ورلڈ کپ کے شیڈول کا ابھی اعلان بھی نہیں ہوا تھا کہ میڈیا میں خبریں آنا شروع ہو گئیں کہ پاکستان احمد آباد میں کھیلنے کے لیے تیار نہیں اور وہ صرف فائنل میں پہنچنے کی صورت میں وہاں کھیلے گا۔
پھر کچھ اسی خبریں آنے لگیں کہ پاکستان چاہتا ہے اس کا افغانستان کے خلاف میچ چنئی سے بنگلور منتقل کردیا جائے اور بنگلور میں آسٹریلیا کے خلاف میچ کو چنئی لے جایا جائے۔
اس کی وجہ غالباً یہ بتائی گئی کہ چنئی کی پچ سپن فرینڈلی ہے اور افغانستان کو اپنے ورلڈ کلاس سپنر ہونے کا فائدہ حاصل ہوگا۔
تاہم آئی سی سی نے پاکستان کی وہ درخواست منظور نہیں کی اور کہہ دیا کہ وینیو کی تبدیلی صرف سکیورٹی خدشات کے سبب ممکن ہے۔
اب جبکہ ورلڈ کپ کا حتمی شیڈول جاری ہوچکا ہے تو اس میں احمد آباد بھی موجود ہے جو فائنل سے پہلے ہی اس ورلڈ کپ کے سب سے بڑے میچ یعنی انڈیا بمقابلہ پاکستان کی میزبانی کرے گا۔
لیکن اب بھی ایک انتہائی اہم سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ کیا پاکستان کرکٹ ٹیم ورلڈ کپ میں حصہ لینے انڈیا جائے گی؟
یہ سوال شکوک و شبہات کے ساتھ موجود ہے کیوں کہ پاکستان کرکٹ بورڈ یہ بات واضح کرچکا کہ ورلڈ کپ میں پاکستان ٹیم کی شرکت حکومتی اجازت سے مشروط ہو گی۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ اگر اکتوبر میں پاکستان کی حکومت ٹیم کو انڈیا جانے کی اجازت دیتی ہے تو پھر کوئی مسئلہ نہیں ہوگا لیکن اگر اجازت نہیں ملتی تو پھر کیا ہوگا؟
کیا پاکستان کے ورلڈ کپ کے میچ انڈیا کی بجائے کسی نیوٹرل مقام پر منتقل ہوں گے؟ کیا ورلڈ کپ میں بھی ہائبرڈ ماڈل کو اپنایا جائے گا جیسا کہ ایشیا کپ میں انڈین ٹیم کے پاکستان نہ آنے کی وجہ سے اس کے تمام میچ سری لنکا میں ہونے ہیں بلکہ اب تو تقریباً پورا ایشیا کپ ہی سری لنکا میں ہونے جا رہا ہے۔
ورلڈ کپ کے جس شیڈول کا اعلان ہوا ہے اس کے مطابق پاکستان اپنے نو میچ پانچ مختلف شہروں میں کھیلے گی جن میں حیدرآباد دکن، احمد آباد، بنگلور، کولکتہ اور چنئی شامل ہیں۔
2019 کے ورلڈ کپ میں پاکستان نے اپنے نو میچ سات مختلف میدانوں میں کھیلے تھے۔ اس وقت کئی ذہنوں میں یہ سوال موجود ہے کہ ورلڈ کپ کے ان وینیوز پر پاکستان کو کس طرح کی پچیں کھیلنے کو ملیں گی۔
انڈین ایکسپریس کی ایک خبر میری نظر سے گزری جس میں بتایا گیا کہ بی سی سی آئی نے انڈین ٹیم سے پوچھا ہے کہ وہ ورلڈ کپ میں کس طرح کی پچوں پر کھیلنا چاہے گی جس کے جواب میں انڈین ٹیم نے کہا کہ وہ انگلینڈ، جنوبی افریقہ، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے خلاف میچوں کے لیے سپن فرینڈلی پچوں کو فوقیت دے گی۔
اس خبر کو پڑھنے کے بعد میرے ذہن میں سوال آیا کہ یہ درست ہے کہ انڈیا اس ورلڈ کپ کا میزبان ہے لیکن ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ یہ ورلڈ کپ آئی سی سی کا ایونٹ ہے تو کیا اس میگا ایونٹ کے میچوں کے لیے پچوں کی تیاری میں آئی سی سی کا کوئی کردار نہیں ہوگا؟
میرا نہیں خیال کہ پچوں کی تیاری میں صرف بی سی سی آئی کی مرضی چلے گی کیوں کہ عام طور پر ورلڈ کپ اور دیگر انٹرنیشنل ایونٹس میں ایسی پچیں تیار ہوتی ہیں جو بولرز اور بیٹسمین دونوں کے لیے یکساں مددگار ہوتی ہیں اور ان پچوں کی تیاری میں موسمی حالات کو پیش نظر رکھا جاتا ہے اور براڈ کاسٹرز کی رائے کو بھی۔
پاکستان کے پہلے دو میچ حیدرآباد دکن میں دو کوالیفائر ٹیموں کے خلاف ہیں۔ ان دو میچوں سے قبل پاکستان اپنے دونوں وارم اپ میچ حیدرآباد دکن میں کھیلے گا۔ اس طرح اسے کنڈیشنز سے ہم آہنگ ہونے کا اچھا خاصا موقع مل جائے گا۔
حیدرآباد دکن کے گراؤنڈ پر پانچ مرتبہ کسی ٹیم نے 300 یا زائد رنز بنائے۔ اسی سال انڈیا اور نیوزی لینڈ کے میچ میں دونوں ٹیموں نے 300 سے زائد کا سکور بنایا جس میں ُشبمان ِگل کی ڈبل سنچری قابل ذکر تھی۔
انڈین میدانوں پر پاکستان کی ون ڈے میچوں میں کارکردگی ہمیشہ شاندار رہی۔
احمد آباد میں پاکستان نے2005 میں کپتان انضمام الحق کے ناقابل شکست 60 رنز کی بدولت میچ کی آخری گیند پر تین وکٹوں سے فتح حاصل کی تھی حالانکہ اس میچ میں سچن تندلکر نے سنچری بنائی تھی۔
احمد آباد میں انڈیا نے 10 ون ڈے جیتے ہیں۔ چھ مرتبہ ٹیموں نے 300 سے زائد سکور کیا اور عام طور پر فاسٹ بولر کامیاب رہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ چونکہ آؤٹ فیلڈ بڑی ہے لہٰذا یہاں سپنر مار کھانے کے خوف سے آزاد ہوکر بولنگ کرسکیں گے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بنگلور میں پاکستان کو نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کے خلاف میچ کھیلنے ہیں۔
یہ وہی چنا سوامی سٹیڈیم ہے جہاں پاکستان کو 1996 کے عالمی کپ کے کوارٹر فائنل میں انڈیا کے خلاف شکست ہوئی تھی، البتہ 1999 میں پاکستان نے سہ فریقی سیریز کے فائنل میں انضمام الحق کے 91 رنز کی بدولت انڈیا کو 123 رنز سے ہرایا تھا۔
چنا سوامی سٹیڈیم 2020 کے بعد پہلی مرتبہ ون ڈے انٹرنیشنل میچوں کی میزبانی کرے گا۔
کولکتہ کے ایڈن گارڈنز میں پاکستان ورلڈ کپ کے دو میچ کھیلے گا جو انگلینڈ اور بنگلہ دیش کے خلاف ہیں۔
اگر پاکستان ورلڈ کپ کے سیمی فائنل میں پہنچتا ہے تو اس کا سیمی فائنل بھی کولکتہ میں ہوگا کیونکہ پاکستان ممبئی میں کھیلنے کے لیے تیار نہیں۔
ایڈن گارڈنز پاکستان کے لیے خوش بختی کی علامت رہا ہے کہ وہاں پاکستان نے 1987 میں سلیم ملک کی کبھی نہ بھولنے والی 72 رنز ناٹ آؤٹ کی اننگز کی بدولت انڈیا کو شکست دی تھی۔
اس کے بعد 1989 میں نہرو کپ میں اس نے انڈیا اور ویسٹ انڈیز کو ہرایا اور پھر 1997 میں سری لنکا کے خلاف میچ جیتا۔
ایڈن گارڈنز میں پاکستان کی ون ڈے فتوحات کا سلسلہ اس کے بعد بھی جاری رہا جب 2004 میں سلمان بٹ کی سنچری اور 2013 میں ناصر جمشید کی سنچری اور سعید اجمل اور جنید خان کی شاندار بولنگ نے پاکستان کو جیت سے ہمکنار کیا اور دونوں مرتبہ حریف ٹیم انڈیا تھی۔
آخر میں چنئی کا ذکر ہوجائے جہاں ورلڈ کپ کے پانچ میچ رکھے گئے ہیں۔ پاکستان کو اس میدان میں افغانستان کے علاوہ جنوبی افریقہ سے بھی کھیلنا ہے۔
چنئی سے پاکستان کی خوبصورت یادیں وابستہ ہیں۔ یہ وہی میدان ہے جہاں سعید انور نے انڈیا کے خلاف 194 رنز کی یادگار اننگز کھیلی، جو ایک طویل عرصے تک ون ڈے انٹرنیشنل میں سب سے بڑی انفرادی اننگز کا عالمی ریکارڈ تھا۔
چنئی میں پاکستان نے انڈیا کو دو مرتبہ ون ڈے میچوں میں شکست دے رکھی ہے۔
دوسری مرتبہ اس کی جیت ناصر جمشید کی سنچری اور جنید خان کی چار وکٹوں کی عمدہ بولنگ کی وجہ سے یاد رکھی جاتی ہے۔
اگر ہم چنئی میں اس سال کھیلے گئے ون ڈے انٹرنیشنل میچوں پر نظر ڈالیں تو صرف آسٹریلوی سپنر ایڈم زمپا ایک میچ میں چار وکٹیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔
اگر کوئی یہ سوچے کہ چنئی کی پچ غیر معمولی طور پر سپن فرینڈلی ہو گی تو یہ اس لیے ممکن نہیں کہ وہاں چنئی سپر کنگز کی ٹیم آئی پی ایل نہیں کھیل رہی ہو گی کہ مہندر سنگھ دھونی کی خواہش پر اسے مکمل طور پر سپنرز کی جنت بنا دیا جائے۔
اس سال چنئی میں کھیلے گئے آئی پی ایل کے میچوں میں اگر سپنرز نے 40 کے لگ بھگ وکٹیں حاصل کیں تو تقریباً اتنی ہی وکٹیں تیز بولر بھی لے اڑے۔
انڈیا کی سپن فرینڈلی سوچ پر خود اس کے اپنے سابق آف سپنر ہربھجن سنگھ نے تنقید کی اور کہا کہ اپنے ہی میدانوں پر سپن فرینڈلی پچوں پر کھیلنے کے بعد جب انڈین ٹیم باہر جاتی ہے تو بڑے میچوں کے لیے اس کی تیاری پر بہت اثر پڑتا ہے خاص کر ان میچوں میں جو تیز بولنگ کے لیے موافق کنڈیشنز میں کھیلے جاتے ہیں۔