چین نے اپنے وزیر خارجہ شن گانگ کو ڈرامائی انداز میں عہدے سے ہٹانے کی کوئی وضاحت پیش نہیں کی جب کہ ایک سرکاری ویب سائٹ سے ان کے متعلق معلومات بھی حذف کر دی گئی ہیں۔
ایک ماہ سے زیادہ عرصے سے تک منظر نامے سے غائب رہنے والے شن گانگ کو بیجنگ کے قانون ساز ادارے نے منگل کو عہدے سے ہٹا دیا تھا، وہ صرف 207 دن تک وزیر خارجہ رہے۔
شن گانگ کی جگہ اب وانگ یی کو چین وزیر خارجہ مقرر کیا گیا ہے۔
پاکستان کے وزیرخارجہ بلاول بھٹو نے ایک ٹویٹ میں وانگ یی کو عہدہ سنبھالنے پر مبارک باد دیتے ہوئے لکھا، 'وانگ یی ایک ذہین اور تجربہ کار سفارت کار ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ ان کی نگرانی میں تزویراتی تعاون پر مبنی ہماری شراکت داری مزید مضبوط ہو گی۔'
I congratulate my brother Wang Yi on his appointment as China's Foreign Minister. FM Wang is an astute and seasoned diplomat whom I had the distinct pleasure of interacting with twice last year. I’m confident that under his watch our all-weather strategic cooperative partnership…
— BilawalBhuttoZardari (@BBhuttoZardari) July 25, 2023
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق کئی ہفتوں سے یہ قیاس آرائیاں کی جا رہی تھیں کہ شن گانگ صدر شی جن پنگ کی حمایت کھو بیٹھے تھے۔
بدھ کی صبح تک چین کی وزارت خارجہ کی ویب سائٹ سے 57 سالہ شن گانگ کا ہر حوالہ ہٹا دیا گیا۔
تاہم ان کا نام چین کی دیگر سرکاری ویب سائٹس بشمول سٹیٹ کونسل، وزارت تجارت اور سرکاری میڈیا کے اداروں پر موجود ہے۔
کئی ہفتوں تک بار بار پوچھے جانے کے باوجود وزارت خارجہ شن گانگ کے بارے میں کوئی تازہ ترین معلومات دینے سے انکار کرتی رہی کیونکہ اس سے قبل انہوں نے کہا تھا کہ وہ ’صحت‘ کے مسائل کے سبب ذمہ داری نہیں نبھا رہے۔
سرکاری میڈیا نے ان کی برطرفی کی کوئی وجہ نہیں بتائی لیکن ایک تجزیہ کار کا کہنا ہے کہ شن کی 'ڈیجیٹل شناخت مٹانے' سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنا مقام کھو چکے ہیں۔
امریکی تھنک ٹینک ایشیا سوسائٹی پالیسی انسٹی ٹیوٹ میں نیل تھامس نے ٹوئٹر پر کہا 'ایسے شواہد سامنے آ رہے ہیں جن سے لگتا ہے کہ یہ درحقیقت ایک سیاسی صفائی ہے۔'
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
خبررساں ادارے روئٹرز کے مطابق57 سالہ شن گانگ، صدر شی جن پنگ کے سابق معاون اور امریکہ میں ملک کے سفیر، نے گذشتہ دسمبر میں وزارت سنبھالی تھی لیکن 25 جون کے بعد سے وہ عوامی سطح پر نہیں دیکھے گئے۔
جان ہاپکنز یونیورسٹی میں چینی سیاست کے ماہر ہو فنگ ہنگ نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ 'باہر والے لوگ بالکل کچھ نہیں جانتے اور اس واقعے سے لگتا ہے کہ چینی سیاست اندر سے تیزی کے ساتھ غیر مستحکم ہوتی جا رہی ہے۔'
بنیادی طور پر شمال مشرقی شہر تیانجن سے تعلق رکھنے والے شن گانگ وزارت خارجہ کے پروٹوکول ڈپارٹمنٹ کے سربراہ کی حیثیت سے صدر شی جن پنگ کے ساتھ کئی بار نظر آئے۔
وزات خارجہ کے قلمدان کے لیے زیادہ تجربہ کار امیدواروں کے مقابلے میں شن گانگ کی تعیناتی بطور وزیر خارجہ تعیناتی ان پر صدر شی کے براہ راست اعتماد کی عکاسی تھی۔
شن گانگ وزیر خارجہ بننے سے قبل امریکہ میں چین کے سفیر بھی رہ چکے تھے۔
چین سے متعلق امور کے ایک ماہر نیسن محبوبی نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’میرے خیال میں اس کا سب سے بڑا اثر چینی حکام پر پڑے گا، جن کے لیے یہ پیغام ہو گا کہ کوئی بھی محفوظ نہیں ہے، چاہے وہ کتنے ہی اہم منصب پر کیوں نہ ہو یا شی جن پنگ نے ان کی جتنی بھی حمایت کیوں نا کی ہو۔‘