یوکرین اور پولینڈ کے حکام نے اتوار کو انتباہ جاری کیا ہے کہ یوکرین میں روس کے لیے لڑنے والے ویگنر گروپ کے جنگجو بیلاروس پہنچ چکے ہیں۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق بیلاروس کی حکومت کے مطابق یہ جنگجو دارالحکومت منسک کے جنوب مشرقی علاقے میں بیلاروس کی افواج کو تربیت دیں گے۔
یوکرین کی بارڈر ایجنسی کے ترجمان اندرے ڈیم چینکو نے ٹیلی گرام پر جاری ایک بیان میں کہا کہ ’ویگنر بیلاروس پہنچ چکے ہیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ روس سے آنے والے الگ الگ گروہوں کی بیلاروس میں نقل و حرکت کا مشاہدہ کیا جا رہا ہے۔
تاہم روئٹرز کے دو قریبی ذرائع نے کچھ ویگنر جنگجوؤں کی گذشتہ منگل سے بیلاروس میں ہونے کی تصدیق کی ہے۔
دوسری جانب بیلاروس کی وزارت دفاع کی جمعے کو جاری کردہ ایک ویڈیو میں ویگنر جنگجوؤں کو بیلاروس کی افواج کو تربیت دیتے دیکھا جا سکتا ہے۔
ادھر روس کے صدر ولادی میر پوتن کا کہنا ہے کہ ویگنر کا بیلا روس جانا اس معاہدہ کا حصہ ہے جس کے تحت نیم فوجی گروپ کی جون میں بغاوت کی کوشش ختم ہوئی۔
جون میں ویگنر نے روسی فوجی ہیڈکوارٹر پر قبضہ کر کے روس کی طرف پیش قدمی شروع کر دی تھی۔ نجی فوج نے روس کو خانہ جنگی میں دھکیلنے کی دھمکی دی تھی۔
ویگنر کے سربراہ یوگینی پریگوزین کو 24 جون کو جنوبی روسی شہر روستوو آن ڈان چھوڑنے کے بعد سے منظر عام پر نہیں دیکھا گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پولینڈ کے نائب وزیر خصوصی خدمات کے رابطہ کار ستینسلاو زرین نے کہا کہ وارسا کو بھی بیلاروس میں ویگنر کے جنگجوؤں کی موجودگی کی تصدیق ہوئی ہے۔
قبل ازیں اس ماہ پولینڈ کہہ چکا ہے کہ وہ کسی بھی ممکنہ خطرے سے نمٹنے کے لیے بیلاروس کے ساتھ اپنی سرحد کو مضبوط بنا رہا ہے۔
بیلاروسی صدر الیگزینڈر لوکاشینکو نے ماسکو کو فروری 2022 میں یوکرین پر مکمل حملے کے لیے بیلاروسی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت دی تھی اور اس کے بعد سے اپنے ملک کو روسی جوہری ہتھیاروں کے اڈے کے طور پر استعمال ہونے دیا۔
بیلاروسی ہجون پروجیکٹ، جو ملک میں فوجی سرگرمیوں پر نظر رکھتا ہے، نے کہا کہ کم از کم 60 گاڑیوں کا ایک بڑا قافلہ روس سے جمعے کی رات بیلاروس میں داخل ہوا۔
ہجون نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ ویگنر کا دستہ وسطی بیلاروس میں سیل شہر کی طرف جا رہا تھا، جہاں غیر ملکی صحافیوں کو گذشتہ ہفتے سینکڑوں خالی خیموں کے ساتھ ایک کیمپ دکھایا گیا تھا۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق یوکرین سے بیلاروس داخلے کے لیے طویل عرصے بند مقام پر موجود کیموفلاج گارڈ اولیگ جنہوں نے کلاشکوف اٹھا رکھی تھی، نے کہا کہ انہوں نے تقریباً ڈیڑھ سو میٹر کے فاصلے پر سرحد کے پار ویگنر کے جنگجوؤں کے کوئی آثار نہیں دیکھے۔
یوکرین کی فوج نے کہا کہ وہ بیلاروس کے ساتھ سرحد کو خندقوں اور بارودی سرنگوں کی مدد مزید محفوظ بنا رہی ہے کیوں کہ ماسکو کے اعلیٰ افسروں کے خلاف بغاوت ختم ہونے کے بعد کچھ روس کے کچھ نجی فوجیوں کے ملک میں داخلے کی توقع کی جا رہی تھی۔
سلاوتیچ کے سرحدی داخلی راستے پر گشت کرنے والے 26 سالہ اولیگ نے کہا کہ یوکرین ویگنر سمیت روس کی افواج کو پسپا کرنے کے لیے تیار ہے۔ یہ راستہ گذشتہ سال 24 فروری سے بند ہے جب روسی فوجیں حملے کے آغاز پر بیلاروس سے چرنیگیف کے علاقے میں داخل ہوئیں۔
بغاوت کرنے والے ویگنر فوجیوں کے مستقبل کے حوالے سے غیر یقینی صورت حال برقرار ہے۔ ماسکو اور منسک کے درمیان معاہدے کے بعد کچھ ویگنر جنگجوؤں کو بیلاروس منتقل ہونا چاہیے تھا۔
بیلاروس کی وزارت دفاع نے جمعے کو تصدیق کی کہ ویگنر کم از کم کچھ جنگجو ملک میں پہنچ چکے ہیں اور مقامی فوجیوں کو تربیت دے رہے ہیں۔
یوکرین کے صدر ولودی میر زیلنسکی نے اس پیشرفت کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یوکرین سکیورٹی کے نقطہ نظر سے وہاں کی صورت حال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے اور فی الحال کوئی بڑا خطرہ لاحق نہیں ہے۔