ایک مصنف کہتے ہیں کہ ’مزاح لکھنا سنجیدہ کام ہے، جسے صرف مزاح نگاروں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔‘
یہ مصنف مزاح نگاری میں ماہر سمجھے جاتے ہیں، یوں ان کا ’سنجیدہ لکھاریوں‘ کو مزاح لکھنے کی دعوت دینا دریا دلی کا ثبوت ہے۔
اگلے جملے میں لکھتے ہیں کہ ’آج کل تو مزاحیہ تحریروں کے برعکس سنجیدہ تحریریں پڑھ کر زیادہ ہنسی آتی ہے۔‘
یہ بات پڑھنے سے قبل میں ایک ’سنجیدہ لکھاری‘ کی تازہ دریافت پڑھ چکا تھا، یوں اس جملے کی معنویت پوری طرح سمجھ آئی۔
حال ہی میں اپنی سنجیدہ تحریروں کی وجہ سے مقبول ایک سینیئر صحافی نے ’واش روم کی ٹونٹی سے جی پی ایس کو دھوکہ‘ دینے کا جو فارمولہ بے نقاب کیا ہے، اسے دیکھ کر عین ممکن ہے کہ کوئی سائنس دان ان مزاح نگار کے جملے کی تائید کرتے ہوئے کہہ دے کہ نئی ایجادات کو صرف سائنس دانوں کے رحم و کرم پر نہ چھوڑا جائے تاکہ تخلیق کے نئے دروازے کھل سکیں۔
موصوف ایک وائرل ویڈیو میں یہ کہتے نظر آئے تھے کہ آج کل عتاب کا شکار سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے ایک بظاہر ’مفرور‘ رہنما جب اپنے ساتھیوں سے گفتگو کرنا چاہتے ہیں تو پیچھے واش روم کی ٹونٹی کھول دیتے ہیں تاکہ ان کی لوکیشن ٹریس نہ ہو۔
ایک استاد سے استفادہ حاصل کرنے کا موقع ملا تو ان کے سامنے سوال رکھا کہ جناب میں لکھاری بننا چاہتا ہوں، مجھے راز بتا دیں۔ بولے: ’بیٹا! زیادہ تو نہیں بس اتنا کہوں گا کہ اپنے مشاہدے کی حِس کو تیز کر لو تم لکھاری بن جاؤ گے۔‘
مزید فرمایا کہ ’اگر تم اس حِس پر کام کرو تو تم پر ایسے عقدے کھلیں گے کہ تم خود حیران رہ جاؤ گے۔ پھر تم اپنے اردگرد دیکھو گے تو ایسا مواد نظر آئے گا جسے تم لکھنا چاہو گے۔ بس اسے لکھتے جانا جہاں اصلاح درکار ہو ،کسی استاد کے دروازے پر دستک دے دینا۔‘
استاد کے اس فارمولے پر اس ’تخلیق‘ کو پرکھا تو نتیجہ اخذ کیا کہ واش روم کی ٹونٹی سے جی پی ایس کو دھوکہ دینے کی یہ ایجاد بھی شاید مشاہدے کا صحیح استعمال ہے، ورنہ ایسا خیال آنے کے لیے جو تخلیقی صلاحیتیں درکار ہیں وہ کسی پرفضا مقام پر وقت صرف کرنے سے تو میسر نہیں آئیں گی۔
اس تخلیق کے خالق سینیئر صحافی کا تعلق جس عہد سے ہے، اس عہد کے صحافی میڈیا کی تینوں شکلوں کو قریب سے دیکھ چکے ہیں۔ انہوں نے آغاز پرنٹ میڈیا سے کیا تھا۔ وہ اپنی تحریروں میں اکثر ایسے دور کے حوالے دیتے ہیں، جس دور کا نہ کوئی انسان زندہ ہے، نہ کوئی نشانی باقی۔ ایسے حوالے اب صرف تاریخ کی کتابوں میں مل سکتے ہیں یا پھر ان کہانیوں میں جو نانیاں یا دادیاں اپنے بچوں کو سنایا کرتی ہیں۔
پرنٹ میڈیا کے بعد جب الیکٹرانک میڈیا کے عروج کا دور شروع ہوا تو ان صاحب نے وہاں بھی اپنی قابلیت کا لوہا منوایا، لیکن اب ڈیجیٹل میڈیا کا دور ہے جہاں روزانہ کی بنیاد پر رحجانات بدلتے رہتے ہیں۔ یہاں مزاح پر مبنی مواد کو زیادہ پسند کیا جاتا ہے۔
یوں سنجیدہ لکھاریوں کو بھی لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کے لیے مزاح کا راستہ اپنانا پڑتا ہے۔ ایسے میں اب ڈیجیٹل میڈیا پر بھلے یہ صاحب خود نہ بولنا چاہیں، ان کاطوطی ضرور بول رہا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
نہ جانے ہم اپنوں کی ایجادات پر داد دینے کی بجائے انہیں مذاق میں کیوں اڑا دیتے ہیں۔ اس ایجاد کو بھی جب مزاح میں اڑایا گیا تو گمان تھا کہ موصوف اس پر وضاحتی بیان ضرور جاری کریں گے، جس میں ہمارے ہاں رائج مشہور جملہ ضرور دہرایا جائے گا کہ ’میرے بیان کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا،‘ لیکن زمانے کی ناقدری کو دیکھ کر ان صاحب کو نیا کالم لکھنا پڑا، جس کا عنوان تھا ’واٹ اے کنٹری۔‘
اس ’سائنسی ایجاد‘ پر سب سے زیادہ ٹرولنگ کرنے والا طبقہ نوجوان نسل ہی تھی۔ اپنے کالم میں انہوں نے لکھا کہ سنہ 2000 کے بعد پیدا ہونے والے 95 فیصد نوجوان جہالت کی بحرِ ظلمات میں ہیں۔ ان کی اس تحریر کو پڑھنے کے بعد نوجوان نسل نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ ہمیں اب معلوم پڑا کہ ان صاحب کی تحریریں ’زیرو پوائنٹ‘ کے نام سے کیوں چھپتی ہیں۔
سنا ہے کہ واش روم کی ٹونٹی سے جی پی ایس کو دھوکہ دینے کی اس ’تخلیق‘ کے بعد سے سائنس دانوں اور مزاح نگاروں میں لڑائی سی پڑ گئی ہے۔ دونوں فریقین کہتے ہیں کہ یہ صاحب ہم میں سے ہیں۔
وقت آ گیا ہے کہ دونوں فریقین آپس میں مل بیٹھ کر اتفاق رائے سے معاملہ حل کر لیں، بالکل ان میاں بیوی کی طرح جن میں بالکل نہ بنتی تھی تو ایک دانا شخص نے انہیں مشورہ دیا کہ میاں بیوی صبح شام وقت نکال کر ایک دوسرے کی تعریف کیا کریں گے، لیکن اس دوران وہ اپنی ہنسی پر قابو رکھیں گے۔
یوں اب سائنس دانوں اور مزاح نگاروں کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے حق میں دلائل دیتے وقت ہنسی قابو میں رکھیں اور کسی ایسے شخص کو ثالث بنائیں جو دونوں طرف کے دلائل سننے کے بعد زیادہ دیر فیصلہ محفوظ نہ رکھے کیونکہ عین ممکن ہے کوئی ہماری یہ تحقیق چرا لے اور ہم بعد میں دنیا کو باور کراتے پھریں کہ یہ ہماری تخلیق ہے اور کوئی ہمارے بات سننے والا نہ ہو۔
یہ تحریر مصنف کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔