پاکستان کے شہر لاہور میں دریائے راوی کے دونوں اطراف تعیمر کیے جانے والے پہلے ماڈل شہر کو سیلابی پانی سے بچانے کے لیے راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی (روڈا) نے گذشتہ کئی سالوں کے ریکارڈ کی بنیاد پر جدید حکمت عملی بنانے کا دعویٰ کیا ہے۔
پاکستان میں قدرتی آفات سے متعلق ادارے نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کے 9 جولائی کو جاری کیے گئے الرٹ میں بتایا گیا کہ ’انڈیا نے ایک لاکھ 85 ہزار کیوسک پانی اجھ بیراج سے دریائے راوی میں چھوڑ دیا ہے۔ ریکارڈ کے مطابق گذشتہ سال بھی ہندوستان نے ایک لاکھ 73 ہزار کیوسک پانی چھوڑا تھا۔‘
ریکارڈ کے مطابق جب انڈیا میں ڈیموں کی تعمیر سے قبل بھی 1988 میں دریائے راوی میں پانچ لاکھ کیوسک تک پانی چھوڑا گیا تھا۔
شہر لاہور میں دریائے راوی کے اطراف بننے والے نئے ماڈل شہر میں جدید عمارات کی تعمیر کے منصوبے شامل ہیں۔
حکام کے مطابق دریائے راوی میں نہ صرف سیلابی پانی کو کنٹرول کرنے کا بندوبست کیا جا رہا ہے بلکہ لاہور شہر سے آنے والے سیوریج کے پانی کو بھی ٹریٹمنٹ کے بعد صاف کر کے یہاں بننے والی ندیوں میں بہایا جائے گا۔
بلند ترین عمارات کے درمیان بہتی ندیوں میں پانی سے اس کی خوب صورتی کو برقرار رکھا جائے گا۔
ماہرین تعمیر کے مطابق ’ہر دریا میں تعمیرات کا طریقہ کار الگ ہوتا ہے اور تعمیرات کی اجازت کے وقت ماہرین موجود ہوتے ہیں، جو تعیمرات کی اجازت دینے یا نہ دینے کی اتھارٹی رکھتے ہیں۔‘
روڈا ترجمان کے بقول ’اس نئے تعمیر ہونے والے شہر میں جدید طرز تعمیر کو اپنایا جا رہا ہے، جہاں شہریوں کو ہر طرح کی سہولتیں اور مواقع فراہم کیے جائیں گے۔
’یہاں تعمیرات کے حوالے سے ماہرین کی مشاورت سے ہر طرح کے حفاظتی اقدامات کو پہلے ہی مد نظر رکھا گیا ہے۔‘
تعمیرات کو سیلاب سے بچانے کے اقدامات
روڈا کے ترجمان کرنل (ر) محمد عابد نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں دعویٰ کیا کہ روڈا منصوبہ ہی سیلابی پانی کو کنٹرول کرنے کا واحد حل ہے کیونکہ اس منصوبے کے تحت دریا کو درمیان سے ایک کلو میٹر تک کشادہ اور گہرا کرنا ہے۔
’ابھی تو دریا بالکل نالے کی طرح بہہ رہا ہے۔ ہم نے تین سطح پر بیراج بنانے ہیں جن کی مدد سے سیلابی پانی کو کنٹرول کیا جا سکے گا۔‘
انہوں مزید تفصیلات دیتے ہوئے کہا کہ سب سے بڑا بیراج شاہدرہ کے مقام پر بنے گا جبکہ دریا کے دونوں پشتوں کو پختہ بنانے کا کام جاری ہے۔
’پانچ کلو میٹر تک پشتے کو ایک سائیڈ سے پختہ کیا جاچکا ہے جبکہ دوسری سائیڈ بھی دو سال کے عرصے میں پختہ کر لی جائے گی۔‘
کرنل (ر) محمد عابد کے بقول ’ہم نے مختلف محکموں کی مدد سے ایک سال پرانا ریکارڈ مدنظر رکھ کر حکمت عملی بنائی ہے۔
’جب یہ منصوبہ مکمل ہو گا تو یہاں پانچ لاکھ 80 ہزار کیوسک سے زیادہ پانی کی گنجائش موجود ہو گی۔‘
انہوں نے کہا کہ انڈیا نے سب سے زیادہ پانی 1988 میں چھوڑا تھا جو پانچ لاکھ کیوسک تھا اور اس وقت سرحد کے پار دریائے راوی پر ڈیم موجود نہیں تھے۔‘
ترجمان روڈ نے دعویٰ کرتے ہوئے کہا: ’نئے بیراج بننے سے سیلابی پانی کو مکمل طور پر کنٹرول کیا جا سکے گا۔‘
روڈا ریکارڈ کے مطابق ماڈل شہر کا منصوبہ ایک لاکھ 10 ہزار ایکڑ زمین پر تعیمر کیا جا رہا ہے، جس میں سے 40 ہزار ایکڑ دریائے راوی کے اندر واقع ہے۔
پچیس سالہ اس منصوبے میں کمرشل، رہائشی، تفریحی، صنعتی اور صحت سٹی کے فیزز بنائے جائیں گے، جبکہ تین بڑی جھیلیں، جن میں سب سے بڑی سات کلو میٹر طویل ہو گی۔
دریا میں تعمیراتی منصوبے کا تجربہ
پاکستان میں دریا کے اندر اتنے بڑے پیمانے پر بننے والا یہ اپنی نوعیت کا سب سے بڑا تعمیراتی منصوبہ ہے جسے کئی دہائیوں سے بنانے پر غور کیا جاتا رہا، تاہم پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے دوران 2018 میں اس منصوبہ پر عملی کام تیز کیا گیا۔
دریاؤں میں تعمیرات کے حوالے سے ماہرین کی رائے اور اجازت کو لازمی قرار دیا جاتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
نیشنل کالج آف آرٹس لاہور شعبہ آرکیٹیکچر کے سربراہ فیصل سجاد نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’ہر دریا میں تعمیرات سے متعلق الگ طریقہ کار ہوتا ہے۔ کوئی دریا سوکھا ہوتا کسی میں پانی بہہ رہا ہوتا ہے۔
’لہذا جس دریا میں بھی تعمیرات کا منصوبہ بنتا ہے تو سب سے پہلے متعلقہ محکموں میں موجود ماہرین کی رائے لی جاتی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ماہرین ہر دریا کی صورت حال کو مد نظر رکھ کر وہاں تعمیرات کی اجازت دیتے ہیں۔ ’اگر تعمیر ممکن نہ ہو تو وہ منع کر دیتے ہیں۔‘
فیصل سجاد کے مطابق ’اس میں سب سے زیادہ خیال ماحولیاتی اثرات کا بھی رکھا جاتا ہے، جس کے بعد دریا کے خشک حصوں میں تعمیرات کو پانی آنے کی سورت میں کیسے بچایا جا سکے گا پر غور کیا جاتا ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’جہاں تک روڈا کی دریائے راوی میں تعمیرات کا تعلق ہے تو یقینی طور پر متعلقہ محکموں میں موجود ماہرین سے پہلے اس بارے میں رائے ضرور لی گئی ہوں گی۔‘
فیصل سجاد نے کہا کہ ’دریا میں عمارات کے حوالے سے وسیع طور پر جائزہ لے کر ٹیکنالوجی کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ جیسے دریائے ستلج میں کم پانی آتا ہے، کبھی کبھی آتا ہے۔ اسی طرح دریائے سوات میں ہر وقت پانی رہتا ہے، تو اس میں مختلف طریقہ کار اختیار کرنا پڑتا ہے۔
’اس لیے حتمی طور پر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ہر دریا میں تعمیرات ممکن ہوتی ہیں۔ اس لیے سب سے ضروری سروے اور ماہرین کا جائزہ لینا لازمی ہے۔ پھر ہی کوئی فیصلہ ممکن ہوتا ہے۔ کیونکہ ہر ادارے میں جائزہ لینے والے ماہرین ضرور ہوتے ہیں۔‘