پاکستان نے جمعرات کو امریکہ اور انڈیا کے مشترکہ اعلامیہ میں اس کے حوالے کو غیر ضروری، یک طرفہ اور گمراہ کن قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس ریفرنس کا مقصد محض سیاسی ہے۔
پاکستانی وزارت خارجہ نے جمعے کی رات امریکہ اور انڈیا کے مشترکہ اعلامیے پر ردعمل دیتے ہوئے ایک بیان میں اسے سفارتی اصولوں کے منافی بھی گردانا اور کہا: ’ہم حیران ہیں کہ امریکہ کے ساتھ پاکستان کے دہشت گردی کے خلاف قریبی تعاون کے باوجود اسے (پاکستان کے نام کو) شامل کیا گیا ہے۔‘
بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بے مثال قربانیاں دی ہیں اور جانوں کے نذرانے پیش کرکے اس کے قانون نافذ کرنے والے اداروں اور مسلح افواج نے مثالیں قائم کیں۔
بیان میں کہا گیا: ’پاکستان کے عوام اس جنگ میں اصل ہیرو ہیں اور عالمی برادری دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی کوششوں اور قربانیوں کو بار بار تسلیم کر چکی ہے۔‘
امریکی صدر جو بائیڈن اور انڈین وزیراعظم نریندر مودی نے جمعے کو اسلام آباد سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ نئی دہلی کو ہدف بنانے والے انتہا پسندوں کے خلاف کارروائی کرے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق مودی کے دورہ امریکہ کے موقع پر جاری ہونے والے مشترکہ بیان میں دونوں رہنماؤں نے پاکستان سے لشکر طیبہ اور جیش محمد جیسے انتہاپسند گروہوں کے خلاف کارروائی کرنے کا تقاضہ دہرایا کیا ہے۔
وائٹ ہاؤس کی طرف سے جاری ہونے والے مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ’انہوں (صدر جوبائیڈن اور نریندرمودی) نے سرحد پار سے ہونے والی دہشت گردی، دہشت گرد کے لیے تنظیموں کے استعمال کی شدید مذمت کی اور پاکستان سے مطالبہ کیا کہ وہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے فوری کارروائی کرے کہ اس کے زیر انتظام کوئی بھی علاقہ دہشت گرد حملوں کے لیے استعمال نہ ہو۔‘
دفتر خارجہ کے بیان میں مزید کہا گیا: ’دنیا نے طویل عرصے سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہوا ہے کہ دہشت گردی کو مشترکہ اور تعاون پر مبنی اقدامات کے ذریعے ہی شکست دی جا سکتی ہے۔‘
دفتر خارجہ نے مؤقف اختیار کیا کہ مشترکہ اعلامیے میں کیے گئے دعوے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے بین الاقوامی عزم کو مضبوط کرنے سے متعلق نہیں ہیں۔
’بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ تعاون پر مبنی جذبہ، جو دہشت گردی کی لعنت کو شکست دینے کے لیے انتہائی ضروری ہے، جغرافیائی سیاسی تحفظات کی قربان گاہ پر قربان کر دیا گیا ہے۔‘
دفترا خارجہ نے بیان میں مزید کہا کہ دہشت گردی کا ریاستی سرپرست ہونے کے علاوہ انڈیا عادتاً دہشت گردی کی بوگی کا استعمال کرتا ہے تاکہ دہلی کے غیر قانونی طور پر اس کے زیر انتظام جموں و کشمیر میں ہونے والے وحشیانہ جبر، اور اقلیتوں کے ساتھ ناروا سلوک سے توجہ ہٹائے۔
’اس طرح پاکستان اور اس کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کے بارے میں کسی قسم کے الزامات لگانا بالکل غلط ہے۔
’ستم ظریفی یہ ہے کہ مشترکہ بیان خطے میں کشیدگی اور عدم استحکام کے کلیدی ذرائع کو حل کرنے اور انڈیا کے زیر انتظام جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین صورت حال کا نوٹس لینے میں ناکام ہے۔ یہ بین الاقوامی ذمہ داری سے دستبردار ہونے کے مترادف ہے۔‘
بیان میں انڈیا کو جدید فوجی ٹیکنالوجی کی منتقلی پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے دفتر خارجہ نے کہا کہ ایسے اقدامات خطے میں فوجی عدم توازن کو بڑھا رہے ہیں اور سٹریٹجک استحکام کو نقصان پہنچا رہے ہیں اور مزید یہ کہ جنوبی ایشیا میں پائیدار امن کے مقصد کے حصول میں غیر مددگار ہیں۔
’ہم اپنے بین الاقوامی شراکت داروں پر زور دیتے ہیں کہ وہ جنوبی ایشیا میں امن و سلامتی کے مسائل کے بارے میں ایک جامع اور معروضی نقطہ نظر اختیار کریں اور یک طرفہ موقف کی توثیق سے گریز کریں۔‘