کہتے ہیں، ماضی کو یاد کیا جانے لگے تو یہ بوڑھے ہونے کی نشانی ہے۔ کیا میں بوڑھی ہو رہی ہوں؟ معاملہ کچھ ایسا ہے۔ گزرے وقت کا جادو مجھے اپنے حصار میں لیتا جا رہا ہے۔ اب میں بڑے بوڑھوں کی طرح گاہے گاہے ’اپنے زمانے‘ کی باتیں کرنے لگی ہوں۔ یہی کوئی چار پانچ برس پہلے کے زمانے کی باتیں۔
اس دور میں ٹیکنالوجی تھی مگر اس کا استعمال کم سے کم ہوتا تھا۔ دفاتر میں کمپیوٹر تھے لیکن فقط گیم کھیلنے کے لیے استعمال ہوتے تھے۔ ای میل اکائونٹ تھے، پر ای میل پڑھنے کا رواج نہیں تھا۔ کسی کو ای میل بھیجنے کے بعد ایسے لگتا تھا جیسے کسی اندھے کنویں میں پتھر پھینک دیا ہو۔ اتنی گہرائی کہ پتھر کے پانی کو چھونے کی آواز تک نہ آئے۔ تب میں چڑتی تھی۔ غصہ کرتی تھی، لیکن آج جب انھی لوگوں کو ٹیکنالوجی کا بھدا استعمال کرتے دیکھتی ہوں، تو خدا کا شکر ادا کرتی ہوں، کہ اس نے مجھے کاغذ قلم کے عہد میں پیدا کیا۔
چار سال پہلے کا قصہ ہے۔ قدرت کی مہربانی سے مجھے اعلیٰ تعلیم کے لیے بیرونِ ملک جانے کا موقع ملا۔ ویزے کی شرائط میں سے ایک شرط ایچ ای سی سے منظور شدہ ڈگری تھی۔ ڈگری تو میرے پاس تھی، لیکن اس پر ایچ ای سی کا ٹھپہ نہیں تھا۔ تھوڑی بہت معلومات حاصل کیں تو پتہ چلا کہ ٹھپہ لگوانے کا عمل سادہ سا ہے۔ جس روز جی چاہے، ڈگریاں اٹھا کر ایچ ای سی کے دفتر پہنچ جائیں، قطار میں لگ کر ٹوکن حاصل کریں، ٹوکن مل جائے تو اے سی لگے ٹھنڈے کمرے میں بیٹھ کر اپنی باری کا انتظار کریں۔ باری آنے پر ڈگری جمع کروائیں، فیس ادا کریں اور دوپہر تک ٹھپہ لگی ڈگری وصول کر لیں۔ جن کی قسمت میری قسمت سے ذرا ماٹھی نکل آتی انہیں اگلے دن پھر آنا پڑ جاتا تھا۔ خیر پہلے نہیں تو دوسرے روز معاملہ نمٹ ہی جاتا تھا۔
میں نے ایک روز میں تمام ڈگریوں پر ٹھپہ لگوایا اور ’اصلی‘ یعنی تصدیق شدہ ڈگریاں اٹھائے ایک اور ڈگری لینے چل دی۔ ہوا یوں کہ میرے جاتے ہی ایک نیا دور شروع ہو گیا۔ ایچ ای سی نے ٹیکنالوجی کا موثر استعمال کرتے ہوئے ڈگری کی تصدیق کا نصف عمل آن لائن کر دیا۔ اب طالب علم کسی بھی روز ایچ ای سی کے دفتر جا کر صاحب لوگوں سے اپنی ڈگری پر ٹھپہ نہیں لگوا سکتے۔ ڈگری ہولڈر کو سند کی تصدیق کے لیے اسے ایچ ای سی کی ویب سائٹ پر آن لائن ایک فارم پُر کرنا پڑتا ہے۔ ایچ ای سی، اُس فارم کی جانچ کرتی ہے، جس کا جواب سات سے دس دن میں دیا جاتا ہے۔ اگر فارم صحیح طرح پُر کیا گیا ہو، تو سند کی تصدیق کے لیے اپائنٹمنٹ لی جا سکتی ہے۔ مگر فارم بھرنے میں کوئی غلطی رہ گئی ہو تو اس کی تصحیح کے بعد، فارم کی پھر سے پڑتال کی جاتی ہے۔ اپائنٹمنٹ عموماَ دو سے تین ہفتوں کے بعد کی تاریخ میں ملتی ہے، جو بے شک و شبہ طالب علموں کے لیے پریشان کن امر ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
طالب علموں کی اس پریشانی کو زائل کرنے کے لیے ایچ ای سی نے کمال مہر بانی کرتے ہوئے ارجنٹ اٹیسٹیشن کا آپشن متعارف کروایا ہے۔ فوری تصدیق کی سہولت، محض پانچ ہزار روپے کی معمولی رقم ادا کر کے حاصل کی جا سکتی ہے۔ اس سے اسناد کی تصدیق کا عمل چار ہفتوں کی طویل مدت کے بجائے صرف تین ہفتوں کی مختصر مدت میں مکمل ہو جاتا ہے۔ پانچ ہزار سکہ رائج الوقت میں ایک ہفتے کی اس بچت اسکیم کو متعارف کروانے کے لیے طلبا و طالبات کے والدین تہہ دل سے ایچ ای سی کے شکر گزار ہیں۔
ایک نالائق طالب علم نے روتے پیٹتے شکوہ کیا کہ پہلے ہی ہمیں کورس مکمل ہونے کے دو سال بعد ڈگری دی جاتی ہے، اوپر سے ایچ ای سی کی پخ؟ آخر ایک ہی بار تصدیق شدہ سند کیوں نہیں دے دی جاتی؟ احمق طالب علم کے تئیں اس کا سوال خاصا جاندار تھا اور تجویز بھی بہت مناسب۔ پھر کچھ معترضین طنز کرتے ہیں کہ افسری کا مزہ تو تب آتا ہے جب دو چار سفارشی فون آتے ہیں، کوئی کسی کی مدد کی گزارش کرتا ہے اور پھر احسان جتاتے ہوئے ان کا جائز کام ناجائز مدت میں کیا جاتا ہے۔ اگر افسر کرسی کا قرض اتارنے لگ گئے اور عوام دوست پالیسیاں بننے لگیں تو افسری کا رعب خاک قائم ہو گا؟ دفاتر کے باہر لگی لمبی لمبی قطاریں ختم ہو گئیں تو دفتر جانے کا کس کا جی چاہے گا؟
ان شکایت کنندگان کا خیال ہے کہ بعض اوقات افسروں کا خیال رکھنے کے لیے بھی پالیسیاں بنا دی جاتی ہیں۔ اب چاہے اس پالیسی سے لاکھوں لوگ متاثر ہو رہے ہوں۔ لیکن وہ کیا جانے کہ وطنِ عزیز میں اتنی آسانی سے ہر کام ہونے لگے تو افسروں کو کس بات کی تنخواہ دی جائے؟ افسری کا مزہ تو کام میں ہے۔ اسی لیے تو افسروں کا کام بڑھایا جاتا ہے کہ شب و روز محنت کریں تا کہ رہے نام افسر کا۔
آہ! آخر میں پھر وہی پرانے زمانے کی یاد کہ طالب علموں کو اس آن لائن سسٹم کا شکار ہوتا دیکھ کر مجھے اپنا وہ دور یاد آتا ہے جب میں نے ایک ہی دن میں اپنی ڈگری پر ٹھپہ لگوا لیا تھا۔ اس نئے سسٹم کے شکار بچے جب مجھے روتے پیٹتے دکھائی دیتے ہیں، تو سچ مانیے، من ہی من میں مجھے ایک کمینی سی خوشی بھی محسوس ہوتی ہے، جیسے میرے بڑوں کو میرے مسائل سننے کے بعد ہوتی تھی۔ ان بچوں کے دُکھڑے سننے کے بعد میں فخریہ انھیں ایک ہی روز میں اپنی اصلی اور تصدیق شدہ سند کے حصول کی داستان سنانے بیٹھ جاتی ہوں۔ نا ہنجار مجھے یوں تکتے ہیں، جیسے میں اپنے بچپن میں جنوں پریوں کی کہانیاں سن کر امی جان کا چہرہ تکا کرتی تھی کہ اچھا یوں بھی ہوتا ہے؟