سندھ اسمبلی اجلاس کے دوران سندھ کے وزیر برائے اقلیتی امور گیان چند ایسرانی نے کہا ہے کہ سندھ میں کشمور کے علاقے غوث پور میں مندر پر حالیہ حملہ سیما رند (سیما حیدر) نامی خاتون کی ہندو لڑکے سے مبینہ شادی کا ردعمل ہو سکتا ہے۔
شمالی سندھ کے ضلع کشمور کندھ کوٹ کے کچے میں اتوار کو علی الصبح ہندو برادری سے تعلق رکھنے والے افراد کی عبادت گاہ پر مبینہ طور پر راکٹ لانچروں سے حملہ کیا گیا تھا۔
غوث پور میں مندر پر حملے کرنے کا مقدمہ پولیس کی مدعیت میں آٹھ نامعلوم ملزمان پر درج کر لیا گیا ہے۔ مقدمے میں دہشت گردی ایکٹ کے تحت دفعات شامل کی گئیں۔
گیان چند ایسرانی نے اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا: ’پاکستان میں رہنے والے ہندو محب وطن پاکستانی ہیں اور وہ اپنی زندگی، کاروبار اور عبادات مکمل آزادی سے برابری کی بنیاد پر کررہے ہیں۔ حملہ کرنے والے بھی پاکستانی ہیں، لہٰذا میں ان سے کہتا ہوں کہ اس طرح کے واقعات ملک کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ یہاں بسنے والے ہندو ہزاروں سال سے یہاں آباد ہیں اور انہیں بھی یہاں مکمل آزادی حاصل ہے۔
صوبائی وزیر نے کہا: ’میں سمجھتا ہوں کہ اس طرح کے حملے پاکستان کے خلاف پڑوسی ملک کی سازش ہے اور ایک پلاننگ کے تحت ہمارے پڑوسی ملک نے یہ عمل کروایا ہے تاکہ پاکستان کی بدنامی ہو لیکن یہاں ہمارے شہری باشعور ہیں اور انہیں نے ہمیشہ اپنی اقلیتوں کا تحفظ کیا ہے۔
’یہاں مثالی بھائی چارہ قائم ہے، یہاں ایک ہی جگہ مسجد اور مندر قائم ہیں یہاں سب کو مکمل مذہبی آزادی حاصل ہے۔ ہماری اقلیتوں نے ایسی صورت حال کا ہمیشہ ڈٹ کر مقابلہ کیا ہے اور اپنا نقصان بھی برداشت کیا ہے۔‘
صوبائی وزیر نے مزید کہا کہ وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے بھی سخت نوٹس لیا ہے اور وہ بھی اس حوالے سے آئی جی سندھ سے رابطے میں ہیں جب کہ وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کی بھی اقلیتوں کے حوالے سے خصوصی ہدایات ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ مندروں کی سکیورٹی کے حوالے سے احکامات دے دیے ہیں اور آٸی جی سندھ سے کہہ کر تمام اقلیتی برادری کے مکمل تحفظ کا بندوبست کیا جا رہا ہے۔
وزیر داخلہ سے ملاقات
سندھ میں ہندو برادری کو دھمکیاں ملنے کے معاملے پر رکن قومی اسمبلی کھیئل داس کوہستانی کی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ سے ملاقات ہوئی جس میں کھیئل داس نے سندھ میں رونما ہونے والے حالیہ واقعات سے وزیرداخلہ کو آگاہ کیا۔
کھئیل داس کوہستانی نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ سندھ کے مختلف اضلاع میں امن و امان کی صورت حال گذشتہ ایک سال سے خراب ہے۔ ’کچے کے ڈاکو خطرناک اسلحے کے ساتھ بیٹھے ہیں۔‘
چند روز قبل ڈاکوؤں نے دھمکی دی تھی کہ اگر سیما کو انڈیا سے واپس نہیں لایا گیا تو وہ ہندوؤں کی عبادت گاہوں پر حملہ کریں گے۔
کھیئل داس کا کہنا تھا: ’سیما حیدر کو میں نہیں جانتا کون ہے اور کہاں سے آئی ہیں لیکن اسی کو جواز بنا کر ہندو کمیونٹی کو دھمکیاں دی گئی ہیں۔ کچے کے ڈاکوؤں نے جو کہا وہ کر کے دکھایا اور غوث پور کے مندر پر ہونے والا حملہ اسی کا نتیجہ ہے۔ سندھ حکومت کو چاہیے وہ وفاق سے پاک فوج یا رینجرز کی سیکورٹی طلب کرے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کھئیل داس کے مطابق: ’یہ مذہب کا معاملہ نہیں امن و امان کا معاملہ ہے۔ کچے کے ڈاکو پولیس کو بھی نشانہ بنا رہے ہیں۔ ہندو برادری اس واقعے کے بعد سے پریشان ہے۔ ہماری مذہبی رسومات کی ادائیگی میں رکاوٹ آرہی ہے جبکہ کافی لوگ نقل مکانی کر کے کراچی کا رخ کررہے ہیں اور نقل مکانی کے باعث ان کا معاشی نقصان ہو رہا ہے لیکن جان کا تحفظ بھی ضروری ہے اس وقت جو سکیورٹی سندھ میں دی جا رہی ہے وہ ناکافی ہے۔‘
ایس ایس پی کشمور عرفان سموں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’غوث پور تھانے کی حدود میں راکٹ لانچر کا حملہ ہوا ہے لیکن یہ مندر نہیں بلکہ ڈیرہ ہے جو ساول شاہ کے نام سے منسوب ہے۔ جس میں ایک کمرہ بنا ہوا ہے۔ ہندو برادری کی باگڑی برادری یہاں اپنی مذہبی رسوموت کی ادائیگی کے لیے آتی ہے جس کے لیے یہ ہر سال کھلتا ہے۔‘
عرفان سموں کی تحقیقات کے مطابق: ’حملہ آوروں نے غوث پور تھانے کی حدود میں ایک عبادت گاہ اور اس سے ملحقہ آگاہی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے گھروں پر حملہ کیا، انہوں نے اندھا دھند فائرنگ کی اور حملے کے بعد ملزمان موقعے سے فرار ہو گئے۔
’ڈیرے کی دیوار کے ساتھ ایک گھر ہے نادر نامی شخص کا، جو ہندو ہے۔ ماضی میں ڈاکو نادر سے بھتہ مانگتے رہے ہیں اور اس واقعے کا تاثر آرہا ہے کہ یہ نادر پر بھی حملہ ہو سکتا ہے یا اسے ڈرانے کے لیے کیا ہے۔ واقعے کا مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔‘
دوسری جانب سیما حیدر کا معاملہ چل رہا تھا جس پر ڈاکوؤں کی جانب سے دھمکی آویز ویڈیوز بھی وائرل کی گئیں تھی۔
’ہم ہر پہلو سے واقعے کی تحقیقات کر رہے ہیں جس میں تین پہلو سامنے آ رہے ہیں نادر سے بھتے کا دوسرا ہندو برادری کو دھمکی دینا کا جبکہ تیسرا پہلو یہ بھی ہے کہ اس علاقے میں آگاہی برادری بھی رہتی ہے جس کی کچے کے ڈاکوؤں سے پرانی دشمنی بھی ہے آگاہی برادری نے پولیس سے یہ شبہ بھی ظاہر کیا ہے کہ یہ حملہ ان کے اوپر ہے۔‘
عرفان سموں کا کہنا ہے کہ تمام مندروں پر سکیورٹی سخت کر دی ہے جبکہ پولیس علاقے میں سرچ آپریشن کر رہی ہے۔
کشمور سے تعلق رکھنے والے مقامی صحافی شفیق احمد نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ غوث پور میں جو حملہ ہوا وہاں مذہبی رسومات کی ادائیگی ہوتی ہے جو شہر سے بالکل ہٹ کر ہے۔
’بافڑی برادری کی یہ عبادت گاہ ہے لیکن کچے کے علاقے سے یہ عبادت گاہ قریب ہوتی ہے۔ اس وقت ہندو کمیونٹی میں خوف و ہراس پھیل گیا ہے جبکہ سندھ حکومت کی جانب سے سکیورٹی سخت کر دی گئی ہے تاکہ کوئی ناخوش گوار واقعہ پیش نہ آ سکے۔‘
شفیق احمد نے تجزیہ کرتے ہوئے کہا: ’کچے کے علاقے میں موجود جرائم پیشہ افراد اپنے آپ کو میڈیا میں اجاگر کرنے کے لیے یہ ہتھکنڈے استعمال کر رہے ہیں۔ غوث پور میں حملے اور ویڈیو کو وائرل کرنا صرف پروپیگنڈا ہے۔‘