صوبہ خیبرپختونخوا کی معروف تعلیمی درسگاہ اسلامیہ کالج یونیورسٹی میں جنسی ہراسانی کیس کا ایک مقامی عدالت سے فیصلہ سنائے جانے کے 51 دن بعد بھی متاثرہ خاتون کے مطابق ان کو انصاف نہیں مل سکا ہے۔
جب کہ وائس چانسلر اسلامیہ کالج یونیورسٹی گل ماجد خان کے مطابق ان کا ادارہ تمام اقدامات قانون کی روشنی میں اٹھانے کا مجاز ہے۔
صوبائی محتسب برائے انسداد جنسی ہراسانی کی جانب سے سنائے گئے اس فیصلے میں اسلامیہ کالج یونیورسٹی کے شعبہ پولیٹیکل سائنس کے چئیرمین ڈاکٹر امیر اللہ کو جنسی ہراسانی کے الزام میں عہدے سے ہٹانے کی سفارش کی گئی تھی۔
تاہم 51 دن گزرنے کے بعد بھی متاثرہ خاتون آمنہ اشفاق کے مطابق یونیورسٹی کی انتظامیہ اور گورنر خیبر پختونخوا کی جانب سے فیصلے پر کوئی پیشرفت نہیں ہوئی اور متعلقہ ملزم ہنوز اپنی ملازمت برقرار رکھے ہوئے ہیں۔
’میں انصاف کے انتظار میں ہوں اور اگر گورنر خیبر پختونخوا کے دفتر سے مجھے انصاف نہ مل سکا تو میں اعلیٰ عدالت تک جاؤں گی لیکن مشکلات اور ذہنی اذیت کے باوجود میں ہار ماننے کو تیار نہیں ہوں۔‘
آمنہ اشفاق نے بتایا کہ انہوں نے صوبائی محتسب رخشندہ ناز کو خط لکھ کر انہیں ایک مرتبہ پھر حالات سے آگاہ کرکے ان سے مداخلت کی اپیل کی ہے۔
اس خط میں (جس کی کاپی انڈپینڈنٹ اردو کے پاس موجود ہے) صوبائی محتسب کو مخاطب کرکے لکھا گیا ہے کہ ’صوبائی محتسب کی جانب سے 12 اپریل 2021 کو سنائے گئے فیصلے پر یونیورسٹی کو من وعن عمدرآمد کرنے کا حکم سنایا گیا تھا تاہم باوجود ان احکامات کے یونیورسٹی انتظامیہ حیل وحجت سے کام لے رہی ہے اور آج تک اس مد میں کوئی ٹھوس اقدامات نہیں اٹھائے گئے ہیں۔‘
درخواست گزار کے مطابق ’یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے تاخیری حربوں کی وجہ سے وہ کافی دلبرداشتہ ہو گئی ہیں اور ان پر ذہنی دباؤ بڑھنے لگا ہے۔‘
صوبائی محتسب برائے انسداد ہراسانی کے مقدمات اور فیصلوں پر سوالیہ نشان
صوبائی محتسب برائے انسداد ہراسانی ادارہ کئی دیوانی مقدمات کو حل کرنے کے لیے ہائی کورٹ جتنے اختیارات رکھتا ہے۔ اس ادارے کے حالیہ فیصلے کے بعد ملزم امیراللہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا تھا کہ ’یونیورسٹی کی تحقیقاتی کمیٹی اور گورنر انویسٹی گیشن ٹیم (جی آئی ٹی ) کی رپورٹس میں انہیں بے گناہ قرار دیے جانے کے بعد صوبائی محتسب کے فیصلے کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہ جاتی۔‘
اسلامیہ کالج یونیورسٹی میں خواتین کے ساتھ جنسی ہراسانی کے معاملے کو مقامی و بین الاقوامی میڈیا میں کافی رپورٹ کیا گیا، یہی وجہ ہے کہ اس فیصلے پر عمل درآمد میں تاخیر کے بعد صوبائی محتسب برائے انسداد ہراسانی کے دیگر مقدمات اور فیصلوں سمیت اختیارات پر سوال اٹھنے لگے ہیں۔
جب اس بارے میں انڈپینڈنٹ اردو نے صوبائی محتسب سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ ’ان کا کام متعلقہ مسئلے کی تحقیقات اور اس کی روشنی میں فیصلہ سنانا تھا۔جس کے خلاف ملزم نے گورنر کو اپیل کی ہے۔ لہذا ان کا ادارہ مقدمے میں مزید کارروائی تک کوئی قانونی ایکشن لینے کا مجاز نہیں۔‘
’ہمارا کام فیصلہ سنانا تھا، وہ ہم نے کر دیا ہے۔ اپیل کرنا سزاوار شخص کا بنیادی حق ہے لہذا اس صورتحال میں اس اپیل کے خلاف جانا قانون کے مطابق درست نہیں ہے۔ اس بات پر کوئی ہمیں ذمہ دار نہیں ٹھرا سکتا ہے۔‘
اسلامیہ کالج یونیورسٹی ہراسانی مقدمے میں دوسرے شکایت کنندہ اور اس تعلیمی ادارے کے شعبہ وکالت کے طالب علم جابر خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ انتظامیہ کی جانب سے ان کے فیصلے میں ’بدنیتی کی بنیاد پر‘ تاخیر سے کام لیا جارہا ہے۔
’ہمیں گورنر تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ سے آج تک باخبر نہیں کیا گیا، نہ ہی ہمیں اس حوالے سے کسی قسم کی معلومات ہیں۔ ماسوائے اس انگریزی جانبدار رپورٹ کے، جس میں جے آئی ٹی رپورٹ کے فیصلے پر روشنی ڈالتے ہوئے ملزم کو بے گناہ قرار دیا گیا تھا۔‘
متعلقہ رپورٹر کو جے آئی ٹی رپورٹ گورنر ہاؤس سے موصول ہوئی تھی جو کہ بعد ازاں انڈپینڈنٹ اردو کو بھی موصول ہوئی۔
اس مبینہ رپورٹ میں ایک جگہ یہ اعتراف کیا گیا ہے کہ ’متذکرہ تعلیمی ادارے میں خواتین کو سازگار ماحول فراہم نہیں کیا گیا تھا اور نہ ہی متاثرہ خاتون کی شکایت پر انتظامیہ کی جانب سے بروقت کارروائی ہوئی تھی۔ ساتھ ہی یہ اعتراف بھی کیا گیا ہے کہ خاتون آمنہ اشفاق کو پروفیسر امیراللہ نے ڈرانے یعنی ’بلیئنگ‘ کی کوشش کی تھی۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اسلامیہ کالج انتظامیہ پر یہ الزام کہ وہ آمنہ کیس میں بدنیتی اور تاخیری حربوں سے کام لے رہے ہیں کے جواب میں یونیورسٹی کے وائس چانسلر گل ماجد خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان کا ادارہ تمام اقدامات قانون کی روشنی میں اٹھانے کا مجاز ہے۔
’خیبر پختونخوا یونیورسٹیز ایکٹ کے مطابق، 17 گریڈ سے اوپر افسران کی معطلی وائس چانسلر یا انتظامیہ کے اختیارات کے زمرے میں نہیں آتا بلکہ یہ سنڈیکیٹ کا کام ہے۔ میں نے بطور وائس چانسلر اپنا فرض ادا کرتے ہوئے صوبائی محتسب کا فیصلہ سنڈیکیٹ کو ارسال کر دیا ہے۔ اگر ان کا فیصلہ متعلقہ پروفیسر کے حق میں آیا تو وہ اپنی ملازمت جاری رکھیں گے اور اگر ان کے خلاف آیا تو وہ ہائی کورٹ میں اس کے خلاف اپیل کر سکتے ہیں۔‘
اسلامیہ کالج یونیورسٹی کی ایک طالبہ میمونہ زیب نے اس کیس پر خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’جب تک اس مقدمے کو کسی منطقی انجام تک نہیں پہنچایا جاتا، تعلیمی اداروں میں ہراسانی کے واقعات میں مزید اضافہ ہوگا، اور نہ صرف مجرمان کی حوصلہ افزائی ہوتی رہے گی بلکہ آئندہ کوئی مظلوم خاتون آواز اٹھانے کی ہمت نہیں کر سکے گی۔‘
پس منظر
نومبر 2020 کو اسلامیہ کالج یونیورسٹی کے شعبہ پولیٹیکل سائنس میں پڑھنے والی ایک طالبہ نے اپنے ڈیپارٹمنٹ کے چئیرمین پر ہراسانی کا الزام لگاتے ہوئےکہاتھا کہ چئیرمین نے انہیں غیر رسمی گفتگو کے بہانے اپنے دفتر بلا کر ان کے جسم کو چھونے کی کوشش کی تھی اور انہیں دوستی کی پیشکش بھی کی تھی۔ صوبائی محتسب نے تمام تحقیقات کے بعد ڈاکٹر امیراللہ کو خطاوار قرار دے کر اسلامیہ کالج یونیورسٹی سے ان کی برطرفی کی درخواست کی تھی۔