پاکستان کے صوبہ پنجاب کے جنوبی اضلاع میں حال ہی میں دو اعلیٰ تعلیمی اداروں میں ہراسانی اور مبینہ منشیات کی برآمدگی کے سکینڈل گذشتہ کچھ دونوں میں سامنے آئے ہیں۔
پہلے اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں چیف سکیورٹی انچارج کی گرفتاری اور ان کے قبضے سے مبینہ طور پر منشیات اور خواتین کی نازیبا ویڈیوز برآمد ہوئیں۔
پھر بہاوالدین زکریا یونیورسٹی میں شعبہ اردو کی طالبہ نے ایک پروفیسر پر ہراسانی کا الزام عائد کیا۔
ان دونوں کیسز میں یونیورسٹی کے ذمہ داروں نے تحقیقات کرانے کا دعویٰ کیا ہے لیکن ان کے تحفظات بھی ہیں کہ ’بلاوجہ معمولی خرابیوں‘ کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے جس سے ان یونیورسٹیوں کی ساکھ متاثر ہونے کا اندیشہ ہے۔
لیکن اساتذہ اور والدین کا کہنا ہے کہ سب سے زیادہ مشکل لڑکیوں کو ہے کیوں کہ انہیں ایسے حالات میں مختلف سوالات کے جوابات دینا ہوتے ہیں۔
ہراسانی کے الزامات میں کتنی صداقت؟
جامعہ بہاوالدین زکریا ملتان میں شعبہ اردو ایم فل کی ایک طالبہ شہناز (فرضی نام) نے بتایا کہ انہوں نے 2019 میں یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں داخلہ لیا اور ہاسٹل میں الاٹمنٹ کرائی۔
شہناز نے، جو نقاب کرتی تھیں، دعویٰ کیا کہ ایک دن ایک پروفیسر نے اسائنمنٹ جمع کرانے کے بہانے انہیں اپنے دفتر بلایا اور جب وہ وہاں گئیں تو انہوں نے نقاب اتارنے پر اسرار کیا، لیکن انہوں نے انکار کر دیا۔
شہناز کے بقول: ’اس کے بعد پروفیسر صاحب انہیں بہانے بہانے سے دفتر بلاتے اور نقاب اتارنے کا تقاضہ کرتے رہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’ایک روز سر نے مجھے اپنے آفس بلایا اور کہا کہ میں ان سے جسمانی تعلق بناؤں تو وہ مجھے اچھے نمبروں سے پاس کر دیں گے۔
’میں نے ان کے آفس جاتے ہوئے ایک خاتون ٹیچر کو فون ملایا تاکہ وہ یہ ساری باتیں اپنے کانوں سے سن سکیں۔ لیکن میں نے پھر سر کو انکار کر دیا اور دفتر سے باہر نکل آئی۔ کچھ عرصے بعد میں نے ایم اے اردو کا امتحان پاس کر لیا۔‘
شہناز کے مطابق بعد میں جب انہوں نے اسی یونیورسٹی میں ایم فل ڈگری میں داخلہ لینے کے لیے 2021 میں انٹری ٹیسٹ دیا تو اس وقت تک ہراساں کرنے والے پروفیسر شعبے کے انچارج بن چکے تھے، لہذا انہوں نے انہیں انٹری ٹیسٹ میں فیل کرا دیا۔
’اس دوران میں نے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں داخلہ لے کر گھر میں ہی بی ایڈ کی تیاری شروع کر دی۔ ایک سال بعد یعنی 2022 میں جب ایم فل داخلہ کے لیے انٹری ٹیسٹ کا وقت آیا تو دوبارہ ٹیسٹ دیا، اس بار میں کامیاب ہوگئی اور ایم فل اردو میں داخلہ لے لیا۔‘
شہناز کہتی ہیں کہ جب انہوں نے ایم فل کلاسوں میں جانا شروع کیا تو اسی پروفیسر نے انہیں پھر دفتر بلایا اور کہا کہ اگر اب ان کی بات نہ مانی تو وہ فیل کر دیں گے، انکار پر انہوں نے مجھے اسائنمنٹ جمع نہ کرانے کی بنیاد پر فیل کر دیا۔
’جب انہوں نے فیل کیا تو میں نے یونیورسٹی حکام کو درخواستیں دیں جس پر دو انکوائریز ہوئیں۔ ایک انکوائری میں وہ خاتون ٹیچر گواہی سے مکر گئیں جنہیں میں نے فون پر پروفیسر سے گفتگو سنائی تھی لہٰذا کمیٹی نے فیصلہ دیا کہ ہراساں کرنے کا الزام جھوٹا ہے اسی دن مجھے ہاسٹل سے بھی بغیر نوٹس دیے نکال دیا گیا۔‘
’جب گھر پہنچی تو مجھے ایک کروڑ روپے ہرجانے کا نوٹس موصول ہوا جو مجھے ہراساں کرنے والے پروفیسر کی جانب سے بھجوایا گیا تھا۔‘
شہناز کے بقول، ’انہوں نے وائس چانسلر محمد علی شاہ کو پھر درخواست دی جس پر انہوں نے پروفیسر عابد کھرل کی سربراہی میں کمیٹی تشکیل دی، جنہوں نے میرے الزامات سنے لیکن میرے وہ پرچہ جس میں فیل کیا گیا دوبارہ چیک کرنے کی سفارش نہیں کی جس سے ایک سال پہلے ضائع ہوا اور اب ایم فل کے مضمون میں فیل کیے جانے پر سال ضائع ہونے کا خدشہ ہے۔ اس معاملے پر گورنر پنجاب کو بھی درخواست دے چکی ہوں۔‘
ہراسانی کے الزام کا سامنے کرنے والے مذکورہ پروفیسر نے انڈپینڈںٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ان کی عمر 60 سال ہوچکی ہے اور وہ 30 سال سے پڑھا رہے ہیں۔
انہوں نے خود پر لگے الزام کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ شہناز ایک وقت میں دو دو ڈگریاں کرنا چاہتی تھیں لہٰذا وہ کلاس سے اکثر غیر حاضر رہیں اور اسائنمنٹس بھی جمع نہیں کرائے جب وہ فیل ہو گئیں تو ہراسانی کا الزام عائد کر دیا۔
’میں 30 سال میں ہزاروں طالبات کو پڑھا چکا ہوں۔ پہلے کبھی کسی نے ایسی کوئی شکایت نہیں کی، انہیں ہراساں کیوں کروں گا؟‘
یونیورسٹی کے وائس چانسلر محمد علی شاہ نے کہا ’شعبہ اردو کی طالبہ کے پروفیسر پر لگائے گئے الزام کی انکوائری کرائی گئی ہے اور انکوائری ٹیم میں مرد اور خواتین اساتذہ موجود تھے، ان کی سفارشات پر عمل کیا جا رہا ہے۔
’انکوائری میں ثابت ہوا کہ جس طرح کے الزامات لگائے گئے وہ پوری طرح درست نہیں بلکہ بڑھا چڑھا کر پیش کیے جا رہے ہیں۔‘
وائس چانسلر کے مطابق ’اساتذہ پر معمولی غلط فہمی کو بنیاد بنا کر الزام کو سنگین بنانے سے پہلے سوچنا چاہیے کہ اساتذہ کا احترام ضروری ہے ان کی بھی عزت ہے۔
’جس پروفیسر پر الزام لگایا گیا وہ شعبہ اردو کے انچارج ہیں انہیں انکوائری کمیٹی کی سفارشات پر تبدیل کیا جا رہا ہے تاہم وہ ایسے ہی ایک ماہ بعد ریٹائر ہو جائیں گے۔‘
اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور
پولیس نے گذشتہ ہفتے اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے چیف سکیورٹی افسر کو گرفتار کر کے ان کے قبضے سے مبینہ طور پر منشیات کے علاوہ دو موبائل فون برآمد کیے تھے، جن میں پولیس کے مطابق طالب علموں اور یونیورسٹی کے عملے کی قابل اعتراض ویڈیوز موجود تھیں۔
یہ معاملہ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر کور ہوا۔ تاہم یونیورسٹی کے وائس چانسلر اطہر محبوب نے کہا ’ادارے کی طالبات بھی سوشل میڈیا پر اپنے پیغامات میں من گھڑت سکینڈل کی تردید کر رہی ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’یونیورسٹی میں 65 ہزار طالب علم ہیں جن میں سے 27 ہزار طالبات ہیں۔ یونیورسٹی کے ماحول پر اعتبار ہے تبھی طالبات یہاں پڑھنے آ رہی ہیں۔‘
واضح رہے کہ اس معاملے پر پنجاب حکومت اور پولیس نے دو الگ الگ تحقیقاتی ٹیمیں تشکیل دے دی ہیں۔
بہاوالدین زکریا یونیورسٹی کے وائس چانسلر محمد علی شاہ نے تعلیمی اداروں سے جڑے سکینڈلز کو من گھڑت اور تعلیمی اداروں کے ماحول کو خراب کرنے کا موجب قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ ’تمام یونیورسٹیوں میں ڈسپلن کمیٹیاں اور ہراسمنٹ کنٹرول کمیٹیاں موجود ہیں۔ اگر ایسی کوئی شکایت آتی ہے تو ہر یونیورسٹی انتظامیہ اسے سنجیدگی سے حل کرتی ہے۔
’مجھے پڑھاتے ہوئے کئی دھائیاں ہو چکی ہیں۔ اس دوران بہت سے ایسے الزامات سامنے آئے مگر انکوائری میں وہ جھوٹ نکلتے ہیں یا پھر بعض ٹھیک بھی ہوتے ہیں تو کسی کو سزا سے نہیں بچتے دیکھا۔‘
محمد علی شاہ کے مطابق: ’ملک میں خاص طور جنوبی پنجاب میں ویسے ہی تعیلمی ادارے آبادی کے لحاظ سے کم ہیں لہذا اس طرح کے پروپیگنڈا سے انہیں نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے۔‘
ان کے بقول، ’اس ملک میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں پاکستان خاص طور پر جنوبی پنجاب کی یونیورسٹیوں سے پڑھنے والے بچے بچیوں نے مختلف شعبوں میں اپنا نام بنایا اور خدمات سرانجام دے رہے ہیں لہٰذا چند واقعات کو مثال بنا کر ہونہار اور محنتی نوجوانوں کی کارکردگی کو مشکوک بنانے کی کوشش نہ کی جائے۔‘
ماہر تعلیم اور انسٹیٹیوٹ آف سٹیٹجک سٹڈیز کے سربراہ رسول بخش رئیس نے کہا کہ ’جہاں بھی انسان کام کرتے ہیں یا جمع ہوتے ہیں وہ مختلف قسم کے واقعات کا رونما ہونا قدرتی ہے۔ لیکن جس طرح ہمارے ہاں چھوٹے چھوٹے مسائل کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے اس کی دنیا میں کم مثال ملتی ہے۔‘
انہوں نے کہا ’جس طرح بہاولپور یونیورسٹی والے معاملے کو بغیر تحقیق کے اچھالا جا رہا ہے اس سے صرف اس ادارے اور وہاں تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کا مستقبل متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’اسی طرح دوسرے اداروں خاص طور پر جنوبی پنجاب میں ہراسانی کے واقعات کو ایسا رنگ دیا جاتا ہے جس سے فائدہ تو کچھ نہیں البتہ نقصان کافی ہوتا ہے۔
’ہر یونیورسٹی میں انتطامیہ اور کمیٹیاں موجود ہوتی ہیں اگر کوئی ایسا واقعہ ہو بھی جائےتو سزا وجزا کا نظام موجود ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ہمارے میڈیا اور سوشل میڈیا صارفین کو ذمہ داری کا احساس کرنا چاہیے اور تعلیمی اداروں کو بدنام کرنے کی بجائے حقائق جاننے کی کوشش کی جائے۔
’ملک میں کارروائی کے لیے ادارے موجود ہیں انہیں اپنا کام کرنے دیں ان کا کام اپنے ذمے لینے سے گریز کرنا چاہیے۔‘
جنوبی پنجاب میں اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور اور بہاوالدین زکریا یونیورسٹی ملتان میں سب سے بڑی سرکاری یونیورسٹیاں ہیں۔
سینیٹ میں پیش کی گئی محکمہ ہائر ایجوکیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق جنوبی پنجاب میں سرکاری یونیورسٹیوں کی کل تعداد نو اور پرائیویٹ کی 11 ہے۔
سرکاری یونیورسٹیوں میں تعلیم کے لیے لڑکیوں کو دوسرے شہروں میں بھیجنا والدین کے لیے مشکل فیصلہ ہوتا ہے۔ ایسے میں جب سکینڈلز سامنے آئیں تو والدین مذید پریشانی سے دوچار ہو جاتے ہیں۔
ضلع وہاڑی کے سکول ٹیچر تصدق حسین نے بتایا کہ ان کی دو بیٹیاں ہیں، ان میں سے ایک بہاوالدین یونیورسٹی میں بی ایس سوشالوجی جبکہ دوسری ایم اے انگلش کر رہی ہے۔
’پہلے تو خاندان میں انہیں جوان بیٹیوں کو ملتان پڑھنے کے لیے بھیجنے اور ہاسٹل میں رکھنے پر طعنوں کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ تو انہوں نے جیسے تیسے برداشت کیا لیکن جب بھی ہراسانی یا یونیورسٹیوں سے منشیات برآمد یا فروخت ہونے سے متعلق خبریں چلتی ہیں تو انہیں مذید لوگوں کی باتیں سننے اور اپنے اندر کے خدشات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‘
تصدق کے بقول جب بھی ایسی کوئی خبر سامنے آتی ہے تو وہ فوراً اپنی بیٹیوں کو فون کر کے خیریت دریافت کرتے ہیں۔
سکینڈل کا معاملہ قائمہ کمیٹی میں بھی زیر بحث
اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سے متعلق حالیہ سکینڈل کا معاملہ پیر کو قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے تعلیم اور پیشہ وارانہ تربیت میں بھی زیر بحث آیا۔
بہاولپور یونیورسٹی کے انتظامی معاملات سے متعلق قائمہ کمیٹی کا اجلاس پہلے سے طے تھا جس میں یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر اطہر محبوب کو بھی پیش ہونے کا کہا گیا لیکن وہ اجلاس میں نہیں پہنچے۔
سید سمیع الحسن کی صدارت میں قائمہ کمیٹی کے ہونے والے اجلاس میں اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے وائس چانسلر کا اجلاس میں نہ آنے پر سخت برہمی کا اظہار کیا گیا۔
کمیٹی کے چیئرمین نے کہا کہ اعلی تعلیم کے اداروں میں اس قسم کے واقعات کسی صورت برداشت نہیں کیے جا سکتے۔
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کے اعلی تعلیم کے انتظامی ادارے ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے چیرمین کو ہدایت کی کہ وہ سکینڈل سے جڑے تمام معاملے کی انکوائری کی نگرانی کریں۔