پاکستانی دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ پاکستان اور رشین فیڈریشن کے درمیان دو طرفہ سیاسی مشاورت کا پانچواں دور آج (بروز منگل) اسلام آباد میں ہو گا۔
دفتر خارجہ نے اپنے بیان میں بتایا ہے کہ روسی وفد 20 جون کو دو روزہ دورے پر اسلام آباد پہنچے گا۔
وفد کی قیادت روس کے نائب وزیر خارجہ آندرے رودینکو کریں گے۔ سیکریٹری خارجہ ڈاکٹر اسد مجید خان پاکستانی وفد کی قیادت کریں گے۔
دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ پاکستانی اور روسی وفود کے درمیان بات چیت میں دو طرفہ تعلقات کے جائزے سمیت تعاون کے فروغ کے لیے باہمی دلچسپی کے شعبوں کی نشاندہی کی جائے گی اور اہم علاقائی اور بین الاقوامی صورت حال پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔
دفتر خارجہ کے مطابق: ’پاکستان اور روس کے درمیان باہمی احترام، اعتماد اور افہام و تفہیم پر مبنی دوستانہ تعلقات قائم ہیں۔ دونوں ممالک اس سال سفارتی تعلقات کے قیام کی 75 ویں سالگرہ منا رہے ہیں۔‘
پاکستان اور روس جو سرد جنگ اور بالخصوص افغانستان پر سابق سوویت یونین حملے کے دوران مخالف کیمپوں میں تھے اب قریبی تعلقات استوار کر چکے ہیں۔
حال ہی میں روسی تیل کی پہلی کھیپ کراچی بندرگاہ پر پہنچی ہے۔ 45 ہزار میٹرک ٹن خام تیل لانے والا بحری جہاز اپریل میں دونوں ممالک کے درمیان طے پانے والے معاہدے کا حصہ ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پاکستان کے وفاقی وزیر پیٹرولیم نے گذشتہ دنوں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ 50 ہزار میٹرک ٹن روسی تیل کی ایک اور کھیپ بھی جلد پاکستان پہنچ جائے گی۔
تیل کی پہلی کھیپ آزمائشی منصوبے کا حصہ ہے جس سے اندازہ لگایا جائے گا کہ آیا اس معاہدے سے پاکستان کو فائدہ ہو سکتا ہے جو خلیجی ممالک سے تیل درآمد کر رہا ہے۔
پاکستان نے حال ہی میں روس سے افغانستان کے راستے ایل پی جی بھی درآمد کی ہے۔
یہ عمل پاکستان کی جانب سے اپنے ذرائع کو متنوع بنانے اور ادائیگیوں کے توازن کے بحران کے پیش نظر امریکی ڈالر پر انحصار کم کرنے کی کوششوں کا حصہ ہے۔
پاکستان نے روس کو چینی کرنسی میں ادائیگی کی جسے امریکی کرنسی پر انحصار کم کرنے کی کوشش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
تاہم روس کے ساتھ قریبی تعلقات کا مطلب یہ نہیں ہے کہ پاکستان امریکہ یا مغرب کو چھوڑ دے گا۔
وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے اسلام آباد میں ایک حالیہ خطاب میں اس بات پر زور دیا کہ پاکستان نے ہمیشہ بلاکس کی سیاست کی مخالفت کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اسلام آباد تمام بڑی طاقتوں کے ساتھ باہمی فائدہ مند تعلقات کا خواہاں ہے۔
مبصرین سمجھتے ہیں کہ موجودہ بین الاقوامی جغرافیائی سیاست کو دیکھتے ہوئے پاکستان کے لیے اس نازک توازن کو برقرار رکھنا آسان نہیں ہو گا۔