ٹینس کے کھلاڑی کارلوس الکاراز نے دو قابل ذکر کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ پہلی یہ کہ وہ گراس کورٹ میں چیمپئن بن گئے اور درجہ بندی کے اعتبار سے نمبر ون رہے۔ ان دو کامیابیوں میں صرف ایک ایسے کھلاڑی کی توقعات سے بڑھ کر تھیں، جو تیزی سے اور اچانک ایسے ابھرے کہ کھیل میں سب سے اوپر پہنچ گئے۔
وہ درجہ بندی میں سب سے اوپر جانے کی کامیابی پہلے ہی 19 سال کی عمر میں حاصل کر چکے تھے لیکن محض چند دن قبل گھاس پر ٹائٹل حاصل کرنے کا آئیڈیا برسوں دور دکھائی دیا۔
ہسپانوی کھلاڑی کوینز کہلانے والے ٹورنامنٹ میں حصہ لینے کے لیے پہنچے۔ اس اقدام کا مقصد تجربے کا حصول تھا۔ وہ چیمپیئن اور ومبلڈن کھیلنے کے لیے نمبر ون بن کر رخصت ہوئے۔
اس کامیابی سے پتہ چلتا ہے کہ کارلوس الکاراز مشہور ٹینس کھلاڑی نوواک جوکووچ کے لیے سخت حریف ثابت ہو سکتے ہیں۔
الکاراز نے مسکراتے ہوئے کہا کہ ’اس میں خود کو ومبلڈن جیتنے کے لیے فیورٹ کھلاڑیوں میں سے ایک محسوس کر رہا ہوں۔‘
گرینڈ سلیم سے پہلے کوینز جیتنے سے ان کے اعتماد پر تبدیلی لانے کا اثر پڑا ہے۔ پہلا گراس کورٹ ٹائٹل ان کا محض تیسرا ٹورنامنٹ ہے جو ان کے نوجوانی کے کیریئر میں سب سے زیادہ یادگار ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’یہاں زیادہ اعتماد کے ساتھ نہ آنا اور خود کو اعلیٰ سطح پر کھیلتے دیکھنا میرے لیے خاص بات ہے۔
’اور ظاہر ہے کہ میں ومبلڈن کو ٹور کا سب سے خوبصورت ٹورنامنٹ سمجھتا ہوں۔ یہ ایک ایسا ٹورنامنٹ ہے جسے میں واقعی کسی دن جیتنا چاہتا تھا۔ ومبلڈن کے لیے تیاری کرنا جیسا کہ میں نے اس ہفتے کیا میرے لیے بہت خاص بات ہے اور مجھے اس سال اس خواب کو حقیقت بنانے کے لیے بہت زیادہ اعتماد حاصل ہے۔‘
الکاراز نے جس انداز میں کوینز کے فائنل میں الیکس ڈی مینور کے خلاف 6-4، 6-4 سے فتح حاصل کی وہ ٹورنامنٹ کے دوران ان کی متاثر کن اور سوچی سمجھی کارگردگی سے مطابقت رکھتا تھا۔
مغربی لندن میں 30 درجے سیلسیئس کے درجہ حرارت میں الکاراز نے ٹورنامنٹ میں بہترین سروس کرتے ہوئے ہر میچ میں اپنا کھیل بہتر بنانے کا عمل جاری رکھا۔
انہوں نے سروس کرواتے ہوئے اپنے خلاف 0۔30 کے سکور کے ساتھ مشکل صورت حال کا سامنا کیا۔ ایسا اس لیے ہوا کہ انہوں سیدھی شاٹ لگائی اور گیند دور جاتے ہوئے کنارے سے باہر نکل گئی۔ تاہم انہوں نے ایس شاٹ کے ساتھ جواب دیا اور کئی بار مشکل سروس کروائی جسے کھیلنے میں ان کے حریف ڈی مینور ناکام رہے۔
ایک بار جب کارلوس الکاراز گھاس پر کھیلنے سے مانوس ہو گئے اور انہیں فور ہینڈ شاٹ کی طاقت کا پتہ چل گیا تو ان کے پاس ایسے ٹولز کا سیٹ مکمل ہو گیا جن کو کام میں لانے کے بعد انہیں ومبلڈن میں روکنا مشکل ہو گا۔ انہوں نے سات ایس شاٹ اور دونوں بریک پوائنٹس جیت کر کھیل ختم کیا۔
الکاراز کا کہنا تھا کہ ’آج کی سروس واقعی میرے لیے معاون ہتھیار ثابت ہوئی۔
’میرا خیال ہے کہ سروس کی بدولت میں بہت مشکل لمحات میں بچ نکلا۔ یہ ایسی شے ہے جس پر میں نے گذشتہ مہینوں کے دوران بہت محنت کی اور ظاہر ہے کہ گھاس پر کھیلنے کے لیے آنا ایسا عمل ہے کہ غالباً دوسری شاٹس کے مقابلے میں اس پر زیادہ محنت کرتا ہوں۔ لیکن ہاں میں سمجھتا ہوں کہ میں گھاس پر کھیلنے کے لیے اچھا کھلاڑی ہوں ان تمام ہتھیاروں کے ساتھ جو میرے پاس موجود ہیں۔‘
ڈی مینور نے سپن میں اپنی مہارت سے الکاراز کے بہترین شاٹس کو ناکام بنانے کی کوشش کی۔ آسٹریلوی کھلاڑی نے ابتدا میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا اورالکاراز کی ڈراپ شاٹ کے پیچھے جا کر شاندار بیک ہینڈ شاٹ کے ذریعے الکاراز کی سروس کو بریک کرنے کا موقع پیدا کیا۔
الکاراز اپنی سروس کے ساتھ مشکل ابتدائی سیٹ میں جمے رہے اور 137 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے لگائی زبردست ایس شاٹ کے ساتھ بریک پوائنٹ بچایا۔
الکاراز کو برتری ملنا شروع ہو گئی کیوں کہ وہ ڈی مینور کے مشکل بیک ہینڈ شاٹ سے نمٹنے کے عادی ہو چکے تھے اور وہ نیٹ کی طرف بڑھتے ہوئے زیادہ کامیاب رہے۔ وہ پہلے سیٹ کے اختتام تک ڈی مینور کی سروس کو توڑنے میں کامیاب رہے۔ انہوں نے چند پوائنٹس کے ساتھ 24 سالہ ڈی مینور کی کچھ غلطیوں کا فائدہ اٹھایا۔ الکاراز نے فتح دلانے والی زبردست فور ہینڈ شاٹ اور ایک ایس شاٹ لگا کر بالآخر پہلا سیٹ جیت لیا۔
یہ ایک ایسا سیٹ تھا جس میں افتتاحی کھیل کے دوران الکاراز کے اعتماد میں اضافہ ہوا جو کوینز میں ان کے ہفتے کی ایک نشانی ہے۔ تاہم جب ایسا لگتا تھا کہ وہ فائنل میں حاوی ہو سکتے تو انہوں نے طبی امداد کے لیے وقفہ کر لیا، تو اس خیال کو مسترد کر دیا گیا۔
جب وہ وقفے کے بعد کورٹ میں واپس آئے تو اس کی دائیں ٹانگ پر بندھی پٹی نمایاں تھی جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ شاید وہ کسی چوٹ یا تکلیف میں مبتلا ہیں۔
ومبلڈن سے پہلے یہ ایک تشویشناک صورت حال تھی لیکن الکاراز پریشان نہیں ہوئے اگرچہ ان کی سروس کی رفتار دوسرے سیٹ کی پہلے چند گیمز میں کم ہو گئی۔ اس صورت حال نے ڈی مینور کو سنبھلنے کا مختصر سا اور ٹورنامنٹ کی یادگار شاٹ لگانے کا موقع دیا۔ وہ اس عرصے کے دوران بہتر کھیلے۔
میچ کی خاص بات اس وقت سامنے آئی جب ڈی مینور نے وہ شاٹ لگائی جسے الکاراز نے واپس کر دیا۔ تاہم ڈی مینور نے بہت ساری غلطیاں کیں جن میں کچھ بھاری پڑنے والی بھی ہیں۔ ان میں سے ایک بریک پوائنٹ پر تھی جس کے نتیجے میں الکاراز نے دوسرے سیٹ میں برتری حاصل کر لی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
الکاراز نے انتہائی عمدہ کھیل کا مظاہرہ کیا اور بریک پوائنٹ کے دونوں موقعوں سے فائدہ اٹھایا اور ڈی مینور پر غلبہ پا لیا۔
ڈی مینور ایسے کھلاڑی تھے جو پہلے راؤنڈ میں اینڈی مرے کو شکست دینے کے بعد سے متاثر کن فارم میں تھے۔ آسٹریلیا کی قدرتی گراس کورٹ گیم اور سیدھی شاٹس نے بظاہر انہیں الکاراز پر برتری دلائی لیکن ہسپانوی کھلاڑی ان چیلنجوں کا مقابلہ کرتے ہوئے انہیں غیر مؤثر کرنے میں کامیاب رہے۔
ڈی مینور نے کہا کہ ’میرے خیال میں جو کوئی بھی کوینز جیتتا ہے وہ ومبلڈن میں بہت اچھی فارم میں ہوتا ہے۔
’مجھے لگتا ہے کہ ظاہر ہے کہ انہوں نے پورے ہفتے دکھایا کہ وہ کس طرح کھیل کے انداز کو صورت حال کے مطابق ڈھال کر کہیں زیادہ بہتر کھیلنے کے قابل ہیں۔ ان کے پاس ہمیشہ اچھے ہینڈ ہوتے ہیں اس لیے وہ جارحانہ انداز میں کھیلتے نظر آتے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ انہوں نے سلائس شاٹ کو کام میں لاتے ہوئے الٹی شاٹ کو اچھی طرح سے چھپا رکھا ہے۔ پھر ظاہر ہے کہ جب ان کے پاس کافی وقت ہوتا ہے تو وہ آپ کو کہیں سے بھی نقصان پہنچا سکتے ہیں۔‘
ڈی مینور کا مزید کہنا تھا کہ الکاراز کی سروس ان کے کھیل کا وہ حصہ ہے جس کا ’غلط اندازہ‘ لگایا گیا۔ ’میرا خیال ہے کہ وہ بڑے پوائنٹس میں بڑی پہلی سروس سے نمٹنے کے قابل تھے جس سے وہ مشکل سے نکل آئے۔ ’137، 138 آپ اسے صرف بہت اچھا کہہ سکتے ہیں۔‘
یہ وہ پیغام تھا جس کی گھنٹی اگلے ہفتے آل انگلینڈ کلب میں واپسی سے پہلے واضح طور پر بجے گی یعنی ومبلڈن دیکھیں، الکاراز پہنچ چکے ہیں۔
© The Independent