انڈیا کی سپریم کورٹ نے جموں و کشمیر کی نیم خودمختار حیثیت سے متعلق آئین کے آرٹیکل 370 کی منسوخی کے حوالے سے پٹیشنوں پر دو اگست سے روزانہ کی بنیاد پر سماعت کا فیصلہ کیا ہے۔
پانچ اگست 2019 کو انڈیا کی وفاقی حکومت نے اپنے زیر انتظام کشمیر کو آرٹیکل 370 کے تحت حاصل خصوصی آئینی حیثیت منسوخ کردی تھی۔
جموں و کشمیر کی نیشنل کانفرنس اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) سمیت کئی جماعتوں نے انڈیا کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت کے پانچ اگست 2019 کے فیصلے کے خلاف پٹیشن میں اعتراض اٹھایا تھا کہ اس غیرآئینی اور غیرقانونی فیصلے کو کالعدم قرار دیا جائے کیونکہ اس میں مقامی قانون ساز اسمبلی کی نہ تو مرضی شامل ہے اور نہ عوام کو اس بارے میں اعتماد میں لیا گیا ہے۔
انڈین سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ، جسٹس سنجے کشن کول، جسٹس سنجیو کھنہ، جسٹس بی آر گوائی اور جسٹس سوریہ کانت پر مشتمل پانچ رکنی بینچ نے منگل کو ان درخواستوں پر پہلی سماعت کی۔
سماعت کے بعد سپریم کورٹ نے ہدایت دی کہ جموں و کشمیر میں آرٹیکل 370 کی منسوخی سے متعلق درخواستوں کی سماعت دو اگست سے پیر اور جمعے کے علاوہ روزانہ کی بنیاد پر کی جائے گی۔
عدالت عظمیٰ نے بیوروکریٹ شاہ فیصل اور سابق طلبہ لیڈر صالحہ راشد کو درخواست گزار کے طور پر دستبردار ہونے کی اجازت بھی دی۔
سپریم کورٹ نے دستاویزات کی تیاری کے لیے دو وکلا کو نوڈل کونسل کے طور پر مقرر کیا۔
مزید کہا گیا کہ تحریری گذارشات 27 جولائی کو یا اس سے پہلے جمع کروائی جائیں اور اس میں مزید اضافے کی اجازت نہیں ہوگی۔
آرٹیکل 370 کیا ہے؟
انڈین آئین کی اس شق کے مطابق ریاست جموں و کشمیر کو خصوصی حیثیت کا درجہ حاصل تھا، جس کے تحت ریاست دفاع، امورِ خارجہ، مالیات اور مواصلات کے علاوہ باقی تمام امور میں خود مختار تھی اور انڈین آئین کے دیگر حصوں کا نفاذ ریاستی اسمبلی کے اتفاق ہی سے ممکن تھا۔
اسی طرح اس قانون کے تحت ریاست کے شہریوں کو انڈیا کے دیگر شہریوں سے مختلف حقوق حاصل تھے، جس کی وجہ سے اس آرٹیکل کے تحت ریاست کے شہریوں کے علاوہ کوئی اور شخص یہاں غیر منقولہ جائیداد نہیں خرید سکتا تھا، یہاں نوکری نہیں کر سکتا اور نہ کشمیر میں آزادانہ طور پر سرمایہ کاری کر سکتا ہے۔
آرٹیکل 370 کے خاتمے کے حوالے سے کشمیریوں کو خدشہ تھا کہ اگر یہ دفعہ ختم ہوگئی تو کروڑوں کی تعداد میں غیر مسلم آباد کار یہاں آ کر ان کی زمینوں، وسائل اور روزگار پر قابض ہو جائیں گے۔
یہی وجہ تھی کہ کسی بھی قسم کے احتجاجی مظاہروں سے نمٹنے کے لیے انڈیا نے پہلے ہی وہاں موجود فوجیوں کی تعداد میں اضافہ کر دیا اور خطے میں کافی عرصے تک کرفیو لگا کر انٹرنیٹ سروسز بھی معطل کردی تھی۔
آرٹیکل 370 کے تحت انڈین صدر صرف جموں و کشمیر کی آئین ساز اسمبلی کی ایڈوائس پر ہی آرٹیکل 370 کو ختم کر سکتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تاہم انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں آئین ساز اسمبلی 1957 میں توڑ دی گئی تھی جس کی جگہ قانون ساز اسمبلی نے لے لی۔ 2018 میں انڈیا کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اور کشمیر کی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کے درمیان اتحاد ختم ہونے کے بعد قانون ساز اسمبلی برطرف کر دی گئی تھی۔
اہم بات یہ ہے کہ آرٹیکل 370 کے خاتمے سے متعلق انڈین صدر کے حکم میں قانون ساز اسمبلی کے لفظ کو گورنر جموں و کشمیر سے بدل دیا گیا۔ اس طرح گورنر کی رضامندی کو ریاست کی رضامندی کے طور پر استعمال کیا گیا۔
یہ نکتہ بھی اہمیت کا حامل ہے کہ پاکستان نے کشمیر کے انڈیا کے ساتھ الحاق اور آرٹیکل 370 کو جموں و کشمیر پر انڈین دعوے کی بنیاد کے طور پر کبھی تسلیم نہیں کیا۔ پاکستان کا مؤقف رہا ہے کہ کشمیر کے مہاراجہ ہری سنگھ نے پہلے پاکستان کے ساتھ معاہدہ کیا تھا اور کشمیر پر انڈیا کا جبری قبضہ ریاست کی مسلم اکثریتی آبادی کی خواہشات کے خلاف ہے۔
اس فیصلے کے فوری بعد پاکستانی دفتر خارجہ کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں انڈین اقدام کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ ’انڈیا کا زیر انتظام کشمیر ایک عالمی تسلیم شدہ متنازع علاقہ ہے اور چونکہ پاکستان اس عالمی مسئلے کا حصہ ہے لہذا وہ اس غیر قانونی اقدام کو روکنے کے لیے ہر ممکنہ آپشن استعمال کرے گا۔‘
آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد پاکستان نے انڈیا کے ساتھ سفارتی تعلقات کم کرتے ہوئے تجارت معطل کرنے کا اعلان بھی کیا تھا۔