نگلیریا کا پہلا مریض، پول میں نہانے کے شواہد نہیں: پنجاب حکومت

نگران صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر جاوید اکرم کے مطابق یہ پنجاب کا پہلا کیس ہے لیکن لاہور میں جان سے جانے والے مریض کے سوئمنگ پول میں نہانے کے کوئی شواہد نہیں ملے۔

وزیر صحت کا کہنا ہے ہم ابھی یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ نگلیریا کا وائرس مریض میں کیسے پہنچا، جونہی وجوہات سامنے آئیں گی میڈیا کو بتا دی جائیں گی(اے ایف پی فائل)

صوبہ پنجاب کے نگران وزیر صحت ڈاکٹر جاوید اکرم کا کہنا ہے کہ لاہور میں تین جولائی (بروز سوموار) کو چل بسنے والے نگلیریا کے مریض کے سوئمنگ پول میں نہانے کے شواہد نہیں ملے۔

ہسپتال انتظامیہ کی جانب سے جاری کردہ ڈیتھ سرٹفکیٹ کے مطابق اچھرہ کے رہائشی 31 سالہ مریض کو دو جولائی کو ہسپتال لایا گیا تھا جن کی موت تین جولائی کی شب دل کا دورہ پڑنے سے ہوئی جبکہ ڈیتھ سرٹفیکیٹ میں دل کے دورے کا سبب نگلیریا وائرس تحریر کیا گیا تھا۔

ہسپتال انتظامیہ کی جانب سے کہا گیا تھا کہ ’مریض کے گھر والوں نے بتایا کہ مریض سوئمنگ پول میں نہایا تھا جس کے بعد اس میں وائرس کی علامات ظاہر ہوئیں۔ اہل خانہ نے ایک نجی لیب سے ان کے ٹیسٹ کروائے جس میں ممکنہ نگلیریا وائرس کی تشخیص ہوئی۔‘

اسی حوالے سے نگراں صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر جاوید اکرم نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’یہ رواں سال میں پنجاب کا پہلا کیس ہے لیکن مریض کے سوئمنگ پول میں نہانے کے کوئی شواہد نہیں ملے۔‘

ان کے مطابق ’میں نے پھر بھی واسا اور دیگر ماہرین کو اس مخصوص پول کو چیک کرنے کی ہدایت دی ہے اور کہا ہے کہ اس پول کے پانی کے نمونے لے کر اسے چیک کروایا جائے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’محکمہ صحت نے اس کے علاوہ احتیاطی تدابیر کے طور پر تماام سوئمنگ پولز کو ہدایات بھی جاری کر دی ہیں۔‘

وزیر صحت کا کہنا تھا: ’ہم ابھی یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ نگلیریا کا وائرس مریض میں کیسے پہنچا، جونہی وجوہات سامنے آئیں گی میڈیا کو بتا دی جائیں گی۔‘

دوسری جانب ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ پنجاب کی جانب سے بھی 23 جون کو ایک ایڈوائزری جاری کی گئی تھی جس میں  جولائی کے مہینے میں نگلیریا فاؤلری (Primary amebic meningoencephalitis) کیسسزسامنے آںے کا خدشہ ظاہر کیا گیا تھا۔

 اس حوالے سے ایڈوائزری میں لکھا گیا تھا کہ ’اس وائرس کی علامات گردن توڑ بخار سے کافی ملتی جلتی ہیں۔ اس میں سر درد، تیز بخار، قے، چڑ چڑا پن اور بے چینی جیسی دیگر علامات کے ساتھ ساتھ بدلی ہوئی ذہنی کیفیت یا کومہ بھی شامل ہے۔ جبکہ یہ وائرس تین سے آٹھ روز میں مریض کی موت کا سبب بن سکتا ہے۔‘

ایڈوائزری میں لکھا تھا کہ ’نگلیریا وائرس سوئمنگ پول، نہر، جھیلوں، تالابوں، ندیوں اور گرم چشموں میں پایا جاتا ہے اور تیراکی کے دوران ناک کے ذریعے انسانی جسم میں داخل ہو جاتا ہے۔ یہ وائرس کم پایا جاتا ہے مگر جان لیوا ہوتا ہے۔‘

ایڈوائزری کے مطابق ’ویسے تو یہ وائرس پہلی بار 1965 میں آسٹریلیا میں دریافت ہوا تھا لیکن پاکستان میں کراچی شہر سے اس وائرس سے ہونے والی اموات 2008 سے باقاعدہ طور پر رپورٹ ہو رہی ہیں اور گذشتہ 14 برس میں پاکستان میں اب تک 147 کیس رپورٹ ہوئے ہیں۔‘

ایڈوائزری میں لکھا گیا کہ ’اس وائرس سے موت کی شرح 97 فیصد سے زیادہ ہے۔ کوئی بھی ایسی علامات ظاہر ہوں تو فوری ٹیسٹ کروائے جائیں اور قریبی ہسپتال سے علاج شروع کروایا جائے۔‘

’ایسے پانی کی سپلائیز چاہے وہ پینے کا پانی ہو، جھیلوں، ڈیمز، بورز، ٹینکس، پانی کے ذخائر، پانی کی پائپ لائنز اور سوئمنگ پول جہاں پانی کا معیار اچھا نہیں ہے یا اس میں کلورین شامل نہیں کی گئی، انہیں فوری چیک کیا جائے اور پانی میں کلورین کا استعمال کیا جائے۔‘

ایڈوائزری کے مطابق ’مشتبہ کیسسز کی اطلاع فوری طور پر محکمہ صحت کے حکام کو دی جائے تاکہ ادارہ فوری حرکت میں آ سکے۔‘

ڈی جی ہیلتھ پنجاب کے ترجمان علی رضا نے بتایا کہ ’یہ پنجاب کا پہلا کیس ہے۔ فی الحال ادارہ نیگلیریا کے سامنے آنے والی کیس کی تحقیق کر رہا ہے اور ابھی ہم اسے مشتبہ کیس قرار دے رہے ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کے مطابق ’ہم ابھی لائحہ عمل تیار کر رہے ہیں کہ سوئمنگ پولز اور دیگر پانی کے ذرائع کو کیسے فوری طور پر چیک کیا جائے تاکہ وائرس کی موجودگی کا علم ہو سکے۔ جیسے ہماری تحقیق مکمل ہو گی ہم میڈیا سے تمام تفصیلات شیئر کریں گے۔‘

میو ہسپتال کے ڈاکٹر سلمان کاظمی نے نیگلیریا وائرس کے حوالے سے بتایا کہ ’اس وائرس کو دماغ کھا جانے والا امیبا بھی کہتے ہیں۔ یہ ایک ایسا کیڑا ہے جو ناک کے راستے دماغ میں گھس جاتا ہے اور گردن توڑ بخار کا سبب بنتا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’گردن توڑ بخار بیکٹیریل بھی ہو سکتا ہے اور وائرل بھی ہو سکتا۔ اس میں سر درد، تیز بخار، گردن، ٹانگوں کا اکڑ جانا جیسی علامات سامنے آتی ہیں۔‘

’مریض اس میں بعض اوقات تیز بخار کے سبب بے ہوش بھی ہو جاتے ہیں، جسم پر لال نشان بن جاتے ہیں۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’ابھی گرمیاں شروع ہوئی ہیں اور امیبا پانی میں ہوتا ہے اور آج کل سوئمنگ پولز میں نہانے کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا ہے۔ اگر سوئمنگ پول میں کلورین مناسب مقدار میں نہیں ڈالی گئی یا کوئی نہر کے گندے پانی میں نہائے تو یہ امیبا ناک کے ذریعے جسم میں داخل ہو جاتا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’اس امیبا کے ناک سے دماغ میں داخل ہونے کے بعد مریض کے بچنے کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں۔‘

ان کہ مطابق ’اس کا حل یہی ہے کہ حکومت نہر میں نہانے پر پابندی لگائے۔ سوئمنگ پول والے پانی میں 50 فیصد کلورین ڈالیں تاکہ امیبا مر جائے۔ لوگ گندے پانی میں نہانے سے خود بھی گریز کریں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی صحت