خیبر پختونخوا کے ضلع چترال میں واقع دنیا کے بلند ترین شندور پولو گراؤنڈ میں سالانہ پولو فیسٹیول شروع ہوچکا ہے، جس میں چترال اور گلگت بلتستان کی ٹیمیں مد مقابل ہیں۔
فیسٹیول کو دیکھنے کے لیے ملکی و غیر ملکی سیاح شندور میں موجود ہیں، جس کے انتظامات خیبر پختونخوا کے محکمہ سیاحت نے چترال کی ضلعی انتظامیہ اور اپر و لوئر چترال سکاؤٹس کے اشتراک سے کیے ہیں۔
ہر سال منعقد کیا جانے والا شندور میلہ پولو کی تاریخ میں انتہائی اہمیت کا حامل ہے، جو سات ہزار میٹر سے زائد کی بلندی پر منعقد ہوتا ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو نے کچھ تحقیقی مقالوں اور پولو کی تاریخ پر نظر رکھنے والے مقامی مورخین سے بات کی ہے تاکہ یہ جانا جاسکے کہ اس فیسٹیول کا آغاز کب اور کیسے ہوا؟
پولو کیا ہے؟
شندور فیسٹیول کی تاریخ سے پہلے یہ جانتے ہیں کہ پولو کیا ہے اور یہ کیسے کھیلا جاتا ہے۔ امریکہ کے پولو میوزیم کی ویب سائٹ پر موجود ایک مضمون کے مطابق پولو کو کھیل اور جنگ کے لیے تربیت کے طور پر کھیلا جاتا تھا۔
یہ گیم خانہ بدوش کھیلتے تھے، جس کا آغاز فارسی ریجن (ماڈرن ایران) میں تقریباً 600 قبل مسیح میں ہوا، جسے زیادہ تر شاہی افسران یا فوج سے تعلق رکھنے والے لوگ کھیلتے تھے۔
اسی ویب سائٹ کے مطابق یہ کھیل بعد میں چین، جاپان اور انڈیا سے ہوتا ہوا دیگر ممالک تک پھیل گیا، جس میں اس زمانے میں ہر ایک ٹیم میں 100 کھلاڑی حصہ لیتے تھے۔
مضمون کے مطابق جدید پولو انڈیا کی ریاست منی پور میں مقبول ہوا تھا اور 1859 میں برطانوی فوجی افسران اور چائے کے زمینداروں نے سلچر پولو کلب کی بنیاد تب رکھی تھی جب برٹش افسر لیفٹیننٹ جوئے شیرر نے مقامی لوگوں کو پولو کھیلتے ہوئے دیکھا تھا۔
اسی کھیل کو کھیلتے ہوئے جوئے شیرر نے کہا تھا: ’ہمیں یہ کھیل کھیلنا ہے،‘ اور تب سے یہ گیم مقبول ہو کر انڈیا سے ہوتا ہوا 1868 میں مالٹا پہنچ گیا۔
اسی طرح مضمون کے مطابق برطانیہ میں یہ گیم 1869 میں مقبول ہوا، آئرلینڈ میں 1870، ارجنٹینیا میں 1872 اور آسٹریلیا میں 1874 میں مقبول ہوا۔برطانیہ میں پولو کا پہلا میچ وینچسٹر کی سٹی رائڈنگ اکیڈمی میں 1876 میں کھیلا گیا تھا۔
ایشیا میں یہ کھیل انڈیا سے ہوتا ہوا بعد میں برصغیر میں مقبول ہوگیا۔ ’ٹریول کلچر‘ نامی ویب سائٹ پر موجود تاریخی مقالے کے مطابق 1920 میں چترال اور گلگت کے مابین تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے اس وقت کے بادشاہ نے پولو ٹورمنٹ منعقد کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
اس وقت کے ایک برطانوی افسر کرنل ہےکوب نے پولو کو بلند مقام پر چاند کی روشنی میں کھیلنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا جس کے لیے شندور کا انتخاب کیا گیا کیونکہ شندور بلندی پر واقع ہے تو وہاں پر چاند کی روشنی بھی قریب سے پڑتی ہے اور یوں شندور میں 1930 کی دہائی میں پولو ٹورنامنٹس کا انعقاد شروع ہوا۔
کھیل کے دوران کھلاڑیوں کو صرف ایک گھوڑے کے استعمال کی اجازت تھی اور میچ کو صرف کسی کھلاڑی کی شدید چوٹ لگنے کے باعث ہی ختم کرنے کی اجازت تھی۔
شندور کے مقام پر پولو ٹورنامنٹ گلگت اور چترال کی ٹیموں کے مابین کھیلا جاتا ہے۔ گلگت اور چترال کا ایک دوسرے کے ساتھ سرحدی تنازع کئی دہائیوں سے چلا آ رہا ہے اور اس گیم کو اسی مقصد کے لیے شروع کیا گیا تھا۔
شندور پولو فیسٹیول اور اس سے منسلک قصے!
شندور میں پولو کھیلنے کے حوالے سے کچھ پرانے قصے اور روایات بھی مشہور ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ٹریول کلچر نامی ویب سائٹ پر موجود مقالے کے مطابق اُس زمانے میں جب تاریخ کو ریکارڈ بھی نہیں کیا گیا تھا، ایک بادشاہ نے خدا سے اپنی لاپتہ اہلیہ کی واپسی کی دعا کی تھی۔
روایت کے مطابق دعا کے بعد بادشاہ پر یہ شرط عائد کی گئی تھی کہ اہلیہ کی واپسی تب ہی ممکن ہوسکتی ہے جب وہ اپنے دو بیٹوں کا سر قلم کریں گے اور یوں بادشاہ کو ایک طاقتور گھوڑا دیا گیا اور انہیں بلتستان کی ایک پہاڑی کی جانب جانے کو کہا گیا۔
شندور سے تقریباً دو سو میل دور وہ اس پہاڑی پر اپنے دو بیٹوں کے سروں کے ساتھ پہنچ گئے۔ اس مقام پر پہنچنے کے بعد انہیں کہا گیا کہ وہ اپنی چھڑی سے ان دو سروں کو پہاڑ کی ایک تنگ بند گلی پر ماریں اور یوں بادشاہ نے ایسا ہی کیا۔
مقالے کے مطابق دلچسپ بات یہ ہے کہ بلتستان کے پولو پہاڑ پر بھی ایسی ہی ایک تنگ جگہ موجود ہے اور اس کے پاس ہی پولو کا ایک میدان بھی موجود ہے، جو اس واقعے سے ملتا جلتا ہے۔
اسی مقالے میں درج ہے کہ یہ کھیل قدیم زمانے میں بھیڑ بکریوں کے سروں کے ساتھ کھیلا جاتا تھا جبکہ چنگیز خان کے زمانے میں یہ کہا جاتا ہے کہ دشمن کے سروں کے ساتھ بھی یہ گیم کھیلا گیا ہے۔
پولو میں کس قسم کے گھوڑے استعمال کیے جاتے ہیں؟
چترال کے شاہی خاندان سے تعلق رکھنے والے شہزادہ ریاض الدین گذشتہ تقریباً 40 سال سے پولو کھیل رہے ہیں اور انہوں نے گھر میں پولو کے لیے گھوڑے پال رکھے ہیں۔
ریاض الدین نے گھوڑوں کے لیے باقاعدہ اصطبل بنا رکھا ہے، جہاں وہ مختلف نسل کے گھوڑے رکھتے ہیں۔
ریاض الدین نے بتایا کہ پولو کے لیے گھوڑا ایک لاکھ سے لے کر 10 لاکھ روپے تک میں خریدا جاتا ہے اور اسے پولو کھیلنے کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ پولو میں استعمال ہونے والے گھوڑے وہ پنجاب یا پشاور سے خریدتے ہیں۔
ریاض الدین نے اپنے گھوڑے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ یہ گھوڑا انہوں نے پشاور سے ڈیڑھ لاکھ روپے میں خریدا تھا اور ابھی یہ جوان گھوڑا ہے جو مختلف پولو مقابلوں میں حصہ لے چکا ہے۔
گھوڑے کے ماہانہ خرچے کے حوالے سے ریاض الدین نے بتایا کہ زیادہ تر یہ چوکر اور مکئی وغیرہ کھاتے ہیں اور مہینے کا خرچہ 20 سے 25 ہزار تک ہے، جب کہ بعض لوگ اسے پالنے کے لیے خصوصی ملازم رکھتے ہیں، جسے 30 ہزار روپے تک ماہانہ تنخواہ دیتے ہیں۔
ریاض الدین نے بتایا کہ ان کے آباؤ اجداد بھی پولو کھیلتے تھے اور پرانے زمانے میں چونکہ گاڑیوں کا رواج نہیں تھا تو ہر کوئی گھوڑا پالتا تھا۔
بقول ریاض الدین: ’پولو کا کھیل یہاں صدیوں سے چلا آ رہا ہے۔ دیگر علاقوں میں نوابوں اور خوانین کی طرح چترال کے شاہی خاندان کے شہزادوں کو مہتر کہا جاتا ہے۔ صدیوں سے پولو مہتر خاندان سے تعلق رکھنے والے کھلاڑی کھیلتے تھے اور انہوں نے ہی اس کھیل کو چترال اور گلگت میں مقبول کیا ہے۔
’اس زمانے میں چترال میں جو شخص پولو کے لیے گھوڑا رکھتا تھا تو مہتر اسے گھوڑے کا خرچہ دیتے تھے جبکہ پولو کے کھلاڑی کو زمین بھی مہتر کی جانب سے دی جاتی تھی۔‘