جرمنی سے تعلق رکھنے والی میڈلین ہوفمین سائیکل پر سفر کرکے کراچی پہنچی ہیں، جنہیں یہاں کے نہ صرف کھانے پسند آئے بلکہ وہ لوگوں کی مہمان نوازی سے بھی بہت متاثر ہوئیں لیکن ساتھ ہی اہل کراچی کی مشکلات پر انہیں دکھ بھی ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو نے میڈلین سے خصوصی گفتگو کی، جس کے دوران انہوں نے بتایا کہ کس طرح انہوں نے اپنے والد سے ملنے کے لیے سب سے پہلے سائیکل پر ترکی کا سفر کیا تھا اور پھر یہ سلسلہ رکا نہیں اور اب تک وہ مشرق وسطیٰ سمیت بہت سے ممالک کا سفر اپنی سائیکل پر کر چکی ہیں۔
بقول میڈلین انہوں نے گذشتہ 11 ماہ کے دوران اپنی سائیکل پر 18 ممالک کے کامیاب سفر کیے ہیں اور اب وہ کراچی کو ایکسپلور کرنے میں مصروف ہیں۔
26 سالہ میڈلین پیشے کے اعتبار سے فیشن ڈیزائنر ہیں اور ان دنوں آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں مقیم ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں میڈلین نے بتایا کہ سات سال پہلے انہیں معلوم ہوا کہ ان کے والد ترک ہیں تو وہ حیران رہ گئیں۔ بقول میڈلین انہوں نے ’اپنے آدھے اصل کو دریافت کرنے اور خود کو تلاش کرنے‘ کے سفر پر جانے کا فیصلہ کیا۔
میڈلین جرمنی سے سائیکل پر روانہ ہوئیں اور ساڑھے چار ماہ کے طویل سفر کے بعد ترکی کے وسطی صوبے قیصری میں اپنے والد سے ملاقات کی اور تقریباً سات ہفتے ان کے ساتھ ترکی میں گزارے۔
میڈلین نے بتایا کہ وہ جرمنی سے سفر کرتے ہوئے ترکی پہنچیں۔ راستے میں فرانس، سوئٹزرلینڈ، اٹلی، کروشیا، سلووینیا، مونٹی نیگرو، بوسنیا ہرزیگووینا، البانیہ اور یونان سے ہوتی ہوئی گزریں۔
انہوں نے اس سفر کے لیے اپنی ملازمت سے استعفیٰ دے دیا تھا کیونکہ بقول میڈلین اب ان کا یہی مقصد تھا یعنی نئی ثقافتوں کو جاننا، راستے کے خوبصورت مناظر دیکھنا اور یہ سفر اب ان کی خوشی کی وجہ بننے لگا۔
انہوں نے بتایا کہ مشرق وسطیٰ میں اردن، سعودی عرب اور دبئی کے سفر کے بعد اب وہ بذریعہ سائیکل پاکستان کے شہر کراچی پہنچی ہیں۔
میڈلین کے مطابق: ’پاکستان کے حوالے سے میڈیا پر بہت سی منفی خبریں سنی تھیں لیکن سعودی عرب میں کچھ پاکستانیوں سے ملاقات ہوئی، جس کے بعد اندازہ ہوا کہ پاکستانی لوگ بہت مہربان، مہمان نواز اور ملنسار ہوتے ہیں، اسی لیے میں نے ٹھان لی کہ اگلی منزل پاکستان ہے اور اپنی اسی سائیکل پر سفر کرکے میں کراچی پہنچی ہوں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے بتایا کہ کراچی کے کھانوں میں حلوہ پوری، بریانی اور انڈہ پراٹھا انہیں بہت پسند آیا جبکہ کراچی کے لوگ بہت سخی ہیں۔
میڈلین نے کراچی میں اردو کے کچھ الفاظ بھی سیکھے ہیں۔ انہوں نے بتایا: ’میں نے پاکستان میں چند الفاظ سیکھے ہیں جیسے انشا اللہ، ماشا اللہ، شکریہ۔ میں مزید سیکھنے کی کوشش کر رہی ہوں۔ شاید یہاں کچھ دن اور رہ کر میں اردو کے مزید الفاظ بولنا سیکھ جاؤں گی۔‘
انہوں نے کلفٹن، فریئر ہال، برنس روڈ اور صدر کا بھی دورہ کیا۔ اس کے بعد وہ اپنی سائیکل پر کراچی سے لاہور جائیں گی اور واہگہ بارڈر دیکھیں گی اور جب اپنے وطن واپس جائیں گی تو پاکستان کا مثبت چہرہ دکھائیں گی۔
بقول میڈلین: ’مجھے معلوم تھا، یہ میرے لیے جسمانی اور ذہنی طور پر کافی چیلنجنگ ہو سکتا ہے لیکن مجھے لگتا ہے کہ مجھے ایڈونچر پسند ہیں۔‘
میڈلین نے مزید بتایا کہ سائیکل ایک ماحول دوست سواری کے ساتھ ساتھ جسمانی صحت کے لیے بھی بہترین ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ان کی سائیکل پر لگے چار بیگز میں ان کی ضرورت کا تمام سامان موجود ہے، جس میں بستر ٹینٹ اور سائیکل کی مرمت کے اوزار موجود ہیں۔
’کراچی والوں کی زندگی بہت مشکل‘
میڈلین نے اپنے سفر کے حوالے سے بتایاکہ ایک دن وہ کراچی میں پالتو جانوروں کے بازار میں پہنچیں، جہاں جانوروں کی حالت دیکھ کر وہ دکھ میں مبتلا ہو گئیں۔
بقول میڈلین: ’شدید گرمی میں جانوروں کو چھوٹے سے پنجرے میں قید رکھا گیا تھا، جس میں وہ حرکت بھی نہیں کر پا رہے تھے۔ بلیاں، کچھوے، کتے اور دیگر جانور سست اور بیمار دکھائی دے رہے تھے۔‘
انہوں نے کراچی کی کچی آبادی اورنگی ٹاؤن اور لیاری کا بھی رخ کیا جہاں کے مکینوں سے انہیں معلوم ہوا کہ لوگ صرف تین گھنٹے ہی بجلی استعمال کر سکتے ہیں اور باقی سارا دن لوڈشیڈنگ کا مسئلہ انہیں اذیت دیتا ہے جبکہ پانی اور گیس کی سہولت سے بھی شہری محروم دکھائی دیے اور علاقوں میں جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر پڑے ہوئے دکھائی دیے۔
میڈلین نے کراچی والوں کی زندگی کو مشکل قرار دیتے ہوئے کہا: ’مجھے دکھ ہے کہ انسان اس حال میں کیسے گزارہ کر رہے ہیں۔‘
ساتھ ہی انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ کراچی والوں کو بنیادی ضروریات سے محروم نہ رکھا جائے اور انہیں سہولیات فراہم کی جائیں۔