افغان پناہ گزینوں کا پیسہ اقوام متحدہ خرچ کرتا ہے: چیف کمشنر

چیف کمشنر برائے پناہ گزین عباس خان کا کہنا ہے کہ افغان پناہ گزینوں کے لیے ملنے والا پیسہ اقوام متحدہ کے اداروں کے ذریعے خرچ کیا جاتا ہے، یہ پاکستانی خزانے میں نہیں جاتا۔

سات مئی 2022، کی اس تصویر میں اسلام آباد میں مظاہرہ کرتے افغان پناہ گزین(اے ایف پی)

چیف کمشنر برائے پناہ گزین عباس خان کا کہنا ہے کہ پاکستان کو پناہ گزینوں کی مد میں بیرونی ممالک سے پیسہ ملتا ہے لیکن یہ پیسہ اقوام متحدہ کے اداروں کے ذریعے خرچ ہوتا ہے، نہ کہ یہ پاکستانی خزانے میں جاتا ہے۔

پاکستان میں مقیم افغان پناہ گزینوں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’تقریباً تین ہفتے قبل افغان کمشنریٹ کی منسٹری ڈیفینس، فارن افیئرز، و داخلہ وزارت کے ساتھ پی او آر کارڈ (پروف آف رجسٹریشن) میں دو سال کی توسیع کے معاملے پر بات چیت ہوئی ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’پاکستان نے محدود وسائل کے باوجود چالیس سال افغان پناہ گزینوں کو پناہ دی اور اس کوشش میں اپنا بھی نقصان کیا۔‘

چیف کمشنر عباس خان نے بتایا کہ ’2008 میں جی آر بلوچ نے ایک سروے کیا تھا۔ جس میں پاکستان کا افغان پناہ گزینوں پر دو ارب اضافی خرچے کا انکشاف کیا گیا تھا۔ اب ایک سائنٹفک سٹڈی دوبارہ کرنے کا ہمارا پلان ہے کہ ہمارا کتنا خرچہ ہو رہا ہے۔‘

20 جون کو دنیا بھر میں ورلڈ ریفیوجی ڈے یعنی عالمی یوم پناہ گزین منایا جاتا ہے۔ یہ دن ان افراد کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے منایا جاتا ہے جنہیں جبری طور پر اپنے آبائی ملک سے نکال دیا گیا ہو یا وہ جان بچانے کے لیے وہاں سے نقل مکانی کر چکے ہوں۔

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین (یو این ایچ سی آر) کے اعداد وشمار کے مطابق 2022 کے آخر تک دنیا بھر میں دس کروڑ سے زیادہ افراد کو زبردستی بے گھر کیا گیا ہے۔

قانونی طور پر پناہ لینے والے پناہ گزینوں کی میزبانی کرنے والے ممالک میں پاکستان کا نمبر پانچواں ہے۔

22 کروڑ سے زائد نفوس پر مشتمل ملک پاکستان میں قانونی طور پر بسنے والے افغان پناہ گزینوں کی تعداد یو این ایچ سی آر کے مطابق 17 لاکھ ہے جبکہ غیر قانونی طور پر پناہ لینے والوں کی تعداد تقریباً آٹھ لاکھ ہے۔

 تیسری کٹیگری افغان سیٹیزن کارڈ ہولڈر ’اے سی سی‘ کی ہے جو 2005 میں اپنی مرضی سے افغانستان واپس گئے تھے اور دوبارہ پاکستان داخل ہوئے۔

 اگرچہ یہ لوگ اپنی ابتدائی حیثیت دوبارہ نہ حاصل کر سکے لیکن ان کو اے سی سی کا درجہ دیا گیا۔ ان کی تعداد بھی لاکھوں میں بتائی جاتی ہے۔

ملکی وغیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق صرف ڈھائی لاکھ افغان باشندے سال 2021 میں پاکستان پہنچے۔ یہ وہ وقت تھا، جب افغانستان میں اقتدار طالبان کے ہاتھ میں آیا۔

بےسروسامانی کی حالت میں قانونی وغیر قانونی طریقوں سے پاکستان پہنچنے والے ان افغان باشندوں میں ہر طبقے اور مکتبہ فکرکے لوگ شامل تھے جیسے کہ آرٹسٹ، صحافی، ملازمت پیشہ خواتین، طالب علم اور شاندار مستقبل کے خواہاں نوجوان۔

تاہم ماضی کے برعکس اس مرتبہ افغانستان سے کوچ کرنے والے پاکستان کو دوسرے ملک کا درجہ دیتے ہوئے اپنا مستقبل کسی تیسرے مغربی ملک میں دیکھ رہے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ پاکستان نے 2021 کے بعد سے آنے والے پناہ گزینوں کے لیے ’مہاجرین‘ کا لفظ متروک کر کے ان کے لیے ’عبوری‘ اور ’نئے آنے والے‘ جیسے ناموں سے درجہ بندی کی ہے۔

دوسری جانب صورت حال یہ ہے کہ پاکستان میں ’پروف آف رجسٹریشن‘ (پی او آر) کارڈ کے علاوہ دیگر حیثیت کے حامل پناہ گزینوں کو کئی مسائل کا سامنا ہے۔ جیسے کہ نہ تو وہ گھر اور گاڑی خرید سکتے ہیں نہ بینک میں کھاتہ کھول سکتے ہیں اور نہ ہی آزادی کے ساتھ نقل وحرکت کر سکتے ہیں۔

 افغان پناہ گزین صحافیوں اور فنکاروں کے لیے امداد کی درخواست

آٹھ ماہ قبل پاکستان میں پناہ لینے والی افغان خاتون صحافی حمیدہ آریان پشاور میں تین مرلہ ملکان کے اوپر پورشن کا 30 ہزار روپے کرایہ دیتی ہیں۔ گھر کے اخراجات حمیدہ اور ان کا بھائی ایک مقامی اخبار میں ملازمت کرکے پورا کر رہے ہیں۔

حمیدہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’افغانستان چھوڑنے کا سبب خواتین صحافیوں کو طالبان حکومت کی جانب سے لاحق خطرات تھا۔‘

’اپنی فیملی کے ہمراہ اس سوچ کے تحت پاکستان آئی تھی کہ یہاں انفرادی مسائل کم ہوں گے۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ گھر کا کرایہ زیادہ ہے۔ دستاویزات نہیں مل رہے۔ ہر وقت ایک خوف رہتا ہے۔‘

حمیدہ کے مطابق پاکستان داخلے کے بعد یو این ایچ سی آر دفتر سے رابطہ کرنے پر انہیں انٹرویو کے لیے ٹوکن تو مل گیا تاہم آٹھ ماہ گزرنے کے بعد بھی کسی نے رابطہ نہیں کیا۔

’ہم نے پاکستان میں ایک تیسرے ملک کی حیثیت سے عارضی پناہ لی ہے۔ ہم جرمنی جانا چاہتے ہیں، کیونکہ وہاں پناہ گزینوں کے لیے قوانین موجود ہیں اور پناہ گزینوں کے لیے کئی ایک مفید پروگرام ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’صحافیوں کو دنیا بھر میں اپنے کام کی وجہ سے اعزازی حیثیت اور اہمیت دی جاتی ہے لہذا انہوں نے پاکستان کی حکومت سے بھی افغان صحافیوں کو ریلیف دینے کی درخواست کی۔‘

حال ہی میں پاکستان سے فرانس منتقل ہونے والے افغان صحافی نجیب نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’نہ صرف پاکستان میں قیام کے دوران بلکہ فرانس جاتے وقت ہوائی اڈے پر انہیں قدم قدم پر مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

’مجھے غیر ضروری طور پر روکا گیا۔ یہاں تک کہ ہراسانی کا شکار کیا گیا۔ مجھے لگ رہا تھا جیسے میں کبھی نہیں نکل پاؤں گا۔ پاکستان میں قیام کے دوران عام پاکستانیوں کی نسبت مالک مکان دوگنا کرایہ وصول کرتے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ ہمیں ملازمت کرنے اور نقل و حرکت کرنے میں مشکلات درپیش تھیں۔ ‘

پناہ گزینوں کے عالمی دن کے موقع پر صحافیوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی پاکستانی تنظیم ’فریڈم نیٹ ورک‘ نے اسی صورت حال کے پیش نظر حکومت پاکستان اور میڈیا کے اداروں سے افغان صحافیوں کی مدد کی اپیل کی ہے۔

ادارے کے سربراہ اقبال خٹک نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے میڈیا مالکان اور حکومتی اداروں کے نام پیغام میں کہا کہ ’صحافی جب ایک ملک سے دوسرے ملک جاتا ہے تو وہ اپنی صحافت جاری رکھنا چاہتے ہیں۔ پاکستان آنے والے افغان صحافیوں کو اس وقت کئی مسائل درپیش ہیں۔ انہیں اپنے ضروریات زندگی پورے کرنے اور بطور صحافی کام جاری رکھنے کے مواقع پیدا کرنے میں ان کی مدد کریں۔‘

’مسئلہ یہ ہے کہ نہ ہی ان صحافیوں کو پناہ گزینوں کی حیثیت دی جا رہی ہے اور نہ ہی وہ حکومت، یو این ایچ سی آر اور دوسرے بین الاقوامی اداروں کی مدد کے علاوہ کوئی ذریعہ رکھتے ہیں۔‘

اقبال خٹک نے کہا کہ ’انسانی ہمدردی کی خاطر اوراپنی میزبانی کی روایت برقرار رکھتے ہوئے، جس کی بدولت پاکستان کی دنیا بھر میں ہمیشہ سے عزت افزائی ہوئی ہے۔ افغان صحافیوں کے ویزوں کا دوبارہ اجرا کیا جائے اور یو این ایچ سی آر کو احکامات جاری کیے جائیں کہ وہ ان کی رجسٹریشن کروائیں تاکہ وہ عالمی اداروں کا تعاون حاصل کرنے کے اہل ہو جائیں۔‘

ادھر حقوق انسانی کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جنوبی ایشیا کے لیے ڈپٹی ریجنل ڈائریکٹر دنوشیکا ڈسانائیکے نے کہا کہ ’یہ انتہائی تشویش ناک ہے کہ پاکستان میں افغان پناہ گزینوں کی صورت حال کو بین الاقوامی توجہ نہیں مل رہی ہے۔ وطن واپسی یا پاکستان میں مستقل طور پر رہنے سے قاصر ہونے کی وجہ سے وہ ایک ناممکن حالات میں پھنس چکے ہیں جس سے بچنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ ان کی مبہم قانونی حیثیت اور سیاسی پناہ یا تیسرے ملک کی منتقلی کے مشکل عمل نے انہیں مزید غیرمحفوظ بنا دیا ہے۔‘

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے نو ایسے افغانوں سے انٹرویو کیے ہیں جن میں سے چھ کو گذشتہ تین ماہ کے دوران پاکستان میں حراست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ یہ پچھلے سال 2022 میں پاکستان میں افغان پناہ گزینوں کے ساتھ کیے گئے متعدد دیگر انٹرویوز کے علاوہ ہیں جس دوران میڈیا کی مسلسل نگرانی رکھی گئی اور سرکاری دستاویزات کا جائزہ بھی لیا گیا۔ افغان پناہ گزینوں نے پاکستانی پولیس اور حکام کی جانب سے ہراساں کیے جانے پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔

'پاکستان میں ہماری زندگی بالکل بھی زندگی نہیں ہے'

حسین (فرضی نام)، افغانستان کی وزارت داخلہ (ایم او آئی) کے ایک سابق ملازم، 2022 میں اپنے خاندان کے ساتھ طالبان سے بال بال بچ کر پاکستان پہنچے۔ انہیں گذشتہ دنوں گرفتاریوں کے سلسلے کے دوران حراست میں لیا گیا اور پاکستان حکام کے ہاتھوں ہراساں کیا گیا۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کے ایک بیان کے مطابق فروری 2023 میں پولیس نے اسلام آباد میں حسین کے گھر کے ساتھ ساتھ ان کے پڑوس میں کئی دیگر افغان خاندانوں کے مکانات پر چھاپہ مارا اور توڑ پھوڑ کی۔ ان کا کہنا ہے کہ انہیں ہتھکڑیاں لگا کر رات 10 بجے کے قریب تھانے لایا گیا جہاں ان سے امیگریشن سٹیٹس، روزگار اور سماجی حلقوں کے بارے میں پوچھ گچھ کی گئی۔ تقریبا 20 دیگر افغانوں کو بھی حراست میں لے کر سٹیشن لایا گیا۔

ان کا کہنا تھا: 'انہوں نے ہم سے ہمارے پاسپورٹ اور پرس چھین لیے اور پھر کئی بار ہماری تلاشی لی۔ انہوں نے ہم میں سے ان لوگوں کو بھی حراست میں لے لیا جن کے پاس درست ویزا تھا اور وہ ملک میں قانونی طور پر تھے۔‘

اگلی صبح حسین کو تیس ہزار روپے ’جرمانہ‘ ادا کرنے پر رہا کیا گیا تاہم پولیس نے انہیں نہ تو کوئی رسید اور نہ ان کی حراست کی وجہ بتانے سے متعلق کوئی دستاویز دی۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے پانچ دیگر حراست میں لیے گئے افغانوں کا انٹرویو کیا جنہوں نے اسی قسم کے مختلف واقعات بیان کیے جس دوران انہیں زبردستی پانچ سے تیس ہزار روپے ادا کرنے پر مجبور کیا گیا، اور کسی کو بھی کوئی تحریری کاغذ دیا گیا جس سے ان کی حراست یا ادائیگی ثابت ہوسکے۔ حسین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ان کا جینا کوئی جینا نہیں۔‘

یہ واقعات ان افغانوں کی بہت تھوڑی تعداد کی نمائندگی کرتے ہیں جو پاکستان میں پناہ کی خاطر آئے ہیں، جہاں ان کا حتمی مقصد نئی زندگی شروع کرنا یا کسی تیسرے ملک براستہ پاکستان منتقل ہونا ہے۔ تیسرے ملک کی منتقلی کے عمل میں تاخیر اور ویزے کی میعاد ختم ہونے کی وجہ سے انہیں بڑھتی ہوئی دھمکیوں اور ہراسانی کا سامنا کرنا پڑا ہے، کیونکہ یہ صورت حال انہیں قانونی طور پر کمزور کرتی ہے۔

امریکہ، کینیڈا، برطانیہ اور جرمنی سمیت وہ ممالک جنہوں نے طالبان کے ظلم و ستم کا سامنا کرنے والے افغان افراد کو خصوصی منتقلی کے منصوبوں کی پیش کش کی تھی، فی الحال افغانستان کے اندر ویزے جاری نہیں کر رہے ہیں، جہاں ان کی سفارتی موجودگی نہیں ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان میں ان کے اجرا کا عمل پیچیدہ اور طویل رہتا ہے جس میں کئی ماہ کا انتظار ہوسکتا ہے۔

مثال کے طور پر اکتوبر 2022 میں جرمنی نے ظلم و ستم کے خطرے سے دوچار افغانوں کے لیے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر داخلے کا پروگرام شروع کیا جس کا مقصد ہر ماہ ایک ہزار افغانوں کو جرمنی لانا ہے۔ میڈیا ذرائع کے مطابق جون 2023 تک اس پروگرام کے تحت کسی کو جرمنی نہیں لے جایا گیا تھا اور جن افغانوں کو جرمن حکام نے اپنے ویزوں کی پروسیسنگ کے لیے پاکستان کا سفر کرنے کے لیے کہا تھا وہ اب بھی وہاں موجود ہیں۔

پناہ کے طلب گار افغانوں کو اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں کے لیے ہائی کمیشن (یو این ایچ سی آر) سے بھی رجسٹریشن کا ثبوت حاصل کرنے میں طویل عرصہ انتظار کرنا پڑتا ہے۔ حکومتِ پاکستان کی جانب سے ویزوں کی تجدید میں طویل تاخیر، پولیس کے لیے انہیں ہراساں کرنے اور دیگر حکام کے لیے ان سے پیسے وصول کرنا آسان بنا رہی ہے – یہ عمل سندھ، کراچی، پشاور، چمن اور کوئٹہ سمیت پاکستان بھر سے رپورٹ ہوا ہے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل سے بات کرتے ہوئے افغانوں نے کہا ہے کہ ان کی خطرناک قانونی حیثیت کی وجہ سے ان کے آذادی اظہار رائے پر قابل ذکر حد تک قدغنیں لگائی جا رہی ہیں، کیونکہ وہ عوام سطح پر اپنے مسائل کے بارے میں شکایت نہیں کرسکتے۔ یہ صورت حال خصوصا خواتین اور لڑکیوں کے لیے زیادہ مشکل ہے جنہیں افغانستان اور پاکستان دونوں ممالک میں امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔

’ہمیں رشوت دینا پڑے گی‘

اپنی قانونی حیثیت ثابت کرنے کی دستاویزات کے بغیر افغان باضابطہ ملازمت حاصل کرنے سے قاصر ہیں اور اکثر کم اجرت والی ملازمتوں میں کام کرتے ہیں جہاں وہ استحصال کا شکار ہوسکتے ہیں۔

حسین نے پی او آر کارڈ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، ’اگر آپ کے پاس کارڈ نہیں ہے، تو آپ قانونی طریقے سے مکان حاصل کرنے کی لیز حاصل نہیں کرسکتے ہیں، لہذا اس کی بجائے ہمیں ایک بروکر کو رشوت دینی پڑتی ہے۔‘

حالیہ دنوں میں آنے والوں میں سے بہت کو اپنے ویزوں کی تجدید کے لیے افغانستان / پاکستان کی سرحد کا سفر کرنا پڑتا ہے اور سرکاری طور پر پاکستان چھوڑنا پڑتا ہے، جو مہنگا اور خطرناک دونوں ثابت ہوسکتا ہے۔ انٹرویو دینے والے دو افراد کا کہنا تھا کہ سرحدی محافظوں نے انہیں سرحد پار کرنے کی اجازت دینے سے قبل رشوت مانگی حالانکہ ان کے پاس درست ویزا تھا۔

پاکستانی حکام اکثر افغانوں کو حراست میں لینے کے لیے چاہے ان کے پاس درست دستاویزات ہوں فارنرز ایکٹ، 1946 کا سہارا لیتے ہیں۔ پاکستان میں حقوقِ انسانی کی تنظیموں سے رابطہ کرنے کے باوجود حال ہی میں حراست میں لیے گئے افغان پناہ گزینوں کا کہنا ہے کہ انہیں پولیس حراست کے دوران کوئی قانونی تحفظ فراہم نہیں کیا گیا۔ اس کے علاوہ افغان اکثر اپنے بچوں کے لیے صحت کی دیکھ بھال اور تعلیم تک رسائی حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کرتے ہیں کیونکہ بعض سکول ان کی قانونی حیثیت کے بارے میں ابہام کی وجہ سے انہیں داخلہ دینے سے انکار کرتے ہیں۔ صنفی امتیاز کی وجہ سے خواتین اور لڑکیوں کے لیے پاکستان کے سکولوں میں داخلہ لینا خاص طور پر مشکل ہے۔

 بیوروکریسی کی رکاوٹیں

اقوام متحدہ کا ادارہ برائے پناہ گزینہ، یو این ایچ سی آر، پناہ کے خواہش مند افغانوں کو رجسٹر کرنے، انہیں رجسٹریشن کا ثبوت (پی او آر) کارڈ فراہم کرنے اور اس بات کا تعین کرنے کا ذمہ دار ہے کہ آیا وہ پناہ گزین ہیں یا نہیں۔

اقوام متحدہ کے ادارے نے اس رجسٹریشن کے عمل کے لیے سوسائٹی فار ہیومن رائٹس اینڈ پریزنرز ایڈ (شارپ) سے معاہدہ کیا، تاہم انٹرویو کرنے والوں نے ایمنسٹی انٹرنیشنل کو بتایا کہ انٹرویو کے لیے انہیں شارپ کے دفتر میں انٹرویو کے لیے طویل انتظار کا سامنا کرنا پڑا اور کالز کے جوابات میں سست روی دیکھی جس کی وجہ سے حال ہی میں آنے والے افغانوں کے لیے فوری طور پر قانونی دستاویزات حاصل کرنا تقریبا ناممکن ہو گیا ہے۔

افغان فنکار بھی پاکستانی حکومت سے مدد کے طلب گار

پاکستان میں پناہ لینے والے صحافی ہی نہیں بلکہ فنکار طبقہ بھی ان ہی مسائل اور مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔ کئی ایک آرٹسٹ جو افغانستان میں ایک پر آسائش زندگی گزار رہے تھے، پاکستان میں ایک پنکھا خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔

ان فنکاروں کے مطابق انہیں ہر وقت پولیس کی ہراسانی اور برے رویے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

خیبر پختونخوا میں فنکاروں کے حقوق کی نمائندگی کرنے والے ادارے ’ہنری ٹولنہ‘ کے صدر راشد احمد خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’جن فنکاروں کے پاس ’پی او آر‘ کارڈ کے ٹوکن تھے انہیں بھی گرفتار کرکے ملک بدر کیا گیا۔‘

ان کے مطابق ’حال ہی میں کراچی میں پانچ فنکار جن کے پاس پی او آر کے ٹوکن بھی تھے انہیں بھی گرفتار کر کے تین ماہ جیل میں رکھنے کے بعد واپس افغانستان بھجوا دیا گیا۔ انسانی حقوق کے ادارے کہاں ہیں؟‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پاکستان میں انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ ’چونکہ پاکستان نے پناہ گزین کنوینشن 1951 اور اس کے 1967 کے پروٹوکول کو نہیں اپنایا جو ریاستوں کو غیرقانونی طور پر کسی ملک میں داخل ہونے والے لوگوں کو سزا دینے سے روکتا ہے اس لیے غیر قانونی طور پر پاکستان میں مقیم افغانوں کے خلاف ڈومیسٹک فارن ایکٹ کے ذریعے انہیں سزا دینے سمیت ملک بدر کرنے کا اختیار استعمال کیا جاتا ہے۔‘

یو این ایچ سی آر اور افغان کمشنریٹ کا موقف

پاکستان میں ادارہ برائے پناہ گزین (یو این ایچ سی آر) کے ترجمان قیصر خان آفریدی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’یہ درست ہے کہ ان کے ادارے کا تعاون صرف قانونی حیثیت کے حامل پناہ گزینوں کے ساتھ ہی ہے کیونکہ نیشنل ایکشن پلان کے بعد حکومت پاکستان کی جانب سے پالیسی میں قدرے سختی برتی گئی۔‘

’ہمارا کام صرف حکومتوں کو مشورہ دینا ہے۔ حکومت کی اپنی مرضی اور پالیسی ہوتی ہے، جس کے ساتھ ہمیں چلنا ہوتا ہے۔‘

قیصر خان آفریدی نے کہا کہ 30 جون کو ایکسپائر ہونے والے پی او آر کارڈز میں توسیع کا قوی امکان ہے، البتہ یہ توسیع کتنے وقت کے لیے ہو گی اس حوالے سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔

پانچ جنوری 2023 کو پاکستان میں امریکی سفارت خانے نے خبر شائع کی تھی کہ سال 2022 کے بعد سے امریکہ انسانی فلاح کی مد میں پاکستان میں پناہ لینے والے افغانیوں اور ان کی ہوسٹ کمیونیٹیز پر تقریباً 62 ارب روپے خرچ کر چکا ہے۔

پاکستان میں 2005 سے افغان پناہ گزینوں کی مدد کرنے والے بین الاقوامی فلاحی ادارے ’ریلیف انٹرنیشنل‘ کے کنٹری ڈائریکٹر اشفاق انور نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’خوراک، ملازمت، صحت اور تعلیم تمام پناہ گزینوں کا حق ہے اوراس مد میں ہم نے 70 ہزار افغان پناہ گزینوں کی تعلیم، خوراک، روزگار اور ہنگامی صورتحال جیسے کوویڈ اور سیلاب کے مختلف منصوبوں میں مدد کی ہے۔‘

’اگر انسانی حقوق کے تناظر سے دیکھا جائے تو افغان پناہ گزینوں کو اس وقت کئی ایک خطرات اور مشکلات درپیش ہیں۔ یہ لوگ کئی ایک ذہنی اور جسمانی مسائل کا شکار ہیں۔ لاکھوں بچے سکولوں سے باہر ہیں۔ خواتین کو ہائی جین کٹ دستیاب نہیں۔ ملازمتوں اور نقل مکانی کے مسائل ہیں۔ صاف پینے کا پانی دستیاب نہیں ہے۔‘

2014 میں پشاور آرمی پبلک سکول (اے پی ایس) پر دہشت گرد حملے کے بعد پناہ گزینوں کے حوالے سے پالیسی میں سختی دیکھنے میں آئی ہے۔

’ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اقوام متحدہ کے ہائی کمیشن برائے پناہ گزینہ (یو این ایچ سی آر) سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ پاکستان میں پناہ گزین کا درجہ حاصل کرنے کے خواہش مند افغانوں کی درخواستوں کے اندراج اور جائزے میں تیزی لائے، حکومت پاکستان پر زور دے کہ وہ افغان پناہ گزینوں کو من مانے طریقے سے گرفتار کرنا اور ہراساں کرنا بند کرے اور تیسرے ممالک پر زور دے کہ وہ ان افغانوں کو بیرون ملک منتقل کرنے کے لیے ویزوں کے اجرا میں تیزی لائے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان