وطنِ عزیز میں خبر نامہ سننے کے لیے بڑا دل گردہ چاہیے۔ اگر کوئی شخص حاضر دماغی سے ساری خبریں سنے تو دنگ رہ جائے گا کہ درجنوں لوگوں کی موت کی خبر کتنی آسانی سے دے دی جاتی ہے۔
کبھی آپ مشاہدے کی آنکھ سے دیکھیں تو معلوم ہو گا کہ 10، 12 افراد کی موت کی خبر تو ہم چہرے کے تاثرات بدلے بغیر ہی سن لیتے ہیں۔ ہمارے تاثرات میں تبدیلی اور جذبات اس وقت ابل پڑتے ہیں جب کوئی بڑا سانحہ رونما ہوتا ہے۔
رواں برس جون میں یہ یونان میں تارکینِ وطن کی کشتی ڈوبنے کے چند روز بعد صبح کا وقت تھا۔ خبر سنانے والے سینکڑوں افراد کی موت کی اطلاع اپنے چینل کے میوزک کے ساتھ دیے جا رہے تھے۔ یہ میوزک پل بھر کو رکتا تو روتی ہوئی ماں کا بیان نشر ہوتا جو اپنے لخت جگر کے جانے پر خون کے آنسو بہاتے ہوئے کہتیں: ’وہ جاتے جاتے کہہ گیا تھا، ماں! اب میں گھر آکے ملوں گا یا اخباروں میں ملوں گا۔‘ اگلے ہی لمحے ایک بہن روتے ہوئے بتاتی: ’بھائی ہمارا واحد سہاراتھا۔‘
حادثے کے بعد انسانی سمگلروں کے خلاف کریک ڈاؤن کی خبریں بھی دی جا رہی تھیں، تاہم سینکڑوں لوگوں کے جان سے گزر جانے کے بعد یہ کارروائی محض رسمی معلوم ہوئی۔
ان اموات کی خبروں کے درمیان ایک خبر سنی کہ حکومت نے معاشی بحالی کا قومی پلان ترتیب دیا ہے۔ اس پروگرام کے تحت مختلف شعبوں میں پاکستان کی اصل صلاحیت سے استفادہ کیا جائے گا۔
اس پلان کو پیش کرنے والوں میں کسی نے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری گنوائی تو کسی نے نوجوانوں کو ملازمت کے لاکھوں مواقع ملنے کی نوید سنائی۔
یہ خبر سنتے ہی ذہن میں خیال ابھرا کہ اگر پاکستانیوں کی اصل صلاحیتوں سے استفادہ کیا جاتا تو سینکڑوں نوجوان آج سمندر کی بے رحم موجوں کے حوالے نہ ہوتے۔ نہ ہی لاکھوں تربیت یافتہ نوجوان اس ملک سے کوچ کر جاتے۔ حکومت قانون نافذ کرنے والے اداروں کی صلاحیتوں سے ہی مکمل استفادہ کر لیتی تو آج ملک سوگ میں نہ ڈوبا ہوتا۔
مختار مسعود اپنی کتاب ’آوازِ دوست‘ میں لکھتے ہیں کہ تحریک پاکستان میں جب طلبہ نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تو ناقدین نے کہنا شروع کر دیا کہ نوجوانوں کا تعلیمی نقصان ہو رہا ہے۔ اس تنقید کو سن کر خواجہ ناظم الدین نے بیٹے کو خط میں لکھا کہ ’بیٹا! تحریک کے کام میں کوئی سستی نہیں ہونی چاہیے۔ تم تو اگلے سال امتحان میں بیٹھ سکتے ہو، پر قوموں کا ایسا امتحان ہر سال نہیں آتا۔‘
جب سے آنکھ کھولی یہ جملہ سنتے آئے ہیں کہ پاکستان اس وقت مشکل ترین دور سے گزر رہا ہے، تاہم محسوس ہوتا ہے کہ اس بار حالات اس جملے پر پورا اترے ہیں۔ امتحان کا وقت اب بھی ہے تو سوچا کہ دیکھ لیا جائے کہ والدین اس دور میں بچوں کو کیا نصیحت کرتے ہیں۔
خط کا دور پرانا ہوا، یوں ایک والد کو بیٹے سے ہم کلام ہوتے سنا۔ بولے: ’بیٹا! چاہے مجھے کچھ بھی بیچنا پڑے، تم ملک سے باہر جانے کی تیاری کرو۔‘
نوجوانوں کو کیا چیز اس حد تک لے گئی ہے کہ وہ ملک چھوڑ کے جانے کے لیےکچھ بھی کرنے کو تیار ہیں؟ اس سوال کا جواب اُس نوجوان سے بہتر کون دے سکتا ہے جو یونان کشتی حادثے میں موت کو اتنے قریب سے دیکھ آیا ہو۔
اس بدترین انسانی آفت سے زندہ بچ جانے والے ایک نوجوان نے بتایا کہ پاکستانیوں کو کشتی کے نچلے درجے میں رکھا گیا تھا۔ لاکھوں روپے لینے کے باوجود بھی نہ کچھ کھانے کو تھا نہ پینے کو۔ شکوہ کرنے والوں کو مار کر، چپ کروا کر بٹھا دیا جاتا تھا، لیکن ہم پھر بھی پُر امید تھے کہ اب پاکستان سے نکل کر جہاں بھی جا رہے ہیں، وہاں جا کر زندگی بن جائے گی۔
چین میں تعلیم کی غرض سے مقیم ایک دوست سے ملک واپسی کے بارے میں پوچھا تو جواب ملا کہ وہ تو چین سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد آسٹریلیا جانے کا ارادہ کر چکے ہیں۔
ان سے واپس نہ لوٹنے کی وجہ پوچھی تو کہا کہ ’دیکھا جائے تو یہاں بھی حالات اس کشتی سے کچھ مختلف نہیں ہیں۔ یہاں بھی ہمیں تمام تر سہولیات سے دور نچلے درجے میں رکھا جاتا ہے۔‘
مزید بولے: ’زندگی اللہ کا تحفہ ہے، اس تحفے کی اس سے بڑھ کر کیا ناقدری ہو گی کہ یہ ملک کے حالات بہتر ہونے کے محض دعوؤں کے سہارے گزار دی جائے۔‘
مزید وجوہات دریافت کرنے کو کچھ سوال سامنے رکھے تو دوست نے جواب دینے سے معذرت کر لی۔ ان کا کہنا تھا کہ مزید جوابات کے لیے آپ کو ان لوگوں سے رابطہ کرنا چاہیے، جنہیں اربابِ اختیار یا پالیسی میکرز کہا جاتا ہے۔
اربابِ اختیار کے بیانات کی روشنی میں ان کے ذہن میں جھانک کر دیکھا تو یہ معلوم ہوا کہ وہ اس صورت حال سے پریشان نہیں ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ وہ نوجوانوں کو اس ملک کا اثاثہ نہیں سمجھتے، لیکن شاید ان کے ذہن میں بیٹھ چکا ہے کہ ہمارے اثاثے باہر ہی ہوا کرتے ہیں۔
پاکستان، جو کبھی زرعی مصنوعات میں خودکفیل ہونے کی وجہ سے اقوام عالم میں ایک درجہ رکھتا تھا، آج اس کی سب سے بڑی ایکسپورٹ نوجوان طبقہ ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جہاں اپنے ملک کے حکمران طبقے کی محدود سوچ دیکھ کر افسوس ہوا، وہیں دوسرے ممالک کے پالیسی سازوں کی دور اندیشی دیکھ کر حیرت ہوئی۔ وہ نوجوان جنہیں 20، 20 ہزار کی نوکریاں دینے کے علاوہ ہمارے پاس کوئی واضح انتظام نہیں ہے، وہ ممالک انہیں لاکھوں ڈالرز کی سکالرشپس دے کر اپنے ملک آنے کی دعوت دے رہے ہیں۔ یقیناً وہ نوجوان انسانی وسائل کی وقعت سے بخوبی واقف ہیں۔
قوموں کی ترقی کا راز بتانے والے کہتے ہیں کہ اُس قوم کو ترقی کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا، جس میں نوجوان آبادی کا تناسب زیادہ ہو۔ یو این ڈی پی کی حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں نوجوان آبادی کا تناسب 64 فیصد ہے، جو کہ دنیا میں پانچویں بڑی نوجوان آبادی ہے۔
نوجوان آبادی کا یہ تناسب تو بھلا معلوم ہوتا ہے، تاہم جس رفتار سے نوجوان دوسرے ممالک کا رخ کر رہے ہیں وہ پریشان کن ہے۔ گذشتہ سال تقریباً آٹھ لاکھ سے زائد تربیت یافتہ نوجوانوں نے ملک سے ہجرت کی۔ رواں سال کے ابتدائی پانچ ماہ کے اعداد و شمار یہ تعداد تین لاکھ سے زائد بتاتے ہیں، یوں اس سال بھی اس میں مزید اضافہ دکھائی دے رہا ہے۔
غیر قانونی طور پر جانے والے بھلا کہاں گنتی میں آتے ہیں۔ اگر انہیں شمار کر لیا جائے تو یہ تعداد 10 لاکھ سے زائد ہو جائے گی۔ آپ ان اعداد و شمار کو پرکھنا چاہیں تو ابھی اپنے شہر کی کسی مصروف شاہراہ پر پانچ چھ افراد سے رائے جان لیں۔ آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ ہر دوسرا فرد باہر جانے کے لیے رختِ سفر باندھ چکا ہے، بس بہتر موقعے کی تلاش میں ہے۔
جنہوں نے اس ملک کی بھاگ دوڑ سنبھالنا تھی، وہ جس حساب سے اس ملک سے بھاگ رہے ہیں، آنے والے وقت میں یہ توازن بری طرح بگڑنے والا ہے۔ ایسے میں ہمارے پاس اس کے سوا کوئی تدبیر نہیں کہ ہم نوجوان آبادی کی قدر کریں اور ان کی صلاحیتوں سے استفادہ کریں۔
جو نوجوان اس ملک سے جا چکے ہیں یا جو نئی زندگی کی خواہش میں یورپ کے سمندروں میں جان کی بازی ہار چکے ہیں، اب انہیں یہ کہہ کر جتنی مرضی آواز دے لی جائے کہ ’چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے،‘ جب یہ صدا لوٹ کر آئے گی تو کچھ یوں ہوگی: ’چمن میں آئے گی فصلِ بہاراں، ہم نہیں ہوں گے۔‘