لاہور کی احتساب عدالت نے جمعرات کو وزیر اعظم شہباز شریف اور ان کے بیٹے سابق وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز کو منی لانڈرنگ مقدمے میں بری کر دیا۔
احتساب عدالت کے جج قمرالزمان نے چند دن پہلے سماعت مکمل ہونے پرمحفوظ کیا گیا فیصلہ آج جمعرات کو سنایا۔ قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے بنائے گئے ریفرنس میں شہبازشریف، حمزہ شہباز سمیت کُل 16 ملزمان کو نامزد کیا گیا تھا۔
2020 میں بنائے گئے نیب ریفرنس میں شہباز شریف اور ان کے خاندان کے دیگر افراد حمزہ شہباز، سلمان شہباز، رابعہ شہباز اور نصرت شہباز کو فریق بنایا گیا تھا۔ شریف فیملی سمیت دیگر پر سات ارب 32 کروڑ روپے سے زائد کی منی لانڈرنگ اور غیر قانونی اثاثہ جات بنانے کا الزام عائد تھا۔
اس مقدمے میں شہباز شریف پر پانچ ارب روپے سے زائد منی لانڈرنگ اور غیر قانونی اثاثے بنانے کا الزام لگایا گیا تھا۔ جبکہ حمزہ شہباز اور سلمان شہباز پر ایک ایک ارب روپے تک کے اثاثے اور منی لانڈرنگ کرنے کا الزام تھا۔
اس کیس کی سماعت دو سال تک جاری رہی۔ عدالت میں نیب پراسیکیوشن کی جانب سے مختلف شہادتیں اور ثبوت پیش کیے گئے۔ دوران سماعت شہباز شریف اور حمزہ شہباز کے وکلا نے ان کی بے گناہی سے متعلق دلائل پیش کیے۔
وکلا نے شہباز شریف اور حمزہ شہباز پر نیب کے الزامات کو غلط ثابت کرنے کے لیے نیب ثبوتوں اور شہادتوں کو چیلنج کیے رکھا۔ اس کیس میں شہباز شریف بطور وزیر اعظم اور حمزہ شہباز بطور وزیر اعلیٰ پنجاب پیش ہوتے رہے۔
عدالت میں شہباز شریف اور حمزہ شہباز کے وکلا کی جانب سے ان کی بریت کی درخواست دائر کی گئی تھی۔ جس پر دلائل مکمل ہونے کے بعد عدالت نے چند دن پہلے فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
درخواست میں موقف اپنایا گیا تھا کہ نیب کی جانب سے شہباز شریف اور ان کی فیملی پر جو منی لانڈرنگ کا الزام لگا کر ریفرنس بنایا گیا تھا نیب اسے ثابت نہیں کر سکا لہذا انہیں باعزت بری کیا جائے۔
نیب نے بھی 10 مئی کو عدالت میں شہباز شریف اور حمزہ شہباز کے بے گناہ ہونے کی رپورٹ جمع کرا دی تھی۔
ماضی کی تحقیقات
اس سے قبل اکتوبر 2022 میں ایف آئی اے کی جانب سے شہباز شریف کے خاندان پر بینک اکاؤنٹس میں اربوں کی منی لانڈرنگ سے غیر قانونی ٹرانزیکشن کے کیس میں بھی احتساب عدالت انہیں بری کر چکی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وزیر اعظم شہباز شریف جب گذشتہ برس اقتدار میں آئے تو ان پر منی لانڈرنگ، اختیارات کے ناجائز استعمال اور دولت کے ذرائع آمدن سے مطابقت نہ رکھنے کے مقدمات چل رہے تھے۔
یہ مقدمے بیک وقت نیب اور وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے کے کی عدالتوں میں زیر سماعت تھے۔ جب کہ نیب کے دو مقدمات میں ان پر فرد جرم عائد ہونے کے بعد ٹرائل کا آغاز ہو چکا تھا۔
صرف یہی نہیں بلکہ ان کے دونوں بیٹے حمزہ شہباز اور سلمان شہباز بھی ان کے ساتھ شریک ملزمان کی فہرست میں شامل تھے۔
جب گذشتہ برس اپریل میں شہباز شریف نے بطور وزیر اعظم حلف اٹھایا تو وہ ایک ملزم کی حیثیت سے عدالتوں میں پیش بھی ہوتے رہے۔
وہ اب تک ایف آئی اے کے 16 ارب روپے کے منی لانڈرنگ کے مقدمے میں اور اپنے دونوں بیٹوں سمیت بری ہوچکے ہیں۔
مقدمات کی موجودہ صورت حال
وزیر اعظم شہباز شریف اور ان کے خاندان کے دیگر افراد جن میں ان کی بیٹی اور داماد بھی شامل ہیں پر عمران خان کے دور حکومت میں چار مقدمات بنائے گئے۔
سب سے پہلا مقدمہ آشیانہ ہاوسنگ سوسائٹی پراجیکٹ میں کرپشن کا تھا جس میں نیب نے انہیں اپنے دفتر بلا کر گرفتار کیا اور وہ دو سال جیل میں رہے۔
دوسرا مقدمہ رمضان شوگر ملز سے متعلق تھا۔ ان پر اور ان کے دونوں بیٹوں پر الزام تھا کہ انہوں نے اپنی شوگر مل کے لیے سرکاری خرچ پر سڑک اور سیوریج سسٹم بنائے۔
تیسرا مقدمہ ان پر نیب نے منی لانڈرنگ اور آمدن سے زائد اثاثے رکھنے کے الزامات پر ہوا۔ یہ وہ مشہور زمانہ مقدمہ تھا جس میں ’مقصود چپڑاسی‘ نام کے شخص کا اکاؤنٹ استعمال ہونے کی خبریں بھی پاکستانی میڈیا کی زینت بنیں۔ چوتھا مقدمہ ایف آئی اے نے بنایا جس میں منی لانڈرنگ اور کرپشن کے الزامات عائد کیے گئے۔ اس مقدمے میں ایف آئی اے کی عدالت نے شہباز شریف اور ان کے دونوں بیٹوں کو باعزت بری کر چکی ہے۔
رمضان شوگر مل نیب عدالت نے نیب قوانین میں تبدیلی کے بعد یہ کہہ کر واپس بھیج دیا کہ اس عدالت کا اس کیس کو سننے کا دائرہ اختیار ختم ہو چکا ہے۔
نیب کے آشیانہ اور منی لانڈرنگ دونوں مقدموں میں اس وقت بریت کی درخواستیں دائر ہو چکی ہیں اور نیب نے باضابطہ طور پر اپنے الزام عدالت کے روبرو واپس لے لیے ہیں۔
عدالتی ریکارڈ کے مطابق وزیر اعظم شہباز شریف اوران کے خاندان کے افراد چار مقدمات میں سے ایک اور دو میں بری ہوچکے ہیں۔
عدالت نے شہباز شریف اور ان کے بیٹوں کو مقدمات سے بری تو کر دیا البتہ ان تمام ایف آئی اے کے افسران کے خلاف کارروائی کے لیے حکومت کو حکم جاری کر رکھا ہے جنہوں نے ’ناقص تفتیش اور ایسا مقدمہ‘ بنایا جس میں یہ شواہد سامنے آئے کہ کیسے حکومتی دباؤ سے یہ مقدمہ بنایا گیا۔
اسی سلسلے میں عدالت نے اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان کے مشیر شہزاد اکبر کے خلاف بھی کارروائی کا حکم دے رکھا ہے۔