ٹیسٹ کرکٹ کو بچانے کے لیے اس میں تبدیلیاں ناگزیر ہیں: کپل دیو

انڈیا کے سابق کرکٹر اور کپتان کپل دیو کا کہنا ہے کہ اگر ٹیسٹ کرکٹ کو بچانا ہے تو اس میں تبدیلیاں ضروری ہیں۔

انڈیا کے سابق کپتان کپل دیو ممبئی میں ایک نیوز کانفرنس کے دوران(تصویر: روئٹرز فائل)

انڈیا کے سابق کرکٹر اور ورلڈ کپ وننگ ٹیم کے کپتان کپل دیو کا کہنا ہے کہ ٹیسٹ کرکٹ کو بچانا ہے تو اس میں تبدیلیاں ضروری ہیں۔

ایشین ٹیلی گراف قطر سے انٹرویو میں کپل دیو نے موجودہ اور ماضی کی کرکٹ میں فرق کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہا کہ ’اگر ہم گذشتہ 20 سالوں کی انڈیا کرکٹ پر نظر ڈالیں اور اس کا موازنہ آج کی کرکٹ سے کریں تو کافی فرق نظر آیا ہے۔ کرکٹ کا انداز وقت کے ساتھ بدلا ہے اور کرکٹ کی منیجمنٹ میں کافی بہتری آئی ہے۔‘

سابق کپتان نے مزید کہا کہ ’نوجوان باصلاحیت کھلاڑیوں کو اب زیادہ مواقع مل رہے ہیں اور مجھے یقین ہے کہ چھوٹے شہروں سے زیادہ بہتر بولرز ابھر رہے ہیں اور جہاں تک بیٹنگ کا تعلق ہے زیادہ تر باصلاحیت نام بڑے شہروں سے آتے ہیں۔‘

ان کے بعد انڈیا کی جانب سے پیس بالر آل راؤنڈر سامنے نہ آنے کے بارے میں کپل دیو کا کہنا تھا کہ ’کرکٹ میں آل راؤنڈر بننے کے لیے شروع سے ہی انتھک محنت کی ضرورت ہوتی ہے مزید یہ کہ آج کل کرکٹ بہت زیادہ کھیلی جاتی ہے جس کی وجہ سے کچھ کھلاڑی کھیل کے مطلوبہ معیار پر پورا نہیں اترتے کیوں کہ وہ بہت زیادہ میچ کھیلنے سے اَن فِٹ ہو جاتے ہیں۔‘

ان کے بقول: ’برصغیر میں موسم سازگار نہیں ہے۔ شمالی انڈیا اور پاکستان میں موسم سرد رہتا ہے جب کہ انڈیا کے دیگر علاقوں میں شدید گرمی پڑتی ہے۔ تیز گیند بازی میں مہارت حاصل کرنے کے لیے آپ کو دوگنا محنت کرنا پڑتی ہے لہذا یہاں آپ کو بولرز کی بجائے مزید بلے باز دیکھنے کو ملیں گے۔‘

16 سال تک بغیر انجری کے انٹرنیشنل کرکٹ کھیلنے پر کپل دیو کا کہنا تھا کہ ’میں یہ نہیں کہنا چاہتا کہ کھلاڑی بغیر کسی وجہ کے زخمی ہو جاتے ہیں لیکن آج کل کرکٹرز ایک سال میں دس ماہ یا اس سے بھی زیادہ کرکٹ کھیلتے ہیں۔ انہیں آرام کرنے کا موقع نہیں ملتا۔ شاید ہمارے وقت میں ہم پر اتنا دباؤ نہیں تھا۔‘

سابق انڈین کپتان نے کہا کہ ’ٹی 20 کرکٹ کی آمد کے بعد میچز کی تعداد میں اضافہ ہوا اور کھلاڑیوں پر دباؤ بھی بڑھ گیا۔ جب بہت زیادہ پیسہ شامل ہوتا ہے تو کھلاڑی زیادہ دباؤ محسوس کرتے ہیں۔ آرام کی کمی کی وجہ سے صحت کے مسائل بڑھ جاتے ہیں۔‘

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ ٹی ٹوئنٹی کو ون ڈیز یا ٹیسٹ کرکٹ کے مستقبل کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں؟

اس پر کپل دیو نے جواب دیا کہ ’یہ آئی سی سی پر منحصر ہے کہ وہ ٹیسٹ کرکٹ میں ایسی تبدیلیاں لائے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ گراؤنڈز میں ٹیسٹ میچ دیکھنے کے لیے واپس آئیں کیوں کہ شائقین اب ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پاکستان اور انڈیا میں ٹیم میں جگہ نہ پانے والے کھلاڑیوں کے ماہرانہ تبصروں پر کپل دیو نے کہا کہ ’اگر ہم پاکستان کی بات کریں تو وہاں وسیم اکرم اور وقار یونس جیسے بڑے کھلاڑی موجود ہیں جو اس کھیل پر بات کرتے ہیں۔‘

’انڈیا میں سنیل گواسکر اور روی شاستری ہیں۔ بعض اوقات کچھ کھلاڑی اینکرز سے کرکٹ کے ماہر بن جاتے ہیں جس سے ہمیں حیرت ہوتی ہے۔‘

آئی پی ایل میں دولت کی ریل پیل پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’اگر آپ مثبت سوچیں اور سمجھیں تو اس کا اتنا اثر نہیں پڑا۔ آج بھی میرا ماننا ہے کہ کرکٹرز کو زیادہ پیسے نہیں ملتے۔‘

’اگر بورڈ کو 50 کروڑ روپے ٹی وی رائٹس سے ملتے ہیں تو کھلاڑیوں کو ایک کروڑ بھی نہیں ملتا۔ اگر ہم اسے اس نقطہ نظر سے دیکھیں تو کاروبار بہت بڑا ہے لیکن تناسب کے لحاظ سے کھلاڑیوں کو زیادہ فائدہ نہیں ہو رہا ہے۔‘

ان کے بقول: ’ہمارے دور میں کرکٹ بورڈ کے پاس پیسے زیادہ نہیں تھے براڈکاسٹنگ رائٹس زیادہ نہیں تھے اس لیے کھلاڑیوں کو کم معاوضہ ملتا تھا۔ اب ٹی وی حقوق کا سودا ایک ہزار کروڑ کا ہے۔ کرکٹرز کی وجہ سے پیسہ آرہا ہے۔ کرکٹ کے منتظمین اور نشریاتی اداروں کے درمیان اچھے تعلقات ہونے چاہئیں۔‘

اپنی زندگی پر بننے والی فلم پر بات کرتے ہوئے کپل دیو نے کہا: ’40 سال بعد یہ بڑی سکرین پر دیکھ کر بہت اچھا لگا۔ نئی نسل نہیں جانتی کہ اس وقت حالات کیسے تھے اور ہم کیسے کھیل رہے تھے۔ ہمیں اچھا لگتا ہے کہ ہم نے جو کچھ کیا وہ آنے والی نسلیں بھی دیکھ رہی ہیں۔‘

پاکستان میں میچ کے دوران سلیم ملک کے سر پر لگنے والی گیند پر مذاق کرتے ہوئے کپل دیو نے کہا کہ ’جب بال سلیم ملک کے سر پر لگی اور دوسری گیند ان کی ٹانگ پر لگی تو وہ درد میں اپنی ٹانگ کو رگڑنے لگے تو میں نے پوچھا کیا آپ کا دماغ آپ کی ٹانگ میں ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کرکٹ