’ایسے لگ رہا تھا کہ جیسے کوئی خفیہ کارروائی ہو رہی ہے، جس سے میڈیا کو دور رکھا جا رہا تھا۔ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ آخر ایسی کیا وجہ ہے کہ ہال کے چاروں اطراف سے میڈیا کے کیمروں کو ہٹایا جا رہا ہے حالانکہ ہم نے تو ہمیشہ دیکھا ہے کہ سیاسی جماعتیں میڈیا کو دعوتیں دے دے کر نہیں تھکتیں کہ ان کے تقاریب کی کوریج کی جائے۔‘
نجی نیوز چینل ’ہم نیوز‘ سے وابستہ صحافی انور زیب بھی پشاور کے علاقے جھگڑا میں ایک مقامی شادی ہال کے باہر موجود تھے، جہاں سابق پی ٹی آئی رہنما پرویز خٹک کی نئی سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف پارلیمینٹیرین کی بنیاد رکھی گئی۔
انور زیب نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ابتدا میں انہیں واضح طور پر دفتر سے کہا گیا تھا کہ اگر میڈیا کوریج سے منع کیا ہے تو اخلاقی طور پر ہمیں وہاں نہیں جانا چاہیے، تاہم بعد میں ہمارے کچھ صحافی دوستوں کو حراست میں لیے جانے کی خبر آنے کے بعد ہماری ٹیم وہاں پہنچ گئی۔
انہوں نے بتایا: ’ہم جب وہاں پہنچے تو صرف ہمارے چینل کی گاڑی تھی، جسے دیکھ کر پولیس نے بتایا کہ گاڑی کو یہاں سے ہٹائیں کیونکہ کوریج پر پابندی ہے، ہم نے ایسا ہی کیا جبکہ جن پولیس اہلکاروں سے بات ہو رہی تھی، ان کے ساتھ ہمارے صحافی دوست بھی نظر آ رہے تھے، جو حراست میں تھے۔‘
انور زیب نے بتایا: ’ہمارے چار دوستوں کو ایک درخت کے نیچھے کھڑا کردیا گیا اور ان سے موبائل فون لے لیے گئے تھے، جنہیں بعد میں تقریباً چھ گھنٹے بعد پریس کلب اور خیبر یونین آف جرنلسٹ کی درخواست پر رہا کردیا گیا۔‘
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سابق صوبائی صدر پرویز خٹک کی نئی سیاسی جماعت کی اس طرح تشکیل تو ہوگئی لیکن کیا یہ خیبر پختونخوا میں دو بار حکومت بنانے والی سیاسی جماعت پی ٹی آئی کا مقابلہ کر پائے گی؟ انڈپینڈنٹ اردو نے اس حوالے سے رائے جاننے کے لیے مختلف تجزیہ کاروں سے رابطہ کیا۔
لحاظ علی پشاور میں مقیم صحافی ہیں اور سیاسی معاملات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ پرویز خٹک کی جانب سے نئی سیاسی جماعت بنانے کا واحد مقصد پی ٹی آئی کا ’ووٹ بینک حاصل کرنا‘ ہے۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا: ’خوف یہ ہے کہ اگر پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کو جیل بھیج دیا گیا تو پی ٹی آئی بغیر سربراہ کے رہ جائے گی، تو پرویز خٹک چاہتے ہیں کہ وہ خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کے ووٹ حاصل کر سکیں۔‘
تاہم لحاظ علی نے بتایا کہ خیبر پختونخوا کی سیاست دیگر صوبوں سے قدرے مختلف ہے کیونکہ اس صوبے میں ووٹ برادری کو نہیں جاتا بلکہ عوام پارٹی کو ووٹ دیتے ہیں اور ہم نے ماضی میں بھی دیکھا ہے تو پرویز خٹک کا مقصد بھی یہی ہے کہ پارٹی خیبر پختونخوا تک محدود رہے۔
پرویز خٹک کی نئی سیاسی جماعت کے حوالے سے لحاظ علی نے بتایا: ’پچھلے دنوں بھی جو میٹنگ ہوئی تھی، اس میں ایک شخص بھی دوسرے صوبے سے نہیں تھا، تو اس طرح یہ جماعت تو اس صوبے کی ہوگی لیکن یہ نیشنلسٹ جماعت نہیں ہوگی۔‘
اس سوال کے جواب میں کہ کیا ماضی میں بھی اس طریقے سے خفیہ طور پر کسی سیاسی جماعت کی بنیاد رکھی گئی ہے؟ لحاظ علی نے بتایا کہ ماضی میں اس طرح سیاسی جماعتیں بنی ضرور ہیں لیکن میڈیا پر ایسی پابندی نہیں دیکھی کہ سیاسی جماعت کی تشکیل کی کوریج پر پابندی ہو۔
انہوں نے بتایا کہ ’50 کی دہائی میں ڈاکٹر خان صاحب (خان عبدالجبار خان) نے پارٹی بنائی تھی اور وہ بھی اسی طریقے سے بنائی گئی تھی کہ آئندہ عام انتخابات میں حصہ لے سکے اور پرویز خٹک نے بھی ایسی ہی پارٹی بنائی ہے تاکہ آئندہ عام انتخابات میں پی ٹی آئی کا مقابلہ کر سکے۔‘
بقول لحاظ علی: ’مسلم لیگ ق کو ہی دیکھ لیجیے کہ وہ پارٹی بھی ایسی ہی بنائی گئی تھی لیکن بعد میں اب اس کا وجود تو موجود ہے، لیکن وہ برائے نام پارٹی ہے۔‘
کیا پرویز خٹک کی جماعت پی ٹی آئی کا مقابلہ کر پائے گی؟ اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’پرویز خٹک صرف اس بات کا انتظار کر رہے ہیں کہ اگر عمران خان کو جیل بھیج دیا جائے یا پی ٹی آئی پر پابندی لگائی جائے تو وہ پارٹی کے ووٹ حاصل کر سکیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا: ’اس پارٹی کے بننے کے بعد بھی پی ٹی آئی کے کچھ لوگ شاید آزاد حیثیت سے انتخابات میں حصہ لیں گے اور پرویز خٹک کی کوشش ہوگی کہ ایک اتحادی حکومت خیبر پختونخوا میں قائم کر سکیں۔‘
’شاید کچھ لوگوں کی مجبوریاں ہوں‘
پی ٹی آئی کے سابق رکن صوبائی اسمبلی کامران بنگش نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وہ پرویز خٹک کی پارٹی بنانے پر ان کو نیک تمنائیں پیش کرتے ہیں اور کوئی بھی سیاسی جماعت کو ہم اپنا حریف سمجھیں گے اور انتخابات میں مقابلہ کریں۔
انہوں نے بتایا، ’شاید لوگوں کی کچھ مجبوریاں ہوں اور وہ پرویز خٹک کی جماعت میں شامل ہوں گے۔ یہ ہمارے مشران رہ چکے ہیں اور ہم ان کی قدر کرتے ہیں۔‘
میبنہ پارٹی فہرست میں شامل اراکین کی پارٹی میں شمولیت کی تردید
گذشتہ روز پرویز خٹک کی سیاسی جماعت کے اعلان کے بعد صحافیوں کو ایک پریس ریلیز اور ساتھ میں ایک فہرست بھی بھیجی گئی تھی، جس میں صوبے کے مختلف سابق اراکین کی تصاویر اور نام درج تھے کہ ان افراد نے پرویز خٹک کی جماعت میں شمولیت اختیار کر لی ہے۔
اس فہرست کے حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو نے پرویز خٹک کی پارٹی میٹنگ میں موجود اراکین سے تصدیق کی کوشش کی لیکن اس فہرست میں موجود تقریباً 30 میں سے 20 افراد کے موبائل نمبر بند تھے اور ان سے کوئی رابطہ نہیں ہو پا رہا تھا۔
ابھی تک انڈپینڈنٹ اردو کو پرویز خٹک کی پارٹی میں شامل اراکین میں سے کسی سے بھی اس لسٹ کی تصدیق نہیں ہوئی، لیکن لسٹ میں موجود تقریباً 10 افراد نے پرویز خٹک کی پارٹی میں شمولیت کی تردید کی ہے اور بعض نے تو ویڈیو پیغام بھی جاری کیا ہے۔
ان افراد میں پی ٹی آئی کے سابق رکن اسمبلی اعظم خان، مردان کے افتخار مشوانی، مانسہرہ کے فرید صلاح الدین، قلندر لودھی، ملاکنڈ کے مصور خان، ضیااللہ بنگش، وزیر زادہ، تاج محمد، باجوڑ کے انور زیب خان اور مشتاق غنی شامل ہیں۔
ابتدا میں یہ خبریں سامنے آ رہی تھیں کہ پرویز خٹک کے ساتھ 57 کے قریب سابق اراکین صوبائی اسمبلی شمولیت کا اعلان کریں گے لیکن بعد میں مبینہ لسٹ جاری کی گئی، جس میں 33 کے قریب اراکین شامل تھے جبکہ بعض مخصوص نشستوں پر سابق اراکین اسمبلی بھی لسٹ میں موجود تھے۔
اب 33 میں سے 10 کے قریب اراکین نے پرویز خٹک کی پارٹی میں شمولیت کی تردید کی ہے اور بتایا ہے کہ وہ پی ٹی آئی میں ہیں اور عمران خان کے ساتھ رہیں گے۔
مبصرین سمجھتے ہیں کہ میڈیا کو کوریج سے روکنے اور 10 کے قریب اراکین کے تردیدی بیانات سے پارٹی نے پہلے ہی دن خود کو متنازع کردیا ہے۔
’پی ٹی آئی کا ووٹ تقسیم ہوسکتا ہے‘
ارشد عزیز ملک پشاور پریس کلب کے صدر اور پشاور میں روزنامہ جنگ کے ایڈیٹر ہیں، جن کا کہنا ہے کہ پرویز خٹک نے پارٹی تو بنا لی ہے لیکن وہ عوامی لیڈر نہیں ہیں بلکہ صرف ’سیاسی جوڑ توڑ کے ماہر‘ ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے بتایا: ’عمران خان کی شخصیت اور عوامی پذیرائی کے مقابلے میں پرویز خٹک بالکل برابر نہیں ہیں اور اس صوبے میں ماضی میں اگر پی ٹی آئی نے حکومت کی ہے تو وہ صرف عمران خان کی عوامی پذیرائی کی وجہ سے کی ہے۔ ‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تاہم ارشد عزیز کے مطابق: ’یہ ضرور ہے کہ پی ٹی آئی کے ووٹ بینک کو تقسیم کیا جا سکتا ہے، جس طرح پنجاب میں پی ٹی آئی کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا، ایسا ہی عمل خیبر پختونخوا میں کیا گیا اور اب انتخابامی عمل کو دیکھا جائے گا۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’2013 اور 2018 کے عام انتخابات میں جن اراکین نے پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر الیکشن جیتا تھا، ان افراد کا اپنا ووٹ بینک نہیں تھا بلکہ وہ عمران خان اور پی ٹی آئی کی وجہ سے جیتے تھے تو اب پرویز خٹک کے ساتھیوں کا مستقبل میں پتہ چلے گا کہ وہ عمران خان کے علاوہ کسی اور نام سے کتنا ووٹ حاصل کر پائیں گے۔‘
تاہم ارشد عزیز ملک کے مطابق: ’یہ ضرور ہے کہ اگر پرویز خٹک کی پارٹی اور پی ٹی آئی کا امیدار میدان میں ہے تو پی ٹی آئی کا ووٹ ضرور تقسیم ہو سکتا ہے اور اس کا فائدہ کسی تیسری جماعت کو ملے گا اور یہ بھی دیکھا جائے گا کہ کیا پی ٹی آئی کو لیول پلینگ فیلڈ یعنی دیگر پارٹیوں کی طرح انتخابی مہم اور فیئر انتخابات کا موقع ملے گا بھی یا نہیں۔‘
ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ’پی ٹی آئی کی جڑیں اب مضبوط ہوچکی ہیں اور دبانے سے یہ پارٹی اب ختم نہیں ہوگی تاہم انتخابی عمل میں مداخلت کر کے پارٹی کو ہروا ضرور سکتے ہیں۔‘
عادل شاہ زیب ڈان ٹی وی کے حالات حاظرہ کے پروگرام کے میزبان ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ بلاشبہ پرویز خٹک خیبر پختونخوا میں سیاست کے بڑے کھلاڑی ہیں اور انہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
تاہم عادل کے مطابق یہ کہنا قبل ازوقت ہوگا کہ پرویز خٹک کی جماعت، پی ٹی آئی کو کتنا سیاسی نقصان پہنچائے گی۔
عادل شاہ زیب نے بتایا: ’پی ٹی آئی جس طرح بنائی گئی تھی، اسی طرح تحلیل ہو رہی ہے۔ سیاسی انجینیئرنگ کل بھی غلط تھی اور آج بھی غلط ہے لیکن پی ٹی آئی کو اس نہج پر پہنچانے میں عمران خان کا بھی ہاتھ ہے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’پرویز خٹک اور محمود خان کی اکھٹے پی ٹی آئی چھوڑنا، پی ٹی آئی کے لیے بڑا جھٹکا ہے اور پرویز خٹک کی جماعت میں مزید لوگ بھی شامل ہوجائیں گے اور پرویز خٹک ایسے راز کھولیں گے جس سے پی ٹی آئی میں موجود اراکین کے لیے کام کرنا مشکل ہوجائے گا۔‘