انڈیا کے شہر ممبئی میں ملک کی آبادی بتانے والا پہلا کلاک لوگوں کی دلچسپی کا سبب بن چکا ہے۔ یہ کلاک بڑے حجم کے سبز رنگ کے دھاتی بورڈ پر مشتمل ہے جس میں سفید رنگ کے 10 کارڈ لگے ہوئے ہیں جن پر آبادی کے اعداد و شمار درج ہیں۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق کلاک کے قریب سے گزرنے والے لوگ اسے تجسس سے دیکھتے ہیں، جو دنیا کی سب سے زیادہ آبادی والے ملک کی کہانی ریکارڈ کرتا نظر آتا ہے۔
کرکٹ کے سکور بورڈ جیسے نظر آنے والے کلاک کو اندازوں کے مطابق ہر روز اپ ڈیٹ کیا جاتا ہے۔ یہ کلاک پہلی بار 1982 میں اس وقت تعمیر کیا گیا تھا، جب 1981 کی سرکاری مردم شماری کے مطابق انڈیا کی آبادی 68 کروڑ 40 لاکھ سے زیادہ تھی۔
آنے والی دہائیوں میں یہ تعداد دگنی سے بھی زیادہ ہو گئی۔ اپریل میں اقوام متحدہ کے تخمینے کے مطابق انڈیا نے تیزی سے آگے بڑھتے ہوئے 1.42 ارب سے زیادہ آبادی کے ساتھ چین کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔
ممبئی کے انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار پاپولیشن سائنسز کے پروفیسر چندر شیکھر نے بتایا کہ ’گھڑی میں پہلے ہی ایک اضافی سلاٹ بنا دیا گیا تھا کیوں کہ امید تھی کہ ہم ایک ارب سے تجاوز کر جائیں گے۔‘
انڈین حکومت نے 1952 میں خاندانی منصوبہ بندی کا ملک گیر پروگرام شروع کیا کیوںکہ زیادہ آبادی طویل عرصے سے تشویش کا باعث بنی ہوئی ہے۔
شیکھر کا کہنا تھا: ’لیکن یہ 1970 کی دہائی میں جبری نس بندی کا متنازع اقدام تھا جس نے عوامی بحث کو جنم دیا اور انسٹی ٹیوٹ کو گھڑی بنانے کی ترغیب دی۔‘
ہر روز سکیورٹی گارڈز آبادی میں اضافے کے تخمینے کا استعمال کرتے ہوئے نمبروں کو تبدیل کرتے ہیں۔ پیدائش اور اموات کے درمیان سالانہ ایک ہزار کی تعداد کے بنیاد پر فرق کو ظاہر کیا جاتا ہے جو حکومت اور اقوام متحدہ کے تخمینوں سے اخذ کیا جاتا ہے۔
چھپن سالہ سکیورٹی سپروائزر سالونکھے وی وی نے اے ایف پی کو بتایا: ’ہمیں بورڈ کو اپ ڈیٹ کرنا اچھا لگتا ہے کیوںکہ راہگیر آبادی میں ہوتے اضافے کو بھی دیکھ سکتے ہیں۔‘
موجودہ تخمینوں کے مطابق انڈیا کی آبادی میں روزانہ 41000 سے کم افراد کا اضافہ ہو رہا ہے یعنی ہر دو سیکنڈ میں ایک یا سال میں تقریباً ڈیڑھ کروڑ بچے پیدا ہوتے ہیں۔
ہندوستان کی موجودہ شرح پیدائش فی خاتون دو بچے ہے۔ یہ شرح آبادی میں اضافے کو مستحکم رکھنے کی 2.1 کی حد اور 1981 میں حکومتی اندازے 4.8 سے کم ہے۔
سال2019 کے ایک سرکاری جائزے کے مطابق ملک بھر میں پیدائش کی شرح مختلف ہے۔ اتر پردیش اور بہار جیسی غریب ریاستیں جن کی مشترکہ آبادی 32 کروڑ 50 لاکھ سے زیادہ ہے، میں شرح پیدائش سب سے زیادہ ہے۔
اس کے برعکس دو امیر ترین ریاستوں مہاراشٹر اور تمل ناڈو میں بالترتیب 1.56 اور 1.54 کی شرح پیدائش ہے جو اوسط سے بہت کم ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
حکومت کے 2019-2021 کے نیشنل فیملی ہیلتھ سروے کے مطابق خاندانی منصوبہ بندی کی ذمہ داری زیادہ تر خواتین پر چھوڑی گئی ہے اور ہر 10 میں سے ایک مرد کنڈوم استعمال کرتا ہے جبکہ خواتین کی نس بندی کی شرح تقریباً 38 فیصد رہی۔
سماجی آبادی اور شرح پیدائش کے ماہر شیکھر کے بقول: ’مجھے ان اعدا و شمار سے نفرت تھی لیکن جب میں نے شماریات کے مضمون میں ایم اے کی ڈگری لی تو میں نے سوچا کہ ہمیں چاہیے کہ اس بات کو سمجھیں کہ کیا یہ کوئی مسئلہ ہے اور کیا اسے واقعی حل کیا جا سکتا ہے؟‘
شیکھر کا ماننا ہے کہ اگر حکام لوگوں کے معیار زندگی کو بلند کرنے پر توجہ مرکوز کریں تو آبادی کو ٹِک ٹِک کرتا ٹائم بم بننے کی ضرورت نہیں ہے۔
تعلیم اور صحت کے شعبوں شیرخواربچوں اور زچگی کے دوران شرح اموات میں 1982 کے بعد سے کمی آئی ہے اور انڈیا کی معیشت ترقی کر کے دنیا کی پانچویں بڑی معیشت بن گئی ہے۔ لیکن بہت سے شہروں میں پانی کی قلت، فضائی اور آبی آلودگی کا سامنا کرتے لوگ وسائل کی کمی کا شکار ہیں۔
عالمی بینک کے مطابق 15 سے 24 سال کی عمر کے نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح گذشتہ سال 23.2 فیصد رہی۔