کراچی کے علاقے لیاری سے تعلق رکھنے والے عدیل ولی رئیس کی فلم ’ٹو ون زا ٹو‘ کو امریکہ میں ہونے والے ’SWIFF سٹوڈنٹ ورلڈ امپیکٹ فلم فیسٹول‘ میں ایوارڈ سے نوازا گیا۔
دنیا بھر سے 120 فلم سازوں نے اس فلموں کے فیسٹیول میں حصہ لیا تھا جس میں کراچی کے فلم ساز بھی شامل ہوئے۔
عدیل ولی رئیس کے لیے یہ اعزاز کی بات ہے کیونکہ انہوں نے فلم سازی کے لیے کسی ادارے سے تربیت حاصل نہیں کی۔ پہلی دستاویزی فلم موبائل فون سے بنانے والے عدیل ولی رئیس اب تک بے شمار مختصر دورانیے کی فلمیں بنا چکے ہیں جس میں سے کئی فلمیں بین الا اقوامی سطح پر ایوارڈ حاصل کرتی رہی ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو کو انٹرویو دیتے ہوئے لیاری کے فلم ساز عدیل ولی نے فلم سازی کے شوق کے حوالے سے بہت سی باتیں بتائیں جن میں سے اکثر حیران کر دینے والی تھیں۔
انہوں نے بتایا کہ ’ٹو ون زا ٹو‘ فلم کرائے پر لیے گئے کیمرہ سے بنائی تھی اور چار گھنٹے میں یہ فلم تیار کی تھی۔
انہوں نے کہا: ’فلم ٹو ون زا ٹو 2014 میں بنائی تھی جس کے لیے کوئی تیاری نہیں تھی صرف تصور ذہن میں آیا اور یونہی گلی کے کسی بچے کو کو کریکٹر بناتے ہوئے فلم شوٹ کی۔ یہ فلم لیاری کی تنگ گلیوں میں اس وقت شوٹ کی گئی جب حالات ایسے تھے کے گھر سے نکلنا مشکل تھا بس ایک جذبہ تھا کے کچھ کر کے دکھانا ہے۔‘
عدیل ولی رئیس نے اپنی فلم کے لیے ایک مشکل ترین میڈیم ’خاموش فلموں‘ کو چُنا۔ جس کے بارے میں عدیل نے بتایا، ’میں نے خاموش فلم کا انتخاب کیا۔ خاموش فلمیں بنانے کا مقصد ہر زبان کے لوگوں تک اپنا پیغام پہنچانا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اب تک جتنی بھی مختصر دورانیے پر فلمیں تیار کی ہیں سب خاموش ہیں فلم کا یہ میڈیم نسبتاً تھوڑا مشکل ہے، کیوں کہ خاموش فلم کا سکرپٹ اس طرح بنانا پڑتا ہے کہ ہر کردار اپنی حرکات و سکنات سے ناظرین تک اپنا پیغام موثر طریقے سے پہنچا سکیں۔
’مزاحیہ فلموں میں تو یہ کام نسبتاً زیادہ آسان ہے کہ کردار اپنی حرکتوں سے ناظرین کو ہنسا کر لوٹ پوٹ کر دے، لیکن سماجی مسائل پر ایک لفظ کہے بنا اپنا پیغام ناظر تک پہنچانا تھوڑا مشکل کام ہے۔‘
عدیل ولی نے انڈپینڈنٹ اردو کو اپنے فلم سازی کے تجربے کے حوالے سے بتایا کہ ’12 سال کی عمر سے ہی اپنے والد ولی رئیس کے ساتھ فلموں کی ایڈیٹنگ سیکھنا شروع کردی تھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے میرا شوق بڑھنے لگا لیکن رکاوٹ اس وقت آئی جب کسی فلم سازی کے ادارے یا میڈیا سائنس کورس میں داخلے کے لیے فیس بھرنے کے پیسے نہیں تھے۔ مشکل وقت تھا لیکن فلم سازی کا شوق سرپر سوار تھا بس پھر دیکھ دیکھ کر کام سیکھا۔‘
ان کے بقول ’ٹو ون زا ٹو‘ فلم ان کی زندگی کی ترجمانی ہے۔
عدیل رئیس کا کہنا تھا کے وہ اپنی فلموں کے ذریعے معاشرے کی عکاسی کرنے کی کوشش کرتے ہیں ان کی زیادہ تر فلمیں سماجی مسائل، تعلیم اور چائلڈ لیبر کے موضوعات پر ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کا مزید کہنا تھا: ’میں یہ کام کسی فائدے کے لیے نہیں اپنی روایات، اپنی زبان کو برقرار رکھنے اور دنیا کو لیاری اور خصوصاً بلوچوں کا مثبت چہرہ دکھانے کے لیے کرتا ہوں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے 2012 میں اپنی پہلی خاموش دستاویزی فلم موبائل فون کی مدد سے بنائی۔ 12 منٹ دورانیے کی اس فلم کا نام ’نیڈ فائر ونگس ٹوورڈز اے نیو لائٹ‘ تھا۔ یہ جب بنائی گئی تب کراچی میں لسانی فسادات اپنے عروج پر تھے۔
عدیل ولی رئیس اب تک 12 ملکی ایوارڈ اور ایک بین الاقوامی ایوارڈ جیت چکے ہیں، ان کی ایک خاموش فلم ’پوسٹر‘ کو گذشتہ سال اٹلی میں ہونے والے مختصر فلموں کے بین الاقوامی فلم فیسٹول میں ’بیسٹ آڈیئنس ایوارڈ‘ سے نوازا گیا۔
عدیل ولی کا کہنا ہے کہ ’پاکستان میں، میں نے ابھی تک کوئی ایسا فلم ساز نہیں دیکھا جو خاموش فلموں پر کام کر رہا ہو اور میں نے خود بھی ہالی وڈ سے متاثر ہوکر خاموش فلمیں بنانے کا فیصلہ کیا۔‘
لیاری میں فلموں کے لیے درکار وسائل کے حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ یہاں ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں ہے لیکن ہمیں اس کے لیے اپنی جیب بھی دیکھنی پڑتی ہے۔
’ہم ساری زندگی تو اپنی جیب سے فلمیں نہیں بناسکتے اگر لیاری کے فلم سازوں کو اچھے آلات اور فلم بنانے کا بجٹ ملے تو پھر آپ دیکھیں کہ صرف لیاری نہیں بلکہ پورے پاکستان کی فلمی صنعت کہاں سے کہاں پہنچ جائے گی۔‘