ایران کے بے روزگاروں کا احتجاج

اگرچہ بے روزگار لوگوں کا یہ احتجاج پوری طرح سے کامیاب تو نہیں ہوا مگر اس نے یہ ضرور ثابت کیا کہ ان میں بغاوت کا جذبہ ہے کہ جہاں تک ان کی توانائی ساتھ دے سکتی تھی انہوں نے مزاحمت کی۔

ایرانی شہری 11 فروری 2020 کو انقلاب ایران کے 41 سال مکمل ہونے پر ریلی میں شریک ہیں (اے ایف پی)

1979 کے انقلاب ایران نے ملک میں دو ہزار سالہ بادشاہت کا خاتمہ کر دیا۔ انقلاب سے پہلے ایران میں پہلوی خاندان کی حکومت تھی اور محمد رضا شاہ اس کے حکمران تھے۔

ان کے دور حکومت میں ایک جانب مغربی تہذیب اور جدیدیت آئی مگر اس کا فائدہ اشرافیہ کو ہوا، جس نے خود کو مغربی کلچر میں ڈھال دیا۔ دوسری جانب عوام کی اکثریت تھی جو غربت، مفلسی اور پسماندگی میں رہتی تھی۔ ان حالات کی وجہ سے شاہ کی حکومت کے خلاف بائیں بازو کی کئی تحریکیں اٹھیں جن میں فدائین نے خلق، مجاہدانِ خلق اور تودے پارٹی قابل ذکر ہیں۔

شاہ پر کئی بار قاتلانہ حملہ بھی کیا گیا مگر وہ بال بال بچ گئے۔ شاہ کی حکومت کے خلاف ادیبوں نے بھی اپنی تحریروں کے ذریعے لوگوں میں سیاسی شعور پیدا کیا۔ ان میں سے ایک صمد بہرنگی اپنے افسانے کی وجہ سے بہت مشہور ہوئے۔

اس افسانے کا عنوان ’ماہی سیاح کوچولو‘ تھا۔ اس میں انہوں نے مچھلیوں کی زبانی بتایا کہ انقلاب کیسے لایا جائے۔ صمد بہرنگی کو شاہ کی خفیہ ایجنسی ’ساوک‘ نے اُٹھا لیا اور اذیت کے بعد انہیں قتل کر کے ان کی لاش دریا میں پھینک دی۔

صمد بہرنگی کا یہ افسانہ آج بھی یورپ اور امریکہ کی یونیورسٹیوں میں پڑھائے جانے والے نصاب میں شامل ہے۔

امریکہ کی ایران میں اس وقت دلچسپی ہوئی جب یہاں تیل نکل آیا۔ 1963 میں ایران کے وزیراعظم مصدق نے تیل کی غیر ملکی کمپنیوں کو قومیا دیا گیا۔

محمد رضا شاہ ایران سے فرار ہو گئے مگر سی آئی کی مدد سے وہ واپس آ گئے۔ مصدق کو نظر بند کیا گیا اور پہلے سے زیادہ سختی سے حکومت کی۔ ان کی امریکہ نوازی اور اشرافیہ کی لوٹ کھسوٹ تھی جس کی وجہ سے عوام میں ان کے خلاف نفرت کے جذبات ابھرے اور 1979 میں اسلامی انقلاب نے ان کی بادشاہت کا خاتمہ کیا۔

ایران سے فرار ہونے کے بعد کوئی ملک انہیں پناہ دینے کے لیے تیار نہ تھا۔ آخر میں مصر کے انور سادات نے انہیں پناہ دی اور وہیں ان کی وفات ہوئی۔

ایران کے انقلاب نے نہ صرف بادشاہت کا خاتمہ کیا بلکہ اس کی وجہ سے معاشرے کا سیاسی، معاشی اور سماجی نظام بھی تبدیل ہو گیا۔ انقلاب کے ابتدائی سال میں ایران انتشار کی کیفت میں تھا۔ غیر ملکی تجارتی کمپنیاں اپنا کاروبار بند کر کے واپس چلی گئی تھیں۔ ملک میں کارخانوں کے بند ہونے کی وجہ سے مزدور بے روزگار ہوگئے تھے۔

نوجوان جنہوں نے اپنی تعلیم مکمل کی تھی ان کے لیے سرکاری اور نجی ملازمتوں کے کوئی مواقع نہ تھے۔ انقلابی حکومت ابھی اس قابل نہیں تھی کہ وہ بے روزگاری کا کوئی حل نکال سکے۔ ایران کے شہروں میں مزدور، کاریگر اور ہنر مند معاشی مشکلات کا شکار تھے۔

انقلابی حکومت کی ساری توجہ اس پر تھی کہ اس کے خلاف جو گروپ اور جماعتیں ہیں، ان کی سرگرمیوں کو ختم کیا جائے۔ حکومت نے اپنی حمایت کے لیے پاسداران انقلاب کو منظم کیا جن کا یہ فرض تھا کہ وہ بائیں بازو کی تحریکوں کا مقابلہ کریں۔

ابتدا میں حکومت کی جانب سے جن شرعی قوانین کا نفاذ ہوا تھا ان کے خلاف سیکولر اور لبرل جماعتوں نے آواز اٹھائی۔ جب عورتوں کے لیے حجاب کو لازمی قرار دیا گیا تو انہوں نے تہران میں اس کے خلاف ایک بڑا مظاہرہ کیا گیا، لیکن بائیں بازو یا لبرل جماعتوں کے لیے اس وقت عوامی مقبولیت میں کمی آئی جب 1980 میں ایران، عراق جنگ شروع ہوئی اور لوگوں کی توجہ اس طرف ہو گئی۔

مذہبی جماعتوں کو بائیں بازو کے گروپوں پر یہ فوقیت تھی کہ ان کے پاس مذہبی ادارے تھے۔ مسجدیں اور دینی مدارس تھے۔ جس کی وجہ سے عام لوگوں کا ان سے رابطہ رہتا تھا۔

ایرانی معاشرے میں مجتہد کی اہمیت تھی۔ لوگ اپنے سماجی مسائل کے لیے انہی کی طرف جاتے تھے۔ اس لیے مذہبی انقلاب نے مذہبی جماعتوں کو سیاسی طاقت دے دی۔ ان کی معاشی صورت حال بھی مستحکم تھی۔ کیونکہ وقف کی جائیدادوں کی آمدنی ان کو معاشی مجبوریوں سے آزاد کر دیتی تھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بے روزگاری کی ایک وجہ یہ تھی کہ سنیما، تھیٹر، نائٹ کلبز اور مہنگے ہوٹل بند ہو گئے تھے۔ انقلابی حکومت کے لیے زوال شدہ کلچر کے ادارے تھے، لیکن اس کی وجہ سے تہران شہر میں تقریباً 3000 لوگ بے روزگار ہو گئے۔

مزید 1.52 ملین لوگ بھی بے روزگار ہوئے جن میں وہ لوگ بھی تھے جو دوسرے شہروں سے آئے تھے اور روزانہ کی بنیادوں پر کام کرتے تھے۔

جب ان کی تعداد زیادہ بڑھی اور معاش کے مسائل مزید سختی کی طرف چلے تو کچھ وقت تو انہوں نے اپنے خاندان اور برادری کی مدد سے گزارا کیا لیکن بے روزگاری کا یہ کوئی حل نہیں تھا۔

عام لوگوں کو انقلاب کی کامیابی کے لیے بڑی امیدیں تھیں لیکن آہستہ آہستہ ان میں مایوسی پیدا ہوئی اور بے روزگاروں کو یہ احساس پیدا ہوا کہ انہیں مطالبات کے لیے آواز اٹھانا ہو گی۔

چنانچہ ایران کے تمام بڑے شہروں میں جن میں تہران، طبریز، اسفہان اور آبادان شامل تھے، وہاں بے روزگاروں نے اپنی تنظیمیں قائم کیں اور بے روزگاری کے خلاف احتجاج شروع کیا۔

تہران میں دو سو بے روزگاروں نے بھوک ہڑتال کی اور مطالبہ کیا کہ انہیں ملازمتیں دی جائیں یا بے روزگاری کی صورت میں سوشل سکیورٹی دی جائے۔ بے روزگاروں نے حکمرانوں سے مل کر انہیں اپنے مسائل سے آگاہ کیا، مگر حکومت کی جانب سے کوئی توجہ نہیں دی گئی۔

ورکرز نے مجبور ہو کر لیبر منسٹری کے احاطے میں احتجاج کیا۔ انہوں نے ایک پمفلٹ کے ذریعے عوام سے اپیل کی کہ وہ ان کا ساتھ دیں۔ ان کی حمایت میں مزید 700 کے قریب ورکرز جمع ہو گئے اور ہڑتال کے ذریعے حکومت پر دباؤ ڈالنا چاہا۔

ایک ورکر کا کہنا تھا کہ ’جب سے وہ بے روزگار ہوا ہے نہ اس کے گھر میں کھانے کو ہے اور نہ ہی بچوں کی تعلیم کا کوئی ذریعہ  ہے‘۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بے روزگاری نے غربت اور مفلسی کے اندھیرے غار میں دھکیل دیا تھا۔

حکومت کی جانب سے پاسداران انقلاب بھوک ہڑتال کرنے والوں پر حملہ کیا اور ہوائی فائرنگ سے خوف و ہراس پیدا کیا۔ اگرچہ حکومت نے بے روزگاروں سے وعدے تو کیے مگر ان پر کوئی عمل نہیں ہوا۔

وقت کے ساتھ صورت حال میں تبدیلی آئی جب انقلابی حکومت کو استحکام ملا تو دوبارہ سے کارخانے کھولے گئے اور مزدوروں کو ملازمتیں دی گئیں۔ تجارت میں بھی ترقی ہوئی اور مہنگائی میں بھی کمی آئی۔

آہستہ آہستہ مزدوروں کی جماعتوں نے یہ اندازہ لگا لیا کہ ان کے احتجاج، بھوک ہڑتال اور مظاہروں کے باوجود حکومت نے ان کے مطالبات نہیں مانے اس لیے انہوں نے روزگار کے مختلف ذرائع دریافت کیے۔ کچھ فیکٹریوں میں واپس چلے گئے۔ کچھ نے بازاروں میں اپنے سٹال لگائے اور کچھ نے کاریگری کے مختلف شعبوں میں اپنے لیے جگہ بنائی۔

اگرچہ بے روزگار لوگوں کا یہ احتجاج پوری طرح سے کامیاب تو نہیں ہوا مگر اس نے یہ ضرور ثابت کیا کہ ان میں بغاوت کا جذبہ ہے کہ جہاں تک ان کی توانائی ساتھ دے سکتی تھی انہوں نے مزاحمت کی۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ