اس فلم کے ڈائریکٹر سٹیون سوڈربرگ نے ایک بار کہا تھا کہ ’سیکس، لائز اینڈ ویڈیو ٹیپ‘ کے بارے میں خیال اُس وقت ان کے دماغ میں آیا جب وہ ایک ناکام رومانوی رشتے کا سامنا کر رہے تھے جس کے بارے میں انہوں نے یہ اعتراف کیا کہ وہ اپنے ساتھی کے ساتھ بے وفائی اور دھوکہ دہی میں ملوث تھے۔
دوسرے معنی میں یہ فلم درحقیقت ایک تھراپی کی حیثیت سے بنائی گئی تھی۔ سوڈربرگ اصل میں گراہم کے کردار کے ذریعے خود کو اور اپنے ہی موضوعات کو جاننے کی کوشش کر رہے تھے۔
کاغذ پر اور اس کے ٹائٹل ’سیکس، لائز اینڈ ویڈیو ٹیپ‘ سے یہ فلم بظاہر زیادہ مصالحے دار معلوم ہوتی ہے لیکن شاید ہمیں فلم میں اتنی فحاشی دیکھنے کو نہ ملے۔
اگرچہ ان تینوں کرداروں سے فلم آگے بڑھتی ہے لیکن اس کا شہوت انگیز موضوع فلم کے ٹھنڈے ماحول سے میل نہیں کھاتا یا یوں کہا جاسکتا ہے کہ یہ ایک شہوانی سنسنی سے بہت ہٹ کر ہے۔ اگرچہ سوڈربرگ نے بعدازاں 2013 میں ایسی ایک اور کوشش ’سائیڈ ایفیکٹ‘ فلم میں کی تھی۔
امریکی ریاست لوزیانا کے شہر بیٹن روز میں بنائی گئی اس فلم میں اداکارہ اینڈی میکڈوویل نے این کا کردار ادا کیا تھا۔ این جو ایک دقیانوسی گھریلو خاتون ہیں، اپنی تباہ حال شادی شدہ زندگی کے خاتمے سے انکاری ہیں اور جس نے اپنی جنسی خواہشات کا گلہ گھونٹ دیا تھا۔
پیٹر گیلیجر نے این کے بدقماش شوہر جان، ایک خوبرو وکیل، کا کردار نبھایا ہے جو این کی نفس پرست بہن کینتھیا کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کر لیتا ہے۔
کینتھیا این کے شوہر کے ساتھ اپنے رومانوی تعلق کو لے کر اپنی ہی بہن کو شرمندہ کرتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تینوں ہی کردار خود کو دھوکہ دے رہے ہوتے ہیں اور ایک طرح سے اس کی پردہ پوشی بھی، تب ایک اور کردار سامنے آتا ہے۔ جان کے گہرے دوست گراہم کی آمد سے ان تینوں کی زندگیوں میں خلل پیدا ہو جاتا ہے۔
گراہم ایک عجیب و غریب شخصیت کا مالک ہوتا ہے جو خواتین سے ان کی جنسی اور نجی زندگی کے بارے میں ویڈیو ٹیپنگ کے ذریعے انٹریوز ریکارڈ کرکے تسکین حاصل کرتا ہے۔
گراہم کی آمد نے جیسے اس سارے دیرینہ جذباتی بارود کو چنگاری مہیا کر دی تھی لیکن ان کی خاموشی اور خفیہ مشاہدے نے ان کے اپنے ہی مسائل کو دور کردیا۔
فلم کو بیک وقت آسان اور پیچیدہ پرتوں میں بنایا گیا ہے جو اس چھوٹی سی کاسٹ کے کرداروں، ان کے فریب اور ان کے باہمی تعلقات پر مرکوز ہے۔
یہ سوڈربرگ کے کیریئر کی پہچان اور ان کی فلمی زندگی کا مفصل حصہ ہے۔ شاید یہ خود شناسی اور جنسی تعلقات کے حوالے سے ان کا سب سے بڑا شاہکار تھا۔ خاص طور پر دیکھا جائے تو گراہم کا کردار جزوی طور پر ہدایت کار کی اپنی ہی برائیوں اور ندامت پر مبنی ہے۔
ان کی بعد میں آنے والی زیادہ تر فلموں میں اس قدر شہوت انگیز قربت کی قابلِ ذکر مثالیں نہیں ملتیں لیکن کچھ فلموں جیسا کہ ’آؤٹ آف سائٹ‘ کو اس سے مستثنیٰ قرار دیا جا سکتا ہے۔
ہر شے خود کر گزرنے کی حکمت عملی اپناتے ہوئے دونوں آرٹ اور مین سٹریم شائقین کے لیے کئی کامیاب فلمیں بنانے والے سوڈربرگ 90 کی دہائی میں پاپ گروپ فلم سازی کے عروج کے آخری نظریاتی منکرین میں سے ایک تھے۔ یہ وہ وقت تھا جب انہوں نے 1989 میں پہلی نیریٹیو فیچر فلم ’سیکس، لائز اینڈ ویڈیو ٹیپ‘ کے ذریعے فلمی صنعت میں تہلکہ مچا دیا تھا۔
سٹیوین سوڈربرگ کو بطور فلم ساز بیان کرنا ہمیشہ سے مشکل کام رہا ہے۔ بیک وقت بطور دانشور اور ثقافتی معاملات سے بیگانہ شخصیت کے، انہوں نے اپنے 30 سالہ کیریئر میں سولیرز، میجک مائک، شزوپولس اور اَن سین جیسی مختلف بجٹ کی فلمیں تخلیق کیں۔
اس پیش رفت کو ایک دہائی کے دوران اپنی فلمیں نہ لکھنے سے منسوب کیا جاسکتا ہے اور یہ فیصلہ بعد میں سنیماگرافی اور ایڈیٹنگ کے شعبے میں ان کے حق میں ہی گیا۔
بعد میں ان کی توجہ فلم کی نمائش کے نئے طریقوں کی تلاش پر ہو گئی (ان کی فلم ’ببل‘ سینما گھروں میں نمائش کے ساتھ ساتھ ٹی وی پر نشر کی گئی تھی)۔ اب نئی ڈیجیٹل فلم سازی کی تکنیک (جس میں حال ہی میں آئی فون سے شوٹنگ کے لیے ان کی خواہش شامل ہے) اور ٹی وی شو کے ذریعے فن کے باہمی عمل کا تجربہ قابل ذکر ہے۔
سوڈربرگ ’سیکس، لائز اینڈ ویڈیو ٹیپ‘ نامی اس پوری فلم میں صرف چار مقامات دکھاتا ہے اور شہر سے باہر کچھ بھی نہیں۔ اس کی بجائے وہ چار کرداروں کو مختلف عمارتوں کے مناظر تک محدود رکھتا ہے۔
یہ تھیٹر کی طرح محسوس ہوسکتا تھا اگر سوڈربرگ کی ایڈیٹنگ اور غیرمطابقت پذیر آواز اس میں شامل نہ ہوتی۔ جوں جوں فلم آگے بڑھتی ہے یہ کِلف مارٹنیز کی بنائی گئی دھنوں کی وجہ سے ایک خواب کی طرح کم ہی محسوس کی جا سکتی ہے۔
چونکہ این اور گراہم کے مابین ہونے والی بات چیت انٹرویوز کی طرح چل رہی تھی اس وجہ سے فلم پر سرد یا بے دلی کا الزام لگایا جاسکتا ہے لیکن یہ پھر بھی جلد ہی فروخت ہو رہی تھی۔
گراہم کی فلم بندی یکطرفہ اور مصنوعی جنسی عمل جیسا ہے۔ جس میں کسی اِن پٹ کی ضرورت نہیں ہے اور جہاں وہ دور رہ سکتا ہے۔
اپنے اور سامنے والے کے مابین فاصلہ برقرار رکھتے ہوئے کیمرہ ان کا خواتین کے قریب ہونے کا ایک محض ایک ذریعہ ہے۔
این مجبوری اور سرکشی کی وجہ سے جسمانی تعلق کے لیے ان کی طرف راغب ہوتی ہے۔
وہ دونوں جنسی تعلقات کی پیچیدہ اور جذباتی کیفیت سے فرار کی تلاش میں ہیں اوراس تعلق کو ترک کرکے اپنی زندگی کو آسان بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔
یہی وہ مقام ہے جو ’سیکس، لائز اینڈ ویڈیو ٹیپ‘ کو 80 کی دہائی کے ناقابل قبول ہالی وڈ سنیما سے جداگانہ بناتا ہے۔ اس وقت فلم کے ڈائیلاگ جسمانی حرکات سے زیادہ اہم محسوس ہوتے ہیں۔
فلم میں جسمانی خواہش کی فلاسفی اُس دہائی کی کئی رنگین فلموں کا بخوبی مقابلہ کرتی ہے۔
فلم کے جذباتی پن اور اس کی پریزنٹیشن کے مابین کئی تضاد موجود ہیں۔ فلم کا اختتام بستر پر ایک ساتھ سونے والے دو کرداروں کی بات چیت کے گرد گھومتا ہے۔
یہ جنسی تعلق کے اس پہلو کی طرف اشارہ کرتا ہے جہاں سکون صرف بے حسی لاتا ہے اور نئی ٹیکنالوجی کو تنہائی سے بچنے کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔
سوڈربرگ نے بعدازاں کہا تھا کہ یہ فلم آج بھی معقول طور پر ’وکٹورین‘ نظر آتی ہے لیکن طاقت کی اس لڑائی میں ان کے خدشات ابھی بھی پرانے نہیں ہوئے ہیں۔
اگرچہ یہ فلم اب جتنی معمولی نظر آتی ہے، ریلیز کے وقت اس نے فلم انڈسٹری میں ایک مثال قائم کی تھی اور یہ آنے والی فلموں کے لیے مشعل راہ تھی۔
اس نے امریکی آزاد سینما کو ہمیشہ کے لیے بدل دیا تھا- اگرچہ یہ اس نوعیت کی واحد یا پہلی فلم نہیں تھی لیکن اس وقت اس کی مقبول کامیابی بے مثال تھی۔ اس فلم نے پامے ڈی آر ایوارڈ جیت لیا تھا (سوڈربرگ یہ ایوارڈ جیتنے والے کم عمر ترین ہدایت کار تھے جہنوں نے 27 سال کی عمر میں یہ کارنامہ انجام دیا تھا) اور محض 12 لاکھ ڈالر کے بجٹ سے بننے والی اس فلم نے دنیا بھر سے 10 کروڑ ڈالر کما لیے تھے۔
اس فلم کی کامیابی سے وہ لمحہ بھی آیا جب معمولی اور کم بجٹ سے بننے والی فلمیں تجارتی اعتبار سے قابل عمل بن گئیں یہاں تک کہ ہالی وڈ کے ’بڑے‘ بھی اس ڈور میں شامل ہو گئے۔
اس تحریک کا اختتام سنڈانس جیسے تہواروں کی کمرشلائزیشن کے ساتھ ہوا جو بنیادی طور پر ہالی وڈ میں قسمت آزمانے والے آزاد فلم سازوں کے لیے آڈیشن کا اڈہ بن گیا۔
اس دور کی سب سے نمایاں پیشرفت میں سے ایک باب اور ہیروی وائن سٹائن کی میرامیکس کمپنی کی مقبولیت کا عروج تھا، جس نے امریکہ میں خود کو آزاد فلموں اور غیر ملکی تقسیم کار کمپنی کے چیمپیئن کے طور پر کھڑا کیا تھا۔ بعد میں یہ دونوں شخصیات بدنام ہوگئیں اور ان کو کئی سنگین الزامات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
تاہم یہاں تک کہ جب سوڈربرگ کو فلم سازی کے لیے بڑا بجٹ ملنا شروع ہو گیا، ان کے کیریئر کی وضاحت مزید مشکل ہوگئی جو مین سٹریم شائقین کو خوش کرنے اور نئے تجربات کے درمیان الجھ کر رہ گئے۔ ’آؤٹ آف سائٹ‘، ’اوشن سیریز‘ اور ’لوگان لکی‘ میں یہ چیز نمایاں طور پر محسوس جا سکتی ہے۔
اس کے بعد کے 30 سالوں میں اپنے دلچسپی کے کئی موضوعات پر کام کرنے کے باوجود ’سیکس، لائز اینڈ ویڈیو ٹیپ‘ شاید سوڈربرگ کی اس فطرت کا واضح ترین ثبوت ہے جس میں وہ تضادات سے بھرپور آرٹسٹ کی حیثیت سے سامنے آئے تھے۔
تب سے انہوں نے روایتی سٹوڈیو سسٹم کو تبدیل کیا ہے یا اسے ترک کرنے کی کوشش کی ہے اور ایسی فلمیں بنائیں جو عجیب و غریب، انقلابی، صاف گو اور پُرلطف ہیں یا مذکورہ بالا سب کا مجموعہ ہیں۔
’سیکس، لائز اینڈ ویڈیو ٹیپ‘ نے فلمی صنعت کی نمائندگی کی اور اس کے سحر سے بالاتر ہو کر اس نے ہمیں سکھایا کہ ہم کیمرے سے کس طرح بات چیت کرتے ہیں اور یہ ہمارے لیے کیا معنی رکھتا ہے۔ یہ شاید ڈائریکٹر کے طور پر سوڈربرگ کے مخصوص مزاج کا بہترین نمونہ ہے۔ تکنیکی امنگ اور ٹھنڈے مزاج کے امتزاج سے سوڈربرگ امریکی سنیما کی مضبوط ترین شخصیت کے طور پر سامنے آئے تھے۔
© The Independent