہ اپنے نواسے کا نام کرنل شیر خان رکھا۔‘
انور شیر نے بتایا ان کے دادا کافی عرصہ گھر سے دور رہے۔ اس دوران دادی کو اکیلے ہی گھر اور بچوں کو سنبھالنا پڑا لیکن اس کے باوجود دادی نے دیگر پشتون خواتین کی طرح کھٹن حالات میں اپنے شوہر کا ساتھ دیا۔
اکثر پشتون خواتین ان دنوں یہ پشتو ٹپہ گایا کرتی تھیں
’سورے سورے پہ گولو راشہ، د بے ننگئی آواز دے را مہ شہ مئینہ‘۔
ترجمہ: گولیوں سے چھلنی سینہ لے کر آ جانا، مگر خیال رہے کوئی مجھے تمہاری بزدلی کا طعنہ نہ دے۔‘
صلہ بہادری کیا ملا!
اگر تاریخ کے صفحات الٹے جائیں تو پتہ چلتا ہے پشتونوں نے بلاغرض صرف اور صرف پاکستانی ہونے کی حیثیت سے کشمیر کی جنگ لڑی۔
وہ نامعلوم ہیرو کے طور پر تاریخ کا حصہ تو بن گئے لیکن ان کے ہونے والے نقصان کا نہ تو ازالہ کیا گیا اور نہ ہی کبھی ان کی جرات کا ذکر ہوا۔ بلکہ آج کی نئی نسل کا کہنا ہے کہ قربانی کے وقت تو انہیں یاد کیا جاتا ہے لیکن بلا ٹلنے کے بعد ان کا کوئی ذکر خیر نہیں ہوتا۔
دوسری طرف فوجی قیادت نے میجر جنرل اکبر خان اور میجر جنرل شیر خان کی کشمیر میں خدمات کو کچھ خاص اہمیت نہ دی۔ میجر جنرل اکبر خان جیسے سپہ سالار کو جنرل تو بنایا گیا لیکن جنرل ایوب خان نے ان کو ’پنڈی سازش‘ کیس میں کورٹ مارشل کرکے فوج سے نکال دیا۔
دوسری طرف میجر جنرل افتخار اور میجر جنرل شیر خان جیسے نامور جنرل اچانک ہوائی جہاز کے حادثے میں فوت ہوگئے۔ اس حادثے کو آج تک شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔